کام سبھی کو کرنا پڑتا ہے۔ جب کام کرنا پڑتا ہے تو تھکن بھی ہوتی ہے۔ تھکن کام کرنے سے ہوتی ہے اور زیادہ تھکن؟ زیادہ تھکن کام نہ کرنے سے ہوتی ہے! آپ تھوڑی سی توجہ دیں تو آپ کے مشاہدے میں ایسے بہت سے لوگ آسکتے ہیں جو کچھ نہیں کرتے اور تھک جاتے ہیں۔ ایسے لوگ ہر طرح کے ماحول میں پائے جاتے ہیں۔ اِن کی بنیادی پہچان ہی تھکن کا رونا ہے۔ جو لوگ واقعی محنت کرتے ہیں اُن کے پاس تھکن سے چُور ہونے کا بھی وقت نہیں ہوتا۔ وہ کسی کے آگے تھکن کا رونا نہیں روتے کیونکہ کام کرنے کی صورت میں تھکن کا ہونا فطری امر ہے۔ جو کچھ فطری ہے اُس کے بارے میں کیسا رونا اور کہاں کا شکوہ؟ دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو اپنے کام یعنی معاشی سرگرمی میں بھرپور دلچسپی لیتے ہیں اور اُس سے محظوظ بھی ہوتے ہیں؟ ایسے لوگوں کا تناسب بہت کم ہے۔ شاید ہزاروں میں چند یا لاکھوں میں چند۔ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ تو بہت سے لوگ کرتے ہیں لیکن کام میں بھرپور دلچسپی لینے اور اُس سے حَظ اٹھانے والوں کی تعداد برائے نام ہے۔ ہم زندگی بھر کام کرتے ہیں مگر بیشتر کا یہ حال ہے کہ کام کے معاملے میں پوری طرح سنجیدہ بھی نہیں ہوتے اور اُس سے لطف پانے کے بارے میں سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔
کام کو بوجھ سمجھنے کی صورت میں انسان صرف بیزاری محسوس کرسکتا ہے اور کرتا ہی ہے۔ کام سے محبت کرنے والوں کو آپ ہمیشہ خوش پائیں گے۔ ایسے لوگ اپنے ماحول کو بھی زندہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کام ہے تو ماحول میں زندگی ہے۔ جو معاملہ زندگی بھر کا ہو وہ ہر حال میں ہماری توجہ چاہتا ہے۔ رشتے زندگی بھر کے ہوتے ہیں۔ تعلقات بھی کبھی کبھی زندگی بھر کے ہو رہتے ہیں۔ پھر بھی ہم رشتوں اور تعلقات کے معاملے میں وہ سنجیدگی اور گرم جوشی نہیں دکھاتے جو دکھائی جانی چاہیے۔ اِس کے نتیجے میں کھنچاؤ پیدا ہوتا ہے۔ یہ کھنچاؤ اپنے وجود تک محدود نہیں رہتا بلکہ ہمارے تمام معاملات کو متاثر کرتا پھرتا ہے۔ کام کا معاملہ ایسا ہی ہے۔ ہمیں زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے۔ معاشی سرگرمیاں انسان کے لیے چونکہ ناگزیر ہیں اِس لیے فطری سی بات ہے کہ اُن پر ہماری زیادہ توجہ رہنی چاہیے۔ افسوس کہ ایسا ہوتا نہیں! ہم میں سے بیشتر کی عمومی نفسی کیفیت یہ ہے کہ زندگی بھر کام کو بوجھ سمجھتے رہتے ہیں اور اِس کے نتیجے میں کام کا معیار بلند ہو پاتا ہے نہ معاوضہ۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اُس کی زندگی کا معاشی پہلو ہر اعتبار سے متوازن رہے اور طُرفہ تماشا یہ ہے کہ اِس حوالے سے کچھ کرنے کی بات آئے تو وہ کترانے لگتا ہے، پہلو تہی پر اتر آتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ ہم پوری لگن اور دلچسپی کے ساتھ کام کیوں نہیں کر پاتے؟ آخر کیا سبب ہے کہ ہم زندگی بھر معاشی جدوجہد کو محض بوجھ کے زُمرے میں رکھتے ہیں اور اِس معاملے کو تسکین بخش بنانے کی کوشش نہیں کرتے؟ کام زندگی کا ناگزیر حصہ ہے تو پھر ہم اُسے اپنی نفسی ساخت کا ناگزیر حصہ بنانے سے گریزاں کیوں رہتے ہیں؟ ان تمام سوالوں کے جواب میں طویل بحث کی جاسکتی ہے، بہت سے معاملات کو جانچا، پرکھا اور کھنگالا جاسکتا ہے۔
ہر انسان کے لیے معاشی جدوجہد ناگزیر ہی نہیں‘ مختلف بھی ہوتی ہے۔ سب اپنے اپنے سیاق و سباق کے ساتھ اور اُس کے تحت کام کرتے ہیں۔ ایک ہی کام کسی کو اچھا معاوضہ دیتا ہے اور کسی کو خاصا کم۔ کبھی کبھی کسی کو صلاحیت و سکت کے مطابق کام تیزی سے مل جاتا ہے اور کسی کو بہت دھکے کھانے کے بعد کام پر لگنے کا موقع ملتا ہے۔ سب کچھ انسان کے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔ اُسے حالات کے رحم و کرم پر رہتے ہوئے جینا پڑتا ہے۔ بعض معاملات میں وہ اپنے حالات بہتر بنانے کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ کبھی کبھی قسمت کی مہربانی سے سارے کام آسانی سے بنتے چلے جاتے ہیں اور انسان دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔ آپ مشاہدے کی بنیاد پر بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ معاشی جدوجہد کے معاملات ہر انسان کے لیے مختلف ہوتے ہیں اور یوں کام سے دلچسپی کی سطح بھی مختلف ہوتی ہے۔ ہاں‘ یہ تو طے ہے کہ محنت سبھی کو کرنا پڑتی ہے۔ دانش کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے کام میں ڈوب جائے۔ جب کوئی اپنے کام کو پورے وجود کا حصہ بناتا ہے، اُس کا ہو رہتا ہے تب تھکن کا احساس ہوتا ہے نہ بیزاری ستاتی ہے۔ کسی بھی انسان کو زندگی بوجھ اُس وقت لگتی ہے اور بیزاری پورے وجود پر اُس وقت طاری ہوتی ہے جب وہ اپنے کام کو محض ایک معمول سمجھتا ہے، اُسے دل سے نہیں اپناتا، اپنی فکری ساخت کے ایک لطیف پہلو کے طور پر قبول نہیں کر پاتا۔
کام کا معاملہ ہر دور میں ایک دردِ سر کی حیثیت سے موجود رہا ہے۔ لوگ کمانا چاہتے ہیں اور کماتے بھی ہیں مگر کمانے کے لیے جو کچھ کرنا پڑتا ہے اُسے محظوظ ہونے کے معاملے میں پہلو تہی کی روشن پر گامزن رہتے ہیں۔ یہ غالب اکثریت کا معاملہ ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں بھی سب کو کام کرنے کا شوق نہیں ہوتا۔ بہت سوں کو سسٹم کے منظم اور مضبوط ہونے کا بھرپور فائدہ پہنچتا ہے اور وہ باقی دنیا سے خاصے بلند معیار کی زندگی بسر کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ ترقی پذیر اور پسماندہ معاشروں کے معاملات بہت مختلف اور نمایاں حد تک رُلے ہوئے رہتے ہیں۔ اِن معاشروں میں لوگ جی جان سے محنت کرنے پر بھی کچھ خاص معاوضہ نہیں پاتے تو کام سے محبت کا معاملہ بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ جب انسان کو ستائش ملتی ہے نہ معاوضہ تو وہ کام میں بھرپور دلچسپی نہیں لیتا، اُسے زندگی کا حصہ نہیں بناتا۔ ہمارے جیسے معاشروں میں زندگی کا معاشی پہلو خاصا نظر انداز کیا ہوا معاملہ ہے۔ کام سبھی کو کرنا پڑتا ہے اور کرتے بھی ہیں مگر اُسے اپنے وجود کا حصہ بنانے پر راضی ہونے والے خال خال ہیں۔ لوگ عمومی سطح پر ایسی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں جس میں کام کو اولیت نہ دی جائے۔ ایسا اندازِ فکر و نظر انسان کو پیچھے رکھتا ہے۔ دنیا بھر کے کامیاب ترین انسانوں کے بارے میں پڑھیے اور جاننے کی کوشش کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ سبھی نے سخت نامساعد حالات کو شکست دے کر اپنے لیے کامیابی ممکن بنائی۔ انفرادی سطح پر کامیابی تو کامیاب معاشروں میں بھی آسان نہیں ہوتی۔ وہاں بھی اکثریت عمومی سطح پر زندگی بسر کرتی پائی جاتی ہے۔ ہاں‘ وہاں کی عمومی سطح بھی چونکہ پسماندہ معاشروں کی بلند سطح کے مساوی ہوتی ہے اس لیے ہمیں ایسا لگتا ہے کہ وہاں سب بہت مزے سے‘ بھرپور کامیابی کے ساتھ جی رہے ہوں گے۔
کام ہمیں تھکا دیتا ہے۔ تھکن سے بچنے کے طریقے بھی تلاش کیے جاتے ہیں۔ ماہرین اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر بہت سی تجاویز پیش کرتے رہتے ہیں۔ کوشش کی جارہی ہے کہ دنیا بھر میں عام آدمی کو یومیہ آٹھ گھنٹے سے بھی کم کام کرنا پڑے۔ ترقی یافتہ ممالک میں کام کے یومیہ اوقات گھٹانے کے ساتھ ساتھ ہفتے میں چار دن کام کرنے کا کلچر عام کرنے کی بھی کوشش کی جارہی ہے۔ یورپ میں اس طرح کے تجربے ہوتے رہے ہیں۔ ورک فراہم ہوم یعنی گھر سے کام کرنے کا تجربہ بھی اِسی ذیل میں ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ انسان کو تھکن سے کس طور بچایا جائے۔ یہ کسی صورت ممکن نہیں۔ جسم کو جتنا تھکنا ہے اُتنا تو تھکنا ہی ہے۔ ہاں‘ اگر کوئی اپنے کام سے محبت یا عشق کرے، اُس سے لطف کشید کرے اور اُس کا معیار بلند کرتے رہنے کی راہ پر گامزن رہے تو پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ صرف جسم تھکے گا‘ ذہن نہیں۔ جذبات متاثر نہیں ہوں گے۔ جب انسان اپنے کام سے محبت کرتا ہے تو زیادہ محنت کرنے کی صورت میں صرف جسم تھکتا ہے۔ ذہن نہ تھکے تو بیزاری پیدا ہوتی ہے نہ چڑچڑاپن۔ ایسے میں انسان اندرونی شکست و ریخت کے مرحلے سے گزرنے سے محفوظ رہتا ہے۔
سوچنے اور لکھنے والوں کا فرض ہے کہ کام سے محبت کے بارے میں زیادہ سے زیادہ بولیں اور لکھیں۔ کامیاب شخصیات کو اپنے حالاتِ زندگی بیان کرتے وقت کام کے معاملے میں اپنی لگن کے بارے میں ضرور بتانا چاہیے۔ نئی نسل کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ آگے بڑھنے کے لیے اپنے کام سے عشق لازم ہے۔