عارف میاں ماہر معاشیات ہیں۔ امریکی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ پچھلے دنوں انہوں نے ٹویٹر پر سروے کرایا کہ ''ترقی پذیر ملکوں کا سب بڑا مسئلہ کیا ہے؟ شرفا یا اعلیٰ طبقے کی کرپشن؟ یا شرفا یا اعلیٰ طبقے کی نااہلی؟‘‘۔ اس سوال کے جواب میں ساٹھ فیصد لوگوں نے کرپشن کو اصل مسئلہ قرار دیا۔ چالیس فیصد نے نااہلی کو اصل مسئلہ بتایا۔ اب چونکہ عارف میاں معاشیات کے ماہر ہیں اور پاکستان کے ساتھ دوسرے ترقی پذیر ملکوں کے حالات پر بھی ان کی گہری نظر ہے، اس لئے انہوں نے اکثریت کی رائے سے اختلاف کیا اورکہا کہ ان ملکوں کا بنیادی مسئلہ نااہلی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے ان دوملکوں کا حوالہ دیا‘ جہاں اوپر کی سطح پر کرپشن موجود ہے‘ اس کے باوجود وہاں ترقی ہو رہی ہے۔ انہوں نے جن دو ملکوں کا ذکر کیا‘ ہم یہاں ان کا نام لیتے ڈرتے ہیں۔ اتنی اونچی پرواز سے ہمارے پر جلتے ہیں۔ لیکن ہم اپنے پڑوس پر تو نظر ڈال سکتے ہیں۔ غور کیجئے، وہاں کس سطح پر کرپشن نہیں ہے؟ وہاں تو اربوں روپے کا جانوروں کا چارہ کھا لیا جاتا ہے۔ غیر ملکوں سے توپوں اور جہازوں کی خریداری میں کیا کچھ نہیں کیا جاتا۔ اور یہ جو وہاں امیر زادوں کی شادی میں کروڑوں اور اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں‘ اتنی دولت صرف دیانتداری سے تو حاصل نہیں کی جاسکتی۔ چلیے، آج کل تو ہم وہاں کی فلمیں نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہماری عدلیہ نے ان فلموں پر پابندی لگا دی ہے۔ گویا عدلیہ نے وہ کام کیا ہے جو پہلے حکومتیں اور سنسر بورڈ کرتے رہے ہیں۔ لیکن کل تک تو ہم اپنے پڑوس کی فلمیں دیکھتے تھے۔ ان فلموں میں اپنے سیاستدانوں اور بڑے آدمیوں کی جو کرپشن دکھائی جاتی ہے وہ محض فلم سازوں کی خیالی اڑان تو نہیں ہو گی ناں۔ وہاں یہ سب کچھ ہوتا ہی ہو گا‘ اسی لیے تو ان پر فلمیں بنائی جاتی ہیں۔ کرپشن تو وہاں خوب ہو رہی ہے‘ اس کے باوجود وہاں معاشی ترقی ہو رہی ہے۔ آج اس ملک کو دنیا کی تیسری بڑی معیشت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہاں کرپشن کے باوجود حکومت اور معیشت کا کاروبار چلانے والے اہل افراد موجود ہیں اور انہیں اپنا کام کرنے کا پورا موقع دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تو کرپشن ایک ایسا ہتھیار بن گیا ہے جسے اپنے مخالفوں کی گردن ناپنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارے موجودہ حکمرانوں کے پاس تو کرپشن کے سوا اور کوئی نعرہ ہی نہیں ہے۔ کرپشن کرپشن کا ڈھول اتنا پیٹا جا رہا ہے کہ وہ ڈھول ہی پھٹ گیا ہے۔ اور اب ہم اس پھٹے ڈھول کی آواز ہی سن رہے ہیں۔ یہ آواز سن سن کر ہی عام آدمی کے دماغ میں بھی بیٹھ گیا ہے کہ ہمارا اصل مسئلہ کرپشن ہے اور وہ بھی اس پھٹے ڈھول کی آواز میں اپنی آواز ملا رہا ہے؛ البتہ اس شور شرابے میں ہی یہ سوال بھی سامنے آ رہا ہے کہ کہیں اپنی نااہلی چھپانے کے لیے تو یہ پھٹا ڈھول نہیں پیٹا جا رہا ہے؟ آپ اپنے ارد گرد نظر ڈال لیجئے اور اپنے آپ سے سوال کیجئے۔ معیشت سے لے کر انتظام و انصرام کے معاملات تک آپ کو کہیں اہلیت اور قابلیت نظر آ رہی ہے؟ اگر کچھ لوگ کہہ رہے ہیں تو غلط تو نہیں کہہ رہے کہ نااہلوں اور ناتجربہ کار لوگوں کا ایک گروہ اکٹھا ہو گیا ہے۔ اردو کا ایک نہایت ہی عامیانہ سا لفظ ہے ''لونڈھیار‘‘۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہم اس لونڈھیار میں پھنس گئے ہیں۔ ہم یہ لفظ استعمال کرنے پر معافی چاہتے ہیں۔ لیکن حالات مجبور کر رہے ہیں ایسی بازاری زبان استعمال کرنے پر۔ یہاں ایک اور شعر بھی یاد آ گیا ہے۔
اماں کیسی کہ موج خوں ابھی سر سے نہیں گزری
گزر جائے تو شاید بازوئے قاتل ٹھہر جائے
تو کیا موج خوں ابھی سر سے نہیں گزری؟ اور اسی لیے بازوئے قاتل اپنے کام میں مصروف ہے؟ کرپشن کرپشن کے نعرے اور کیا ہیں؟ چلیے، موج خون سر سے گزرنے کا انتظار کر لیجئے۔
جتنے منہ اتنی باتیں۔ کوئی کچھ کہہ رہا ہے کوئی کچھ۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ اسے کیا کہنا چاہیے۔ یا اگر سمجھ میں آ رہا ہے تو جان بوجھ کر ذہنی انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ذرا سوچیے، کوئی عقل و ہوش رکھنے والا انسان موجودہ حالات میں یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ چند ہفتے کے اندر اتنی نوکریاں ہوں گی کہ ان کے لیے امیدوار نہیں ملیں گے؟ اور معاشی اور سیاسی حالات ایسے ہو جائیں گے کہ ٹھیلے اور چھابڑی والا بھی خود ٹیکس ادا کرنے چلا آئے گا؟ کسی نے حساب لگایا کہ اس دعوے کو کتنے دن ہو گئے ہیں؟ ان ہفتوں میںکتنے بے روزگاروں کو روزگار نصیب ہوا؟ ہم ہر روز ہی سنتے ہیں کہ ہمارے ملک میں باہر سے سرمایہ آ رہا ہے۔ دوسرے ملکوں کے سرمایہ کار دوڑے دوڑے چلے آ رہے ہیں ہمارے ہاں سرمایہ لگانے۔ آپ کو کہیں سرمایہ کاری نظر آئی؟ ہم تو دن دُگنی رات چوگنی بڑھتی ہوئی مہنگائی ہی دیکھ رہے ہیں۔ اب تو یہ بھی ڈرایا جا رہا ہے کہ آنے والے رمضان میں یہ مہنگائی آسمان پھاڑ کر باہر نکل جائے گی۔ پھر غریب آدمی کہاں جائے گا؟ غریب آدمی کی تو بات ہی نہ کیجئے۔ بات کیجئے متوسط طبقے کی۔ اس مہنگائی سے غریب آدمی تو متاثر ہوتا ہی ہے، لیکن اس کا بڑا بوجھ متوسط طبقے پر پڑتا ہے۔ وہ طبقہ جسے سفید پوش کہا جاتا ہے۔ اس طبقے کو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنا بھی دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ یہ طبقہ کسی کو اپنی بپتا بھی نہیں سنا سکتا۔ کسی کے آگے ہاتھ بھی نہیں پھیلا سکتا۔ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ ہی کاٹ سکتا ہے۔ ان حالات میں ہمارے ساتھ مذاق بھی کیا جاتا ہے۔ تلقین کی جاتی ہے کہ دو کے بجائے ایک روٹی کھایا کرو۔ یہ زخموں پر نمک چھڑکنا نہیں تو اور کیا ہے۔ ہم زبان پر قابو رکھنا بھول گئے ہیں اور ہم یہ بھی بھول گئے ہیں کہ ہمیں اپنے جذبات پر قابو رکھنے کے لیے زبان دی گئی ہے۔ کیا ہمارے وزرائے کرام ہمارے اوپر یہ احسان کر سکتے ہیں کہ وہ صبح شام اپنے مخالفوں کی کرپشن کی کہانیاں سنانے کے بجائے ہمیں یہ بتائیں کہ ہم بد نصیبوں کا مستقبل سنوارنے کے لئے آپ کیا کر رہے ہیں۔ آپ کو بار بار یقین دلایا جا رہا ہے کہ آپ کی حکومت کہیں نہیں جا رہی ہے۔ اپوزیشن کی جماعتوں میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ آپ کی حکومت گرا سکیں۔ ان جماعتوں میں نہ اتفاق ہے نہ اتحاد۔ اور پھر ہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ حکومتیں گرانے کے لیے سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے بجائے کسی اور ہی طاقت ضرورت ہوتی ہے۔ بد عنوان لوگوں کا احتساب ضرور ہونا چاہیے‘ لیکن یہ احتساب متعلقہ اداروں کو کرنے دیجئے۔ آپ کرپشن کرپشن کا ڈھول پیٹتے ہیں تو خواہ مخواہ ان اداروں کو بدنام کرتے ہیں۔ لوگوں کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا ہے کہ ادارے آپ کے اشارے پر چل رہے ہیں۔ اب تو جی چاہتا ہے کہ نیب جیسے ادارے کو ان وزرائے کرام کی بیان بازی پر پابندی لگا دینا چاہیے۔ یہ ان اداروں کے کام میں دخل دے رہے ہیں۔ اب حکمرانوں کو کون سمجھائے کہ آپ کی یہ نعرے بازی پوری قوم کو نفسیاتی بیماری میں بھی مبتلا کر رہی ہے۔ آپ کچھ دن خاموش رہ کر تو دیکھیے۔ آپ بھی سکون کی نیند سوئیں گے اور قوم بھی۔ چلیے اب احمد ندیم قاسمی کی ایک نظم کا کچھ حصہ پڑھ لیجئے۔ یہ نظم ہم سب دل جلوں کی آواز ہے۔ نظم کا عنوان ہے ''ایک درخواست‘‘
زندگی کے جتنے دروازے ہیں مجھ پر بند ہیں
دیکھنا‘ حدِ نظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا بھی جرم ہے
سوچنا‘ اپنے عقیدوں سے نکل کر سوچنا بھی جرم ہے
''کیوں‘‘ بھی کہنا جرم ہے ''کیسے‘‘ بھی کہنا جرم ہے
سانس لینے کی تو آزادی میسر ہے مگر
زندہ رہنے کے لیے انسان کو کچھ اور بھی درکار ہے
اور اس ''کچھ اور بھی‘‘ کا تذکرہ بھی جرم ہے
اس وقت ہم یہاں یہ نظم کیوں پیش کر رہے ہیں؟ یہ آپ خوب سمجھتے ہیں۔ ہم عرض کر چکے ہیں کہ عارف میاں نے کرپشن کے باوجود جن دو ملکوں میں ہونے والی ترقی کا ذکر کیا ہے، ہم یہاں ان ملکوں کا نام نہیں لے سکتے۔ صرف نظم پیش کر سکتے ہیں۔