اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقا ت بنایا ہے۔ کسی بھی دوسری مخلوق میں وہ تمام صفات نہیں جو انسان کو ودیعت کی گئی ہیں اور اُس پر وہ ذمہ داریاں بھی عائد نہیں ہوتیں جو انسان کیلئے ہیں۔ ہم اپنے ماحول میں دیگر مخلوقات کو بھی دیکھتے ہیں یعنی وہ بھی ہمارے ساتھ ساتھ جی رہی ہوتی ہیں۔ ان کا بغور مشاہدہ کرکے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ پہلی اور سب سے نمایاں بات تو یہ ہے کہ دیگر مخلوقات کی زندگی بہت محدود ہوتی ہے۔ ان کا اس دنیا میں آنا اور یہاں سے جانا جس مقصد کے تحت ہوتا ہے اُس مقصد کا حصول یقینی بنانے کی صفت اُنہیں ودیعت کردی جاتی ہے، حاصل نہیں کرنا پڑتی۔ انسانوں سے ہٹ کر کسی بھی حیوان کو کسی بھی معاملے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرنا پڑتی۔ اُن کیلئے کوئی ماضی ہوتا ہے نہ مستقبل۔ اُنہیں اس دنیا میں آنا ہوتا ہے اور یہاں اپنا کام مکمل کرکے جانا ہوتا ہے۔ یہ کام چونکہ محدود ہوتا ہے اس لیے انہیں کچھ خاص تگ و دَو نہیں کرنا پڑتی۔
انسان کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ اُسے محض جینا نہیں ہوتا بلکہ ڈھنگ سے جینا ہوتا ہے۔ اُسے قدم قدم پر سوچنا پڑتا ہے، دیکھنا پڑتا ہے کہ اُس کی ذات سے کسی کو تکلیف تو نہیں پہنچ رہی، کسی کیلئے کچھ حرج تو واقع نہیں ہو رہا۔ انسان آنکھ بند کرکے، لگی بندھی زندگی بسر نہیں کرسکتا۔ ایسا کرنا اُس کیلئے شدید نقصان کا باعث بنتا ہے۔ عقل سے کام لیتے ہوئے اُسے دانش میں تبدیل کرنا ہر انسان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اِسے آپ انسان کی مجبوری بھی کہہ سکتے ہیں۔ کسی دوسری مخلوق کو دانش کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اُس کی زندگی یعنی معمولات بہت محدود ہوتے ہیں۔ مختصر دورانیے کی زندگی میں اُسے خاصے محدود معمولات کے ساتھ جینا ہوتا ہے۔ اُس کیلئے سب سے بڑا مسئلہ صرف پیٹ بھرنے کا ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ حل ہو جائے تو اُسے سکون میسر ہو جاتا ہے اور وہ ایک طرف پڑا رہتا ہے۔ کسی بھی حیوان میں جنونی کیفیت صرف پیٹ نہ بھرنے کی صورت میں ابھرتی ہے۔ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ محض پیٹ بھرنے کو زندگی نہیں سمجھتا اور سمجھ سکتا بھی نہیں۔ اُسے اس دنیا میں محض پیٹ بھرنے کیلئے بھیجا بھی تو نہیں گیا۔ اُس کا جینا اور مرنا چند مقاصد کے تحت ہوتا ہے۔ اِن مقاصد کی تکمیل کیلئے اُسے زندگی بھر کوشاں رہنا پڑتا ہے۔ کسی بھی حیوان کو اپنے حصے کے کام کرنے کیلئے تربیت نہیں دینا پڑتی۔ ہمارے ماحول میں جتنے بھی حیوانات ہیں وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کی تربیت کیساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ قدرت نے اُنہیں تعلیم و تربیت کا پابند نہیں کیا۔ کسی حیوان کو اگر ہم اپنے کسی مقصد کی تکمیل کیلئے تربیت دینا چاہیں تو اور بات ہے وگرنہ وہ ہماری طرف سے تربیت پائے بغیر بھی اپنے حصے کا کام بخوبی کرتے چلے جاتے ہیں۔
انسان کا معاملہ یہ ہے کہ اُسے اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ بچوں کی نگہداشت اور تعلیم و تربیت ہی کا معاملہ لیجیے۔ حیوانات کے بچے اپنے والدین کے بہت زیادہ محتاج نہیں ہوتے۔ بکری کے بچے کو دیکھیے۔ پیدائش کے کچھ دیر بعد ہی اپنے پیروں پر کھڑا ہو جاتا ہے اور چلنے پھرنے لگتا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ ''مچھلی کے جائے کو تیرنا کون سکھائے‘‘۔ یہی حال دوسرے بہت سے حیوانات کا بھی ہے۔ چند ایک حیوانات کے بچے ابتدائی کچھ دنوں میں ماں باپ کے محتاج ہوتے ہیں۔ پرندوں میں بھی یہ معاملہ ہے؛ تاہم اس مرحلے سے گزرنے کے بعد وہ والدین پر منحصر رہے بغیر جینے لگتے ہیں۔ انسان کا معاملہ بہت مختلف ہے کیونکہ اُس کے بچوں کو پرورش کیلئے کئی برس تک والدین کی ضرورت پڑتی ہے۔ اُن کا بہت خیال رکھنا پڑتا ہے۔ چار‘ پانچ سال تک کی عمر میں بھی اُن کا شعور پروان نہیں چڑھا ہوتا۔ کھا، پی تو خود سکتے ہیں مگر اپنے آپ کو کسی بڑے نقصان سے بچانے کی منصوبہ سازی نہیں کرسکتے۔ اُن پر دھیان دینا پڑتا ہے۔ اور اِس سے بھی بڑی حقیقت تو یہ ہے کہ انسان کو تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزار کر زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کے قابل بنانے میں کم و بیش بیس سال لگ جاتے ہیں!
بلی کا بچہ محض چھ ماہ میں جوان ہو جاتا ہے۔ انسان کا بچہ بیس سال لیتا ہے۔ بلی کا بچہ محض دو ماہ تک والدین پر منحصر رہنے کے بعد اپنے طور پر جینے لگتا ہے۔ وہ اپنی خوراک تلاش کرتا ہے اور ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ یہ سب کچھ اُس میں قدرت کی طرف سے ودیعت کیا ہوا ہوتا ہے۔ انسان کو قدرت نے بہت حد تک مجبور پیدا کیا ہے۔ لازم ہے کہ انسان اپنے بچوں پر متوجہ رہے، اُن کی پرورش کیساتھ ساتھ معقول تعلیم و تربیت کا بھی اہتمام کرے، اُنہیں اِس طور جینا سکھائے کہ اُن کے ہاتھوں کسی کیلئے تکلیف کا سامان نہ ہو، کسی کا کچھ حرج واقع نہ ہو۔ کیا انسان ایسا کرنے میں کامیاب ہوتا ہے؟ کیا ہم اپنے بچوں کو معقول زندگی اور بہتر مستقبل کیلئے تیار کرنے پر خاطر خواہ توجہ دیتے ہیں؟ اس سوال کا ملا جلا ہی جواب دیا جاسکتا ہے۔ کچھ لوگ اپنے بچوں کو ڈھنگ سے جینے کے قابل بنانے پر بہت توجہ دیتے ہیں۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ اولاد کو اُسی طرح آزاد چھوڑ دیتے ہیں جس طور حیوانات اپنے بچوں کو آزاد چھوڑ دیا کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اس خام خیالی میں مبتلا رہتے ہیں کہ بچوں کا پیٹ بھردینا یعنی اُن کی پرورش کا اہتمام کردینا ہی کافی ہوتا ہے۔ تعلیم و تربیت پر زیادہ متوجہ نہ ہوکر وہ بچوں کیلئے اچھی خاصی خرابیوں کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
ہر انسان کیلئے ناگزیر ہے کہ اولاد کی معقول تعلیم و تربیت یقینی بنائے۔ بچے اپنے طور پر بہت کچھ نہیں سیکھ پاتے۔ اُن کا پیٹ بھر دینا کسی بھی درجے میں کافی نہیں۔ اُنہیں ہاسٹل میں داخل کرکے سکون کا سانس لینا بھی کسی طور درست طریقِ کار نہیں۔ بچے سکول کے علاوہ گھر اور ماحول سے بھی بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ گھر، ماحول اور سکول میں جو کچھ بھی پایا جاتا ہے وہ بچوں کی نفسی یا فکری ساخت کا حصہ بنتا جاتا ہے۔ اِس میں بہت کچھ منفی بھی ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ بچوں کے ذہن سے کھرچنا لازم ہوتا ہے۔ اگر اس معاملے پر توجہ نہ دی جائے تو بچوں کی ذہنی تربیت رُک جاتی ہے، وہ ذہن یا حافظے میں موجود منفی باتوں کو فکری ساخت کا حصہ بناتے چلے جاتے ہیں اور یوں اُن کے مزاج میں بھی کجی واقع ہوتی چلی جاتی ہے۔ بچوں کی ذہنی تطہیر کیلئے ناگزیر ہے کہ والدین اُن کی تعلیم و تربیت پر متوجہ رہیں۔ یہ مستقل نوعیت کا معاملہ ہے۔ یہی تو انسان کی اصل مجبوری ہے۔
ماحول میں پیدا ہونے والا بگاڑ بچوں کو بگاڑنے پر تُلا رہتا ہے۔ اگر والدین، خاندان کے بزرگ اور اساتذہ اپنی ذمہ داری محسوس نہ کریں تو بچوں کی نفسی و فکری ساخت میں بگاڑ پیدا ہوتے دیر نہیں لگتی۔ ذمہ داری کا معاملہ بچوں کو جوان کرنے پر ختم نہیں ہو جاتا۔ لازم ہے کہ اُن کی طرزِ زندگی پر متواتر نظر رکھی جائے، بھرپور نگرانی کا اہتمام کیا جائے۔ انسان کو زندگی بھر سیکھنا اور سکھانا پڑتا ہے۔ قدرت نے ہمیں زندگی سی نعمت بہت سی ذمہ داریوں کے ساتھ عطا فرمائی ہے۔ خود کو اس نعمت کے قابل بنانا بھی ایک بڑی ذمہ داری ہے اور معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ ماحول کو درست رکھنے میں مدد دینا بھی انسان کی ذمہ داری ہے۔ اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ساتھ پورے ماحول کی بہبود کا سوچنا بھی انسان کی ذمہ داری ہے۔
انسان اپنی کسی بھی مجبوری کے بارے میں سوچ کر پریشان نہ ہو۔ قدرت کی طرف سے ودیعت کی ہوئی نعمتوں پر شکر ادا کرنا لازم ہے۔ نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی ایک اچھی صورت یہ بھی ہے کہ انسان اپنے وجود اور ماحول کو صاف ستھرا اور متوازن رکھنے کیلئے سرگرداں رہے۔ یہ چونکہ زندگی بھر کا معاملہ ہے اِس لیے اِس کے بارے میں سنجیدہ ہونا بھی فطری طور پر ناگزیر ہے۔ غور کیجیے تو اس مجبوری ہی میں زندگی کا بھرپور لطف پوشیدہ ہے۔ ڈھنگ سے جینا مجبوری ہے مگر یہ ذمہ داری بھی تو ہے جس سے بخوبی سبکدوش ہونے کا ایک اپنا ہی لطف ہے۔