"MAC" (space) message & send to 7575

امن کو موقع دو!

اس وقت جب ہندوستان کی طرف سے جنگی جنون شدت اختیار کرتا جا رہا ہے تو مجھے پاک انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی یاد آ رہا ہے۔ یہ فورم آج سے بیس سال پہلے بنایا گیا تھا۔ مقصد اس کا یہ تھا کہ پاکستان اور ہندوستان کے عوام کے درمیان میل جول پیدا کرکے دونوں ملکوں میں امن و آشتی کی فضا پیدا کی جائے۔ پاکستان میں اس کے روح رواں ڈاکٹر مبشر حسن اور آئی اے رحمن ہیں اور ہندوستان میں اس کی قیادت بپن بوس اور ایڈمرل رام داس جیسی امن پسند شخصیتیں کر رہی ہیں۔ اس فورم کا اجتماع ایک بار پاکستان میں اور دوسری بار ہندوستان میں ہوتا ہے۔ اجتماع میں نے اس لئے کہا کہ فورم کی سرگرمیوں میں حصہ لینے پاکستان سے پندرہ بیس سے زیادہ مرد اور خواتین ہندوستان جاتے ہیں اور اتنی ہی تعداد میں ہندوستان سے بھی مندوبین پاکستان آتے ہیں۔ اگلے مہینے کے آخر میں یہ اجتماع پاکستان میں ہونے والا تھا‘ جو موجودہ حالات کی نزاکت کی و جہ سے ملتوی کر دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے انتہائی کشیدہ حالات میں بھی فورم کے اجتماع ہوتے رہے ہیں اور یہ اجتماع دونوں ملکوں کے عوام کو یکجا کرنے کے ضمن میں نہایت ہی مؤثر ثابت ہوئے ہیں۔ کارگل کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ حکومت کی سطح پر ہندوستان سخت غصے میں تھا۔ حالات بہت کشیدہ تھے‘ لیکن انہی دنوں اس فورم کا اجتماع ہندوستان کے شہر بنگلور میں ہوا۔ اور اس شہر میں پاکستانی وفد کا جس پر جوش انداز میں خیر مقدم کیا گیا وہ ہمیں آج تک یاد ہے۔ فورم کا ہر اجلاس اس شہر کے مردوں اور عورتوں سے بھرا ہوتا۔ امن کے ترانے گائے جاتے۔ رقص کیے جاتے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے کوئی نا خوش گوار واقعہ ہوا ہی نہیں ہے۔ اس سے پہلے کلکتے میں جو اجتماع ہوا وہ تو اس لئے بھی یادگار رہے گا کہ جب فورم کا جلوس امن، محبت و اخوت کے گیت گاتا ہوا کلکتے کی سڑکوں پر نکلتا تو سارا شہر اس میں شامل ہو جاتا۔ دلی اور دوسرے شہروں میں بھی فورم کے جو اجتماع ہوئے انہوں نے بھی ثابت کیا کہ عام آدمی امن چاہتا ہے۔ نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد حالات تبدیل ہوئے اور پاکستان کے خلاف نفرت کی ایک تیز و تند رو چلی۔ اس حکومت کے دوران تو پاکستان ہی نہیں ہندوستان میں رہنے والے مسلمان بھی اس نفرت کی زد میں آ گئے۔ یہ نفرت وقت کے ساتھ شدید سے شدید تر ہوتی چلی گئی کیونکہ مودی حکومت پاکستان اور ہندوستانی مسلمانوں کی مخالفت میں ہی اپنی بقا سمجھتی ہے۔ لیکن اس میں ان تنظیموںکی سرگرمیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو مبینہ طور پر ہمار ی نرسریوں میں پروان چڑھتی ہیں۔ ان تنظیموں نے ہی مقبوضہ کشمیر کے عوام کی اپنی خالص کشمیری جدوجہد کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ پلوامہ میں جو کچھ ہوا وہ ہر اعتبار سے مودی حکومت کے خلاف کشمیری عوام کے اپنے غصے اور طیش کا نتیجہ تھا‘ لیکن ایسی تنظیموں کی وجہ سے ہی پاکستان اس کی زد میں آ گیا اور ہندوستان جارحیت پر اتر آیا۔ اور پھر ان تنظیموں کی وجہ سے ہی ہندوستانی جارحیت پر ساری دنیا خاموش ہے۔ دنیا یہ تو کہہ رہی ہے کہ برصغیر کی دو ایٹمی طاقتوں کو جنگ کے میدان تک جانے سے روکا جائے‘ لیکن ہندوستان نے بین الاقوامی قوانین کی جو خلاف ورزی کی ہے اس کی مذمت کسی جانب سے بھی نہیں کی جا رہی ہے۔ یہ پاکستان کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں۔ لیکن ہندوستان کی جارحیت کے باوجود پاکستان کا امن کے موقف پر قائم رہنا اور یہ اصرار کرنا کہ ہم ہر حالت میں امن چاہتے ہیں‘ ایسا قدم ہے جو دنیا کو ہماری طرف متوجہ کرے گا اور برصغیر ایسے تصادم سے بچ جائے گا جو کسی وقت بھی ہولناک صورت اختیار کر سکتا ہے۔ آج پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہو رہا ہے۔ یقینا اس اجلاس میں بھی پاکستان کے اسی موقف کی تائید کی جائے گی۔ اس وقت ہندوستانی حکومت کا مزاج بہت ہی تلخ ہے لیکن ہماری حالیہ تاریخ شاہد ہے کہ یہ تلخی زیادہ دیر برقرار نہیں رہتی۔ سیاسی اور معاشی ضرورت اس تلخی پر قابو پا لیتی ہے۔ پاکستان نے شدت پسند عناصر سے چھٹکارا پانے کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ یہ عناصر ہی دنیا کی نظروں میں کھٹک رہے تھے اور پاکستان ان کی وجہ سے ہی دنیا کی نظروں میں کھٹک رہا تھا۔ اب امید ہے کہ پاکستان کی ساکھ بحال ہو جائے گی۔ 
میں نے شروع میں پاک انڈیا فورم کا ذکر کیا۔ اس فورم کی ضرورت آج پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ دو مہینے بعد ہندوستان میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ اب چونکہ پانچ ریاستوں میں نریندر مودی کی جماعت ہار چکی ہے‘ اس لئے ہمارے ہاں خیال کیا جا رہا ہے کہ آئندہ انتخابات میں مودی کی جماعت کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ ہو سکتا ہے یہ خیال در ست ہی ہو، لیکن سوال یہ ہے کہ نریندر مودی اور ان کی جماعت نے چند سال کے اندر ہندوستانی عوام کے دلوں میں پاکستان کے خلاف جو نفرت پیدا کر دی ہے‘ وہ کیسے دور کی جائے گی؟ خیال تو یہ ہے کہ آنے والی حکومت جس جماعت کی بھی ہو گی وہ بھی اپنے عوام کی اسی نفرت کا سہارا لے گی۔ اس صورت میں دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان میل جول اور بھائی چارے کی فضا کیسے پیدا کی جا سکے گی؟ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان پیار محبت کی فضا پیدا کیے بغیر اس علاقے میں امن و امان قائم کرنا آسان نہیں ہو گا۔ حکومتیں تو آتی جاتی رہتی ہیں مگر عوام تو کہیں نہیں جاتے۔ پاکستان نے ہندوستانی سکھوں کے مقدس گردوارے کے لیے راستہ کھول کر پیار محبت اور امن و آشتی کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسی ہی کوشش دوسرے عوام کے لیے بھی ہونی چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر میں جو ہو رہا ہے وہ تو ہوتا رہے گا‘ جب تک وہاں ہندوستانی فوج موجود ہے اور جب تک وہاں محاصرے کی کیفیت طاری ہے‘ اور کشمیری عوام ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہیں اس وقت تک کشمیر میں امن نہیں ہو سکتا۔ فاروق عبداللہ کتنا ہی کہتے رہیں کہ ہندوستانی حکومت کو کشمیری عوام سے بات کرنا چاہیے وہ حکومت اس مشورے پر کان نہیں دھرے گی۔ لیکن مقبوضہ کشمیر کے عوام کی جدوجہد تو پہلے بھی اسی طرح جاری تھی۔ اس کے باوجود ہندوستان اور پاکستان کے عوام کے درمیان میل جول کے راستے کھلے ہو ئے تھے‘ حتیٰ کہ دونوں ملکوں کے درمیان ویزے کی سہولتوں میں بھی اضافہ کر دیا گیا تھا۔ ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے پاکستانیوں کے لیے سرحد پر ہی ویزا دینے کی سہولت فراہم کر دی گئی تھی‘ لیکن جیسے ہی حالت کشیدہ ہوئے یہ سہولت بھی ختم ہو گئی تھی۔ پاکستان میں ہندوستانیوں کے رشتے دار ہوں نہ ہوں لیکن پاکستانیوں کے بے شمار رشتے دار ہندوستان میں موجود ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان پڑوسی ہیں۔ اور واجپائی کے بقول پڑوسی ذہنی اور سیاسی طور پر تو الگ ہو سکتے ہیں‘ لیکن جسمانی اور طبعی طور پر الگ نہیں ہو سکتے۔ اگر حقیقت پسندانہ انداز میں دیکھا جائے تو دونوں ملکوں کے معاشی مفادات بھی مشترک ہیں۔ آج تجارت اور کاروبار کا زمانہ ہے۔ دنیا میں وہی ملک ترقی کر رہے ہیں جو تجارت میں آگے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تجارت ہوتی ہے مگر غیر قانونی طریقے سے۔ دبئی یا کسی دوسرے ملک کے راستے سامان کی درآمد برآمد ہوتی ہے۔ ہم دوسرے ملکوں کے واسطے سے تجارت کرنے کے بجائے اگر براہ راست تجارت کریں تو دونوں ملکوں کو فائدہ ہو گا۔ برصغیر میں پائیدار امن قائم کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان میل جول کا راستہ کھولنا ضروری ہے۔ اس کے لیے بھی پاک انڈیا فورم کی ضرورت ہو گی۔ مجھے تو وہ وقت یاد آ رہا ہے جب پاکستانی اور ہندوستانی مرد اور عورتیں مل جل کر کلکتے کی سڑکوں پر یہ گاتے ہوئے مارچ کر رہے تھے:
ہم ہوں گے کامیاب‘ ہم ہوں گے کامیاب ایک دن
ہندوستان اگر جنگی جنون میں مبتلا ہے تو ہمیں اس کا راستہ اختیار نہیں کرنا چا ہیے۔ ہمارے لیے امن کا راستہ ہی کامیابی کا راستہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں