"MAC" (space) message & send to 7575

اور اب پوٹھوہار جشنِ ادب

موضوع تھا ''اردو فکشن کے حیرت کدے‘‘۔ میزبان تھے حمید شاہد اور اس پر بولنے والے تھے‘ محترمہ نجیبہ عارف اور رشید امجد جیسے ادب کے نقاد اور افسانہ نگار۔ ہمیں بھی اس تگڈم میں شامل کر لیا گیا تھا۔ اول تو ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ اردو فکشن کے حیرت کدے سے کیا مراد ہے؟ حیرت کدہ تو بذات خود یہ کائنات ہے۔ یہ دنیا ہے۔ اس کائنات میں بسنے والی مخلوق ہے۔ انسان ہیں۔ اور انسانوں کے باہمی رشتے ہیں۔ وہ رشتے جو زمانے کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ یہی انسان اس حیرت کدے کے اسرار پر سے پردہ بھی اٹھاتا رہا ہے۔ کل کی حیرت ہمارے لئے آج زندہ حقیقت بن چکی ہے۔ پہلے انسان نے چاند کے روشن حصے پر قدم رکھا۔ (چاند کی مٹی کے ساتھ ہماری تصویر بھی موجود ہے) اور چندا ماما کی بڑھیا اوبڑ کھابڑ چٹانوں میں بدل گئی۔ پھر چین نے چاند کے تاریک حصے کی طرف اپنا راکٹ بھیج دیا۔ اب رہی فکشن کی بات، تو انتظار حسین جب ہزاروں سال پرانی پنج تنتر کی کہانیوں، مہاتما بدھ کی جاتکوں اور ہمارے بزرگوں کے ملفوظات سے اپنے افسانوں کی دنیا آباد کرتا ہے تو ہم اس سے ادبی حظ اٹھاتے ہیں۔ ان سے انسانوں اور انسانوں کی دنیا کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن حیرت زدہ نہیں ہوتے کیونکہ انسانی علوم میں تہہ در تہہ اضافے کے ساتھ ہماری فکری صلاحیتیں بھی ترقی پذیر رہی ہیں اور وہ جو منطق میں حکمت کی تعریف کی گئی ہے کہ چیزوں کو جوں کا توں سمجھنا‘ تو وہ حکمت بھی ہمارے سامنے ہے۔ کائنات کے اسرار ایک ایک کرکے ہم پر کھلتے چلے جا رہے ہیں۔ جب ہمیں بتایا گیا کہ جسے ہم خلا کہتے ہیں اس میں ایک بلیک ہول بھی موجود ہے‘ وہ اندھا اور بھوکا غار جو روشنی تک کو نگلتا چلا جا رہا ہے، تو ہم حیرت کے سمندر میں ڈوب گئے تھے۔ ہمیں ڈرایا جاتا تھا کہ کوئی شے بھی اس اندھے اور بھوکے غار کے قریب سے نہیں گزر سکتی۔ لیکن اب ہمیں بتایا گیا ہے کہ اس بلیک ہول کی تصویر کھینچ لی گئی ہے۔ جانے دیجئے کہ یہ تصویر کیسے کھینچی گئی ہے لیکن تصویر کھینچ تو لی گئی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی ہر روز ہمارے لئے حیرت کا سامان کرتی رہتی ہے۔ لیکن ہزاروں سال پرانے انسان کی طرح ہم اپنے ہوش و حواس اس حیرت کدے کے حوالے نہیں کر دیتے۔ کروڑوں سال پرانی کائنات کی تاریخ نے ہمیں سمجھایا ہے کہ حیرت و استعجاب کے پردے وقت کے ساتھ اٹھتے چلے جاتے ہیں۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ آج مشین بھی ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔ اگر انگریز ناول نگار میک ایون اپنے نئے ناول میں ایک مرد اور ایک عورت کے ساتھ ایک مشین یعنی روبوٹ کو بھی مرکزی کردار بناتا ہے تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ معاف کیجئے، ہم نے ہلکے پھلکے اخباری کالم کو خواہ مخواہ بوجھل بنا دیا۔ لیکن ہمارے قاری کو بھی تو علم ہونا چاہیے کہ یہ جو ادبی جشن ہوتے ہیں ان میں کیسی باتیں کی جاتی ہیں۔ اب اگر نجیبہ عارف کہتی ہیں کہ ادب کی طرح تصوف بھی سچ کی تلاش ہے تو یقینا درست کہہ رہی ہیں۔ سچ تک پہنچنے کے کئی راستے ہیں۔ اپنے اپنے راستے۔ لیکن جب رشید امجد صاحب یہ کہتے ہیں کہ مزاروں پر لوگوں کا ہجوم بڑھتا جا رہا ہے تو انہیں اس کی وجہ بھی بتانا چاہیے۔ کیا اس کا تعلق ہمارے معاشرے اور ہماری معیشت کے ساتھ نہیں ہے؟ بلکہ معاشرے اور معیشت کے علاوہ ہماری تعلیم کے ساتھ بھی؟ اسی طرح حمید شاہد نے جب سوال کیا کہ ہماری داستانوں کے ساتھ کیا ہوا؟ تو رشید امجد صاحب نے انکشاف کیا کہ انگریزوں نے جان بوجھ کر ہماری داستانوں کو تباہ کیا۔ اب یہ تو ناصر عباس نیّر ہی بتا سکتے ہیں کہ رشید امجد کا یہ دعویٰ کہاں تک درست ہے کہ وہ کالونیل اور پوسٹ کالونیل مطالعے کے ماہر ہیں۔ لیکن ہمارا یہ سوال کرنے کو جی چاہتا ہے کہ پھر تو سر سید احمد خاں نے مسلمانوں کو جدید علوم کی طرف راغب کرکے بہت برا کیا؟ وہ انہیں داستانوی دور میں ہی زندہ رہنے دیتے تو اچھا تھا؟ جب مغرب میں جدید علوم فروغ پا رہے تھے اور وہاں سائنسی فکر جنم لے رہی تھی تو ہم اس وقت کہاں کھڑے تھے؟ سر سید نے یہی تو دیکھ لیا تھا۔ 
لیجئے، ہم اس بحثا بحثی میں یہ بتانا تو بھول ہی گئے کہ یہ مکالمہ اور یہ بحث و تمحیص کہاں ہو رہی تھی؟ جان لیجئے کہ لٹریری فیسٹیول چل چلا کر اور گھوم گھام کر پھر اسلام آباد پہنچ گیا ہے۔ اس بار یہ پوٹھوہار لٹریری فیسٹیول ہے۔ گھوم گھام کر ہم نے اس لیے کہا کہ کئی سال آکسفورڈ یونیورسٹی لٹریچر فیسٹیول کراچی کے ساتھ اسلام آباد میں بھی اپنے ڈیرے جماتا رہا تھا۔ لیکن یہ اس وقت تک تھا جب تک امینہ سید اس کی سربراہ تھیں۔ ان کے جانے کے ساتھ ہی اسلام آباد کا فیسٹیول ختم ہو گیا۔ اب وہ صرف کراچی تک ہی محدود ہو گیا ہے۔ امینہ اور آصف فرخی نے اپنا الگ ادب فیسٹیول شروع کر دیا ہے۔ لیکن اس کی مہورت بھی کراچی میں ہی ہوئی۔ لاہور لٹریری فیسٹیول بھی صرف لاہور تک ہی محدود ہے‘ یا پھر وہ اپنے پر پھیلاتا ہے تو لندن اور نیویارک جا پہنچتا ہے۔ اسی دوران میں فیصل آباد لٹریری فیسٹیول کا ڈول ڈالا گیا۔ وہ جو کہتے ہیں ناں کہ اللہ جوڑی سلامت رکھے۔ تو ہم شیبا اور توشیبا کی جوڑی کی سلامتی کی دعا مانگتے ہیں۔ شیبا اردو ادب کی استاد ہیں اور توشیبا تقریبات کی استاد۔ اس میں آپ اصغر ندیم سید کو بھی شامل کر لیجئے۔ کس دھوم دھام سے یہ جشن منائے جاتے ہیں۔ یہ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ فیصل آباد فیسٹیول کی کامیابی کے بعد یہ جشن گجرات یونیورسٹی پہنچا۔ گجرات میں دو فیسٹیول ہوئے‘ لیکن ان میں ڈاکٹر ضیاالقیوم کی معاونت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ڈاکٹر صاحب ہیں تو سائنس کے آدمی، مگر ادب اور فنون لطیفہ سے بھی شغف رکھتے ہیں۔ جب وہ گجرات یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے تو انہوں نے اس یونیورسٹی میں لٹریری فیسٹیول کا اہتمام کیا۔ اب وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں تو یہ فیسٹیول اسلام آباد لے گئے۔ اس کا نام رکھا ''پوٹھوہار لٹریری فیسٹیول‘‘۔ یہ جشن تھا تو ایک دن کا لیکن اس ایک دن میں تعلیم، تمدن، ثقافت، تہذیب اور تماشہ، یعنی پرفارمنگ آرٹس پر مکالمہ بھی کیا گیا۔ اس مکالمے میں شریک تھے آئی اے رحمن، غازی صلاح الدین اور اصغر ندیم سید۔ شیبا عالم میزبان تھیں۔ پرفارمنگ آرٹس پر جب بھی بات ہوتی ہے تو تھیٹر بیچ میں ضرور آ جاتا ہے۔ تھیٹر اور سٹیج ڈرامہ۔ ہمارے ہاں سٹیج ڈرامہ پروان کیوں نہیں چڑھ سکا؟ یہ سوال تھا۔ ہم ایک زمانے سے اس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ لیکن ابھی تک کوئی معقول جواب نہیں مل سکا ہے۔ کراچی میں ضیا محی الدین اپنے ادارے کے ذریعے اس صنف کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن ان کی یہ کوشش کراچی تک ہی محدود ہے۔ اور پھر وہ بھی مغربی ڈراموں کے ترجمے پر ہی زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔ اردو میں طبع زاد ڈرامے لکھنے والے نظر ہی نہیں آتے۔ اجوکا جیسے سیاسی اور ایجی ٹیشنل تھیٹر گروپ تو ہمارے ہاں موجود ہیں‘ لیکن جسے سنجیدہ سٹیج ڈرامہ کہا جاتا ہے‘ وہ موجود نہیں ہے۔ انور مقصود اپنے مزاحیہ ڈراموں سے تھوڑا بہت دال دلیہ کر لیتے ہیں۔ ہمارے ڈرامہ لکھنے والے ٹیلی وژن کے لیے ڈرامے تو لکھتے ہیں‘ مگر سٹیج کے لیے نہیں لکھتے۔ اس لئے کہ اس میں مالی فائدہ نہیں ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سنجیدہ سٹیج ڈرامے دیکھنے والے تماشائی بھی موجود نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ اس ڈرامے کا ٹکٹ عام آدمی کی دسترس سے باہر بھی ہوتا ہے۔ سٹیج پر عامیانہ قسم کے پھکڑ باز نام نہاد ڈرامے تو چل جاتے ہیں۔ سنجیدہ ڈرامے نہیں چلتے۔ اب ٹی وی ڈرامے پر ہمیں اپنی پریشانی بھی یاد آ گئی۔ ہماری پریشانی یہ ہے کہ ان ڈراموں میں بڑے اہتمام کے ساتھ بیڈ روم یا خواب گاہ کیوں دکھائی جاتی ہے؟ جس ڈرامے میں بھی دیکھو ایک لڑکی یا خاتون بستر پر نیم دراز ہوتی ہے اور مرد کردار ان سے باتیں کرنے اندر آتے جاتے رہتے ہیں۔ یہ کسی ایک ڈرامے میں ہی نظر نہیں آتا۔ اکثر مکالمے بیڈ روم میں ہی دکھائے جاتے ہیں۔ خواب گاہ ہر انسان کا نجی یا پرائیویٹ مقام ہوتا ہے۔ باتیں کرنے کے لئے ڈرائنگ روم یا اور دوسرے مقام ہوتے ہیں۔ آخر یہ ڈرامہ پروڈیوسر ہمیں دوسروں کے بیڈ روم میں کیوں لے جاتے ہیں؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں