ہم سے غلطی ہو گئی۔ ہم نے نفس امارہ اور نفس لوامہ کا ذکر تو کیا مگر تیسرے نفس کا ذکر کرنا بھول گئے۔ ہمارے شاعر غرہ اور فارسی کے استاد پروفیسر معین نظامی نے یاد دلایا ہے کہ ایک نفسِ مطمئنہ بھی تو ہوتا ہے۔ اسے کیوں بھول گئے؟ غور کیا تو انکشاف ہوا کہ شاید ہم اسے اس لئے بھول گئے کہ جسے نفس مطمئنہ کہا جاتا ہے وہ تو شاذونادر ہی کسی کو نصیب ہوتا ہو گا۔ بلکہ یہ شاذونادر بھی بہت پہلے کبھی ہوتا ہو گا، اب تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ذرا سوچیے، جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں، اور جس معاشرے سے ہمارا واسطہ ہے‘ کیا اس میں یہ نفسِ مطمئنہ نصیب ہو سکتا ہے؟ ہم یہ سارے سوال نظامی صاحب سے کرنا چاہتے تھے مگر پھر خیال آیا کہ یہاں ہماری پریشانی ایک اور بھی تو ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ نفس مطمئنہ جسے نصیب ہو گیا وہ تو گیا کام سے۔ وہ پھر اس دنیا کا تو نہیں رہا۔ یہ دنیا تو تجسس، جستجو اور کرید کا تقاضہ کرتی ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے تشکیک کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کیا ہے؟ یہ کیوں ہے؟ اپنے راستے کا پتھر ہم کیسے ہٹا سکتے ہیں؟ اس کے لئے کس علم کی اور کس ہنر کی ضرورت ہو گی؟ اور یہ ساری کوشش اور کاوش دل زندہ کے ساتھ ہی کی جا سکتی ہے۔ اور میر جی پہلے ہی کہہ گئے ہیں ؎
مجھے یہ ڈر ہے دلِ زندہ تو نہ مر جائے
کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے
اب یہاں ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں ہم اپنی حدود سے باہر تو نہیں نکل رہے ہیں؟ اگر نفس امارہ اور نفس لوامہ کے ساتھ نفس مطمئنہ بھی ہوتا ہے تو پھر وہ خوش قسمت بھی ہوتے ہوں گے جنہیں یہ نفس مطمئنہ نصیب ہو جاتا ہے۔ اس لئے ہم آگے اور کچھ نہیں کہتے۔ ہم تو اپنی آگ میں جلنے والوں میں سے ہی ہیں۔ اور ابھی یاد آیا کہ ہم نے اپنے پچھلے کالم میں جو ایک شعر اور ایک مصرعہ نقل کیا تھا سید قاسم جعفری نے اسے پورا کر دیا ہے۔ یہ استاد ذوق کے شعر ہیں ؎
کسی بیکس کو اے بیداد گر مارا تو کیا مارا
جو خود ہی مر رہا ہو اس کو گر مارا تو کیا مارا
بڑے موذی کو مارا نفس امارہ کو گر مارا
نہنگ و اژدہا و شیرِ نر مارا تو کیا مارا
اور پھر وہی شعر جو ہم سب کے لیے ہے، کہ اپنے تقویٰ، اپنی ایمانداری اور اپنی دیانت داری پر اتنا غرور نہ کرو کیونکہ
گیا شیطان مارا ایک سجدے کے نہ کرنے سے
اگر لاکھوں برس سجدے میں سر مارا تو کیا مارا
یہ ساری حکایت ہمیں اس لئے یاد آرہی ہے کہ ہمارے کان پک گئے ہیں یہ سن سن کر کہ اس معاشرے میں سب بے ایمان، بد دیانت اور لوٹ کھسوٹ کرنے والے ہیں۔ صرف ہم پاک صاف ہیں یا پھر وہ لوگ آب زمزم سے نہائے ہوئے ہیں جو ہمارے ساتھ آ گئے ہیں۔ ایک گونج ہے جو چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے۔ ہم کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ ارے صاحب، کون کہہ رہا ہے کہ آپ کسی کو چھوڑیے۔ آپ کسی کو بھی نہ چھوڑیں مگر صبح شام شور مچا کر ہمارے کان تو نہ کھائیں۔ آپ نے اپنے ارد گرد نوجوانوں کی جو فوج ظفر موج جمع کر رکھی ہے‘ ان کی زبانیں اتنی لمبی ہیں کہ ہر وقت وہ باہر ہی نکلی رہتی ہیں۔ اول تو ان کا کام اپنے مخالفوں کو ڈرانا دھمکانا ہے۔ اور جب انہیں اس سے فرصت ملتی ہے تو ایسے ایسے دعوے کرتے ہیں جن کے بارے میں انہیں خود یقین نہیں ہوتا ہو گا کہ یہ دعوے پورے بھی ہو سکتے ہیں یا نہیں۔ ایک صاحب زادے نے‘ جو ہمیشہ قیمتی سوٹ میں ملبوس نظر آتے ہیں، دعویٰ کیا ہے کہ چند ہفتے کے اندر اس ملک میں اتنی نوکریاں ہوں گی کہ نوکری کے امیدوار تلاش کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اور دکانوں پر سامان اتنا ہو گا کہ ان کا خریدار کوئی نہ ہو گا۔ اب ان صاحبزادے سے کون سوال کرے کہ کیا انہوں نے یہ دعویٰ بقائمیٔ ہوش و حواس کیا ہے؟ ان کے اپنے وزیر خزانہ تو قوم کو ڈرا رہے ہیں کہ آنے والے ڈیڑھ دو سال انتہائی کٹھن ہوں گے۔ مہنگائی کا بھوت چاروں طرف ناچ رہا ہو گا‘ اور عام آدمی کی چیخیں نکل رہی ہوں گے مگر یہ کراچی کے نوجوان وزیر کچھ اور ہی راگ الاپ رہے ہیں۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ اس حکومت کی ایک زبان نہیں ہے بلکہ کالی ماتا کی طرح کئی زبانیں ہیں۔ کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ۔ اسی ماحول میں عمران خاں نے ''احساس‘‘ کے نام سے اپنی نئی پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ سبحان اللہ۔ اس پالیسی کے تحت حکومت پابند ہو جائے گی کہ پاکستان کے ہر شہری کو اس کی بنیادی سہولتیں فراہم کرے۔ ظاہر ہے یہ بنیادی سہولتیں خوراک، گھر، تعلیم اورحفظانِ صحت کی صورت میں ہوں گی۔ اور یقینا اس میں روزگار بھی شامل ہو گا۔ اب ہم یہ تو نہیں کہتے کہ یہ ساری سہولتیں کہاں سے فراہم کی جائیں گی؟ اور ہم یہ محاورہ بھی یاد نہیں دلاتے کہ گھر میں نہیں دانے اور اماں چلیں بھنانے۔ کون نہیں جانتا کہ ملکی معیشت پر قرض کا بوجھ اتنا بڑھ چکا ہے کہ پوری قوم کی کمر جھک گئی ہے۔ اب ہم کس سے پوچھیں کہ اس ''احساس‘‘ کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے؟ یہاں ہم عمران خاں صاحب کو یہ بھی یاد دلا دیں کہ آئینی اور قانونی طور پر حکومت کو پابند کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ اگر عوام کو یہ سہولتیں نہ ملیں تو انہیں عدالت کا دروزہ کھٹکھٹانے کا حق ہو گا۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟ وہی تو نہیں ہو گا جو ایک فلم میں کنواں چوری ہو گیا تھا اور فلم کا مرکزی کردار کنویں کی چوری کا مقدمہ لے کر عدالت پہنچ گیا تھا؟ اس نئی پالیسی پروگرام کا نام ''احساس‘‘ رکھا گیا ہے؟ اس نام سے تو لاہور میں ایک ادارہ موجود ہے۔ اس ادارے کا دعویٰ یہ ہے کہ وہاں منشیات کے عادی لوگوں کا نفسیاتی علاج کیا جاتا ہے۔ اب کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اپنے اس پروگرام کا نام احساس رکھ کر عمران خاں بھی پاکستانی عوام کا نفسیاتی علاج کرنا چاہتے ہوں؟ کیا کہا جا سکتا ہے؟
لیکن ہماری ایک پریشانی تو نہیں ہے ناں۔ پریشانیاں ہی پریشانیاں ہیں۔ اسی پریشانی میں ہمیں ایک اور نظم یاد آ گئی ہے۔ پیرزادہ سلمان انگریزی کے صحافی ہیں۔ شعری ذوق بہت اچھا رکھتے ہیں۔ انگریزی میں افسانے اور نظمیں بھی لکھتے ہیں۔ انگریزی لکھتے لکھتے انہیں اردو زبان کا خیال بھی آ گیا اور انہوں نے ''وقت‘‘ کے عنوان سے اردو نظموں اور غزلوں کا ایک ننھا منا مجموعہ چھپوا دیا۔ اس مجموعے سے ہی ایک نظم آپ بھی پڑھ لیجئے۔ پہلے ہمارا خیال تھا کہ اس نظم کا عنوان بھی ہم آپ کو بتا دیں۔ مگر پھر خیال آیا کہ کہیں ایسا ویسا نہ ہو جائے۔ اس لئے یہ نظم پڑھ کر آپ خود ہی اس کے عنوان کا اندازہ لگا لیجئے
یہ لفظ یوں نہیں لکھنا
کہیںضرر نہ پہنچے
یہ بات یوں نہیں کہنا
کہیں ادھر نہ پہنچے
ذرا سی بات کا دیکھو فسانہ ہو بھی چکا
اسی وجہ سے مخالف زمانہ ہو بھی چکا
ذرا سی بات کو دیکھو
دھیان میں رکھو
بلندیوں کا تعین
اڑان میں رکھو
اور ہاں، ہم یہ فریاد کر کر کے تھک گئے ہیں کہ تین مہینے سے مسلسل ہمارے گھر گیس کا بل گیارہ ساڑھے گیارہ ہزار روپے آ رہا ہے۔ ہم نے کہا کہ ہمارے گھر آ کر دیکھ لو، ہم نے اپنے گھر میں فولاد کی بھٹی نہیں لگائی ہوئی ہے مگر ہمارے گھر کوئی نہیں آتا بلکہ گھر آنا تو کجا کوئی گیس کا میٹر دیکھنے بھی نہیں آتا۔ ہمارا آدمی شکایت لے کر سوئی گیس کے دفتر گیا تو وہاں اسے ایسی ہی شکایتوں کا انبار دکھا دیا گیا۔ وہاں سے ہمیں جو شکایت نمبر دیا گیا ہے وہ ہزاروں میں ہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ شکایت دور کرنے کے لیے ہماری باری کئی سال بعد آئے گی۔ اب کیا ہم یہ سوچیں کہ اس طرح عام آدمی کا خون پسینہ ایک کرکے ''احساس‘‘ کا پروگرام چلایا جائے گا؟ ڈر لگتا ہے کہ بعض بد گمانیاں گناہ بھی بن جاتی ہیں۔ اس لئے ہم آگے کچھ نہیں کہتے۔ اب ہم ''احساس‘‘ پروگرام شروع ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس کے بعد ہمیں آئینی اور قانونی حق مل جائے گا۔ اور ہم عدالت کا دروزہ کھٹکھٹا سکیں گے۔ چلو، اس سے پہلے ہم نفس مطمئنہ ہی تلاش کرتے ہیں۔