ہندوستان میں جب بھی کوئی نا خوش گوار واقعہ پیش آتا ہے تو سب سے پہلے نزلہ گرتا ہے عضوِ ضعیف پر‘ اور یہ عضوِ ضعیف ہیں پاکستان کے موسیقار اور فلمی اداکار۔ وہاں شور مچ جاتا ہے کہ ان پر پابندی لگائو‘ اور کسی حد تک پابندی لگ بھی جاتی ہے لیکن ابھی تک دونوں ملکوں کے ادیب، شاعر اور دوسرے دانشور اس پابندی سے محفوظ تھے۔ دونوں ملکوں میں جو ادبی اور ثقافتی اجتماع ہوتے تھے، ان میں دونوں جانب کے مندوب شریک ہوتے تھے‘ لیکن پلوامہ کے واقعے کے بعد ہندوستان میں جنگی جنون اتنا بڑھ گیا ہے کہ اب وہاں کے ادیب اور دانشور بھی پاکستان آ تے ہو ئے ڈرتے ہیں۔ وہ اپنی حکومت اور وہاں کے عام نفرت انگیز ماحول سے ڈرنے لگے ہیں۔ وہ ڈرتے ہیں کہ اگر وہ پاکستان کی کسی ادبی و ثقافتی تقریب میں شرکت کرنے گئے تو واپسی پر ان کا کچھ اچھا حشر نہیں ہو گا ۔ گزشتہ جمعہ کے روز لاہور لٹریری فیسٹیول شروع ہوا۔ یہ لاہور کا سالانہ جشن ہے۔ اس جشن میں ہر سال دوسرے ملکوں کے علاوہ ہندوستان کے اردو اور انگریزی زبان کے ادیب، مورخ اور سماجی و سیاسی تجزیہ کار بھی شریک ہو تے تھے۔ لیکن اس بار ہم آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے رہے کہ شاید کہیں کوئی بھولا بھٹکا ہندوستانی دانشور نظر آ جائے ۔ مگر ایک بھی ایسا دانشور نظر نہیں آیا جو ہندوستان سے آیا ہو۔ The Age of Anger جیسی ہنگامہ خیز کتاب لکھنے والے پنکج مشرا وہاں یقینا موجود تھے ۔ مگر وہ ہندوستان سے نہیں آئے، انگلستان سے آئے ہیں۔ ایسے ہی سری نگر کے رہنے والے ناول نگار مرزا وحید بھی ہندوستان سے نہیں، انگلستان سے آ ئے ہیں۔ یہ دونوں مصنف انگلستان میں ہی رہتے ہیں۔ مرزا وحید کے بارے میں ہم آپ کو یہ بتا دیں کہ اگر مقبوضہ کشمیر اور اس کے باشندوں کی موجودہ سماجی اور سیاسی زندگی سمجھنا ہو تو مرزا وحید کے ناول پڑھو۔ اس بار بھی وہ اپنا نیا ناول لے کر ہی پاکستان آئے ہیں۔ اخباروں میں جو چھپ رہا ہے وہ کچھ بھی نہیں ہے ۔ مرزا وحید کا ناول پڑھ کر آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی۔ اس جشن میں پچھلے سال تک ہندوستانی فلموں کی نامور فن کار شرمیلا ٹیگور، عالمی شہرت یافتہ مورخ رومیلا تھاپر، منٹو کا انگریزی میں ترجمہ کرنے والے آکر پٹیل، ممتاز صحافی شیکھر گپتا اور ایسے ہی کئی ادیب، شاعر اور دانشور شرکت کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس بار ان میں سے ایک بھی ہمیں نظر نہیں آیا۔ اور نظر آ بھی نہیں سکتا تھا۔ ہندوستان میں حالات ہی ایسے پیدا کر دیئے گئے ہیں۔
یہی نفرت انگیز حالات ہیں جن کی وجہ سے کراچی آرٹس کونسل کو اپنی تقریب منسوخ کرنا پڑ گئی ۔ کراچی آرٹس کونسل نے کیفی اعظمی کی سوویں سال گرہ پر ایک تقریب منانے کا اعلان کیا تھا۔ اس تقریب میں کیفی اعظمی کی صاحب زادی اور ہندوستانی فلموں کی معروف و مقبول فن کار شبانہ اعظمی اور ان کے گیت کار شوہر جاوید اختر بھی شرکت کر نے والے تھے۔ تاریخ تک طے ہو چکی تھی۔ لیکن ادھر پلوامہ کا واقعہ ہوا اور ادھر شبانہ نے کراچی آنے سے انکار کر دیا۔ یہ انکار بڑے معقول اور متحمل انداز میں بھی کیا جا سکتا تھا‘ لیکن شبانہ نے اس انکار کے لیے جس زبان میں ٹویٹ کیا‘ وہ ان کی اپنی زبان نہیں تھی بلکہ ہندوستان کے موجودہ حکمرانوں کی زبان تھی۔ کراچی آرٹس کونسل کے صدر اور ہمارے دوست محمد احمد شاہ کو یہ زبان بہت ہی نا گوار گزری۔ انہوں نے آئو دیکھا نہ تائو فوراً ایک پریس کانفرنس کر ڈالی ۔ انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ آج ہندوستان میں جو ماحول ہے‘ اس ماحول میں شبانہ یا کسی بھی دوسرے فن کار کی کیا مجال ہے کہ وہ پاکستان کی طرف محبت و اخوت کا ہاتھ بڑھائے۔ اب احمد شاہ کہتے ہیں کہ وہ یہ تقریب ضرور کریں گے۔ لیکن ہمارا مشورہ یہ ہے کہ وہ کیفی اعظمی کو بھول ہی جائیں تو اچھا ہے۔ کیفی اعظمی کسی اعتبار سے بھی اتنے بڑے شاعر نہیں تھے کہ ان کے جشن منائے جائیں۔ وہ بڑے شاعر اس لئے بن گئے کہ ان کی بیٹی شبانہ اعظمی بڑی فن کار ہے ۔ اور اس فن کار بیٹی نے انہیں سر چڑھایا ہے۔ اگر ہندوستان کے ترقی پسند شاعروں کا ہی جشن منانا ہے تو مخدوم محی الدین کا جشن منائیے۔ وہ واقعی بڑے شاعر تھے؛ حتیٰ کہ مجروح سلطان پوری بھی کیفی اعظمی سے بڑے شاعر اور بہت اچھے غزل گو تھے۔ ہاں، اگر شبانہ اعظمی کی کشش ان کے والد کا جشن منانے پر اکسا رہی ہے تو اور بات ہے۔
نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد وہاں جو فضا بن گئی ہے یا بنا دی گئی ہے‘ اس کا اثر جشن ریختہ پر بھی پڑا ہے۔ سنجے صراف ایک کاروباری آدمی ہیں۔ اردو زبان و ادب کی محبت میں‘ انہوں نے ریختہ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے۔ اس ادارے نے اردو ادب کے لیے وہ کام کیا ہے جو دوسرا کوئی بھی ادبی و علمی ادارہ نہیں کر سکا۔ ریختہ نے چند ہی سال میں اردو کی بے شمار کلاسیکی کتابیں شائع کر کے اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر دی ہیں۔ کئی نئے اردو ادیبوں اور شاعروں کی کتابیں بھی اپ لوڈ کی جا چکی ہیں۔ آپ یہ کتابیں مفت پڑھ سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سنجے صراف ہر سال جشن ریختہ بھی مناتے ہیں۔ اس جشن میں دنیا بھر میں پھیلی ہوئی اردو بستیوں کے مکین ادیب‘ شاعر اور دانشور شرکت کرتے ہیں۔ پاکستانی ادیب بھی اس جشن میں شرکت کرتے رہے ہیں۔ لیکن پچھلے چند برسوں میں وہاں پاکستان کے خلاف جو نفرت پیدا کی گئی ہے‘ اس کی و جہ سے پاکستان سے جانے والے مندوبین کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ پچھلے سے پچھلے سال کشور ناہید کو اس جشن میں بلایا تو گیا‘ مگر مشاعرے میں شریک نہیں ہونے دیا گیا کہ کہیں وہاں موجود لوگ ان کی بے عزتی نہ کر دیں۔ اس ہنگامے سے بچنے کے لیے سنجے صراف نے اس سال جشن ریختہ دلی کی بجائے دبئی میں منانے کا اہتمام کیا تھا، تاکہ پاکستانی ادیب و شاعر بھی بلا خوف و خطر اس جشن میں شریک ہو سکیں‘ لیکن ہندوستان میں جو جنونی کیفیت پیدا کر دی گئی ہے اس کی وجہ سے انہیں دبئی کا جشن بھی ملتوی کرنا پڑ گیا۔ اب یہ فضا کب تک رہے گی؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ مئی میں ہندوستان میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس کے بعد جو حکومت آئے گی‘ اس کا رویہ کیا ہو گا؟ اس کے بارے میں بھی واضح طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اچھا کیا کہ اپنی مختصر سی تقریر میں جلتی پر ٹھنڈا پانی ڈالا۔ اور ان تنظیموں پر پابندی لگانے کا اعلان کر دیا‘ جن کے بارے میں دنیا بہت پہلے سے شور مچا رہی تھی۔ یہ بات ضرور ہے کہ اس کام میں ہم نے بہت دیر لگا دی۔ یہ کام ہمیں پہلے کر لینا چاہیے تھا۔ بہر حال ہم کہہ سکتے ہیں کہ دیر آید درست آید ۔ لیکن امن و آشتی کی فضا پیدا کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے عوام کا میل جول بھی کام آ سکتا ہے' اور ادبی جشن اس کا ایک وسیلہ ہیں۔ احمد شاہ نے اچھا کہا ہے کہ ہندوستان والے آئیں نہ آ ئیں، ہم تو انہیں بلاتے رہیں گے۔ ان لکھنے پڑھنے والوں کے لئے ہی تو مولانا روم نے کہا تھا ''تو برائے وصل کردن آمدی۔ نے برائے فصل کردن آمدی‘‘۔ (اے انسان تو اس دنیا میں آپسی محبت پیدا کرنے آیا ہے‘ نہ کہ ایک دوسرے سے دوری پیدا کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے) اور یہی ہمارا روشن چہرہ ہو گا۔
کیفی اعظمی کسی اعتبار سے بھی اتنے بڑے شاعر نہیں تھے کہ ان کے جشن منائے جائیں۔ وہ بڑے شاعر اس لئے بن گئے کہ ان کی بیٹی شبانہ اعظمی بڑی فن کار ہے ۔ اور اس فن کار بیٹی نے انہیں سر چڑھایا ہے۔ اگر ہندوستان کے ترقی پسند شاعروں کا ہی جشن منانا ہے تو مخدوم محی الدین کا جشن منائیے۔ وہ واقعی بڑے شاعر تھے؛ حتیٰ کہ مجروح سلطان پوری بھی کیفی اعظمی سے بڑے شاعر اور بہت اچھے غزل گو تھے۔