"MAC" (space) message & send to 7575

خواندہ،ناخواندہ، نیم خواندہ اور اردو املا

ایک تو ہوتے ہیں خواندہ یا پڑھے لکھے۔ دوسرے ہوتے ہیں ناخواندہ یا بے پڑھے لکھے۔ مگر ایک قسم نیم خواندہ لوگوں کی بھی ہوتی ہے۔ یعنی کم پڑھے لکھے لو گوں کی۔ یہ قسم چاہے دنیا کی بڑی سے بڑی جامعات میں بھی تعلیم حاصل کر لے، رہے گی نیم خواندہ کی نیم خواندہ ہی۔ اس قسم کے لیے ہی تو محاورہ بنایا گیا ہے ''نیم حکیم خطرۂ جان اور نیم ملا خطرۂ ایمان‘‘ یہ قسم اپنے آپ کو عقل کل سمجھتی ہے۔ وہ ایمان کی حد تک یقین رکھتی ہے کہ اسے جو منصب ملا ہے وہ آسمانی طاقتوں کا عطیہ ہے۔ اسی لیے یہ قسم جب بات کرتی ہے تو لگتا ہے جیسے یہ ساتویں آسمان سے بول رہی ہے۔ غرور اس کے دل و دماغ پر ایسا چھا جاتا ہے کہ وہ خود اس کی قیدی بن جاتی ہے اور پھر یہ اپنے آپ کو بھی تباہ کرتی ہے اور اپنے ساتھ دوسروںکو بھی لے ڈوبتی ہے۔ اس سے زیادہ ہم اور کچھ نہیں کہیں گے۔ اور ہم ان قدیم داستانوں اور فلموں کا ذکر بھی نہیں کریں گے جن میں دکھایا جاتا تھا کہ بادشاہ تو نہایت ہی عقل مند، بہت ہی زیرک، ایمان دار، دیانت دار اور انصاف پسند ہوتا ہے لیکن اس کے وزیر بہت ہی نااہل اور نکمے، بے ایمان اور بد قماش ہوتے ہیں۔ اور ہم یہ بھی سوال نہیں کریں گے وہ کیسے بادشاہ ہوتے تھے جنہیں انسانوں کی پہچان نہیں ہوتی تھی۔ وہ مردم شناس نہیں ہوتے تھے اور نااہل وزیروں اور مشیروں کو اپنے گرد جمع کر لیتے تھے۔ داستانوں میں ان بادشاہوں کی اپنی اہلیت اور قابلیت کے بارے میں کوئی سوال نہیں کرتا تھا؟ لیجئے، ہمارا خیال تھا کہ اس بار سیاست پر بات نہیں کریں گے اور پچھلے کالم کی طرح ادب اور ثقافت کو ہی اپنا موضوع بنائیں گے‘ لیکن جاپان اور جرمنی کی مشترکہ سرحد کا انکشاف پڑھ کر یہ ساری داستان بیان کرنا پڑ گئی۔ 
چلیے، اب ادبی اور ثقافتی جشنوں کی طرف پھر چلتے ہیں۔ پاکستان نیشنل بک فائونڈیشن ہر سال اسلام آباد میں اتنا بڑا میلہ لگاتی ہے کہ ہم نے اسے اسلام آباد کی تیسری عید کا نام دے دیا ہے۔ یوں تو تین چار روزہ جشن میں ادب، ثقافت اور نئی چھپنے والی کتابوں پر بحث مباحثے ہوتے ہیں لیکن اس کی اصل دل کشی وہ بڑے اور بچے ہوتے ہیں جو عید بقرہ‘ عید والے رنگ برنگے کپڑے پہنے پاک چائنا سنٹر میں ایسے گھومتے پھرتے نظر آ تے ہیں جیسے یہ بھی ان کی عید ہو۔ چائنا سنٹر بھی تو لال‘ پیلے اور اودے‘ نیلے غباروں سے سجا ہوتا ہے۔ اس کی ایک اور دلکشی کتابوں کے وہ سٹال ہوتے ہیں جہاں نئی پرانی ہر قسم کی کتابیں مل جاتی ہیں۔ جو اصحاب شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں کتاب خریدنے کا شوق ختم ہو گیا ہے‘ وہ یہاں آ کر دیکھ لیں۔ ہر بک سٹال پر خریداروں کا ہجوم ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ کتابیں پڑھنے والوں کو ایک ہی مقام پر ہر مصنف اور ہر ناشر کی کتابیں مل جاتی ہیں۔ نیشنل بک فائونڈیشن نے ایک اور لائق تحسین کام کیا ہے، یہ کہ پاکستان کے قریب قریب تمام ہی ادیبوں اور شاعروں کو ''کتاب کا سفیر‘‘ بنا لیا ہے۔ اب یہ سفیر کتابوں اور کتاب پڑھنے والوں کے لیے کیا خدمات انجام دیتے ہیں؟ یہ تو ہم نہیں جانتے لیکن ان سفیروں کو بک فائونڈیشن کی کتابیں سستی مل جاتی ہیں۔ اس فائونڈیشن نے تمام بڑے ریلوے سٹیشنوں اور ہوائی اڈوں پر اپنے بک سٹال بھی بنا رکھے ہیں۔ آپ وہاں بیٹھ کر کتاب پڑھ سکتے ہیں اور چائے یا کافی بھی پی سکتے ہیں۔ اس ادارے نے کتاب خوانی کے فروغ کے لیے کتاب گھر بھی بنائے ہیں۔ لیکن ہماری یہ بات کوئی نہیں مانتا کہ کتاب خوانی کے فروغ کے لیے ہر علاقے میں لائبریریاں بنائی جائیں۔ اس سے کتاب بھی پڑھی جائے گی اور مصنف اور ناشر کو فائدہ بھی ہو گا کہ ان کی کتابیں زیادہ سے زیادہ پڑھی جائیں گی اور فروخت بھی ہوں گی۔ ہم جب یہ بات کرتے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ ہماری چلتی پھرتی لائبریریاں کام تو کر رہی ہیں۔ اس لئے اب ہم نے یہ کہنا ہی بند کر دیا ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں کوئی بھی حکومت ہو اسے پڑھنے پڑھانے سے کبھی دلچسپی نہیں رہی۔ یہی دیکھ لیجئے کہ تعلیم پر ہمارے ہاں کتنا خرچ کیا جاتا ہے۔ اس لیے خاموشی ہی بہتر ہے۔ یہاں یہ بھی بتا دیں کہ ہم ہر سال ہی اس جشن میں شرکت کرتے رہے ہیں‘ لیکن اس سال کچھ ایسی مجبوری ہو گئی تھی کہ اس میں شریک نہ ہو سکے۔ ہم خاص طور سے جس اجلاس میں شریک ہونا چاہتے تھے وہ کمپیوٹر میں اردو املا کے سافٹ ویئر کی تیاری کے بارے میں تھا۔ اختر رضا سلیمی شاعر ہیں‘ ناول نگار ہیں اور کئی کتابوں کے مرتب ہیں۔ انہوں نے دو سال کی محنت اور دو نوجوان سافٹ ویئر انجینئروں کے تعاون سے ایک ایسا سافٹ ویئر تیار کر لیا ہے‘ جس کے ذریعے آپ کو اردو کا صحیح املا مل جائے گا۔ انگریزی میں یہ سہولت کافی عرصے سے موجود ہے۔ اگر آپ کمپیوٹر پر انگریزی کے کسی لفظ کا غلط املا کمپوز کریں گے تو آپ کا کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ اسے خود بخود ٹھیک کر دے گا۔ اردو میں یہ سہولت موجود نہیں ہے۔ اسی لیے آپ دیکھتے ہیں کہ ایک لفظ کوئی کسی طرح لکھتا ہے اور کوئی کسی طرح۔ اس طرح غلطی کا احتمال رہتا ہے۔ اگر آپ نیا سافٹ ویئر استعمال کریں گے تو اس غلطی سے بچ جائیں گے۔ ہر ایک لکھنے والا ایک ہی املا لکھے گا۔ بلاشبہ اختر رضا سلیمی کا یہ بہت بڑا کار نامہ ہے لیکن اردو کے ساتھ ایک اور پریشانی بھی تو ہے۔ وہ ہے تلفظ کی پریشانی۔ کراچی کا اردو لغت بورڈ طلبہ کے لیے اردو الفاظ کا تلفظ رومن رسم الخط میں چھاپ رہا ہے۔ جوش صاحب اور شان الحق حقی صاحب چاہتے تھے کہ لغت کے ساتھ صحیح تلفظ کا آڈیو ریکارڈ بھی رکھنا چا ہیے لیکن یہ بہت پرانی بات ہے۔ اب ٹیکنالوجی کہیں سے کہیں پہنچ چکی ہے۔ انگریزی میں آ پ کو کسی نام کا صحیح تلفظ معلوم کرنا ہو تو آپ گوگل پر جا کر وہ نام لکھیں۔ آپ رومن میں بھی اس کا تلفظ جان لیں گے، اور سائونڈ میں بھی۔ آپ کو آواز آئے گی اور آپ جان جائیں گے کہ اصل تلفظ کیا ہے۔ اختر رضا سلیمی نے اردو املا کے لئے تو سافٹ ویئر تیار کر لیا۔ اب انہیں یا اردو زبان سے محبت کرنے والے کسی اور سافٹ ویئر انجینئر کو اس طرف بھی توجہ کرنی چاہیے۔ ہر زبان میں اصل تلفظ کی اہمیت تسلیم کی جاتی ہے لیکن ہماری اپنی زبان میں اسے اہمیت ہی نہیں دی جاتی۔ نتیجہ یہ ہے کہ کسی ایک لفظ کا تلفظ کوئی کچھ کرتا ہے اور کوئی کچھ۔ خاص طور سے ٹیلی وژن چینلز پر تو جیسے افراتفری مچی ہوئی ہے۔ مذکر مؤنث کو تو جانے دیجئے یہاں تو بے شمار الفاظ اپنی اصل شکل ہی بھول چکے ہیں۔ اگر سائونڈ کے ذریعے تلفظ کا مسئلہ حل کر لیا جائے تو اس سے صرف اردو زبان ہی فائدہ نہیں اٹھائے گی بلکہ پاکستان کی دوسری زبانیں بھی اس سے فائدہ اٹھائیں گی۔ بہت بڑی سہولت ہمیں حاصل ہو جائے گی بلکہ یہ سائونڈ والا تلفظ ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی کام آئے گا۔ ہمارے اساتذہ طلبہ کو پڑھاتے ہوئے کبھی غلطی نہیں کریں گے۔ اب یہاں آپ کہہ سکتے ہیں کہ بعض لفظ اپنے کئی کئی تلفظ رکھتے ہیں۔ تو اس کے لیے لسانیات کے ماہرین پر مشتمل بورڈ ایک معیاری تلفظ پر اتفاق کر کے اسے رائج کر سکتا ہے۔ اب آخر میں ہمیں ادبی جشن پھر یاد آ گئے۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ ان جشنوں میں اظہار رائے کی جو آزادی ہمیں مل جاتی ہے (موجودہ حالات میں) وہ آزادی شاید سوشل میڈیا پر تو مل جاتی ہو لیکن اس سے باہر چھپے ہوئے یا بولے ہوئے الفاظ پر نہیں ملتی۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے جشن میں ایک اجلاس ''حق گوئی کی وراثت‘‘ پر بھی تھا۔ توثیق حیدر‘ حامد میر سے بات کر رہے تھے۔ اس اجلاس میں جو باتیں کی گئیں اور جس بے باکی سے کی گئیں، وہ اگر اسی طرح پرنٹ یا اخباری میڈیا پر کی جاتیں تو معلوم نہیں ان پر کتنی قینچیاں چل جاتیں۔ اس اعتبار سے بھی ان ادبی اور ثقافتی جشنوں کی ضرورت ہے۔ آخر دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے کوئی نہ کوئی ذریعہ اور وسیلہ تو ہونا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں