زبان پھر پھسل گئی۔ چند ماشے چند تولے کی زبان ہے۔ پھسل ہی جاتی ہے۔ جاپان اور جرمنی کی سرحدیں مل جاتی ہیں تو زبان پھسل جاتی ہے۔ بلاول بھٹو کے بارے میں کچھ کہہ دیا جاتا ہے تو زبان پھسل جاتی ہے۔ زبان پر قابو رکھنا تو جیسے ہم بھول ہی چکے ہیں۔ اب تو لگتا ہے کہ اپنی کابینہ میں دو تین وزیر ایسے رکھنا پڑیں گے جن کا کام ہی وضاحتیں کرنا ہو گا کہ یہ بات یوں نہیں کہی گئی تھی‘ یوں کہی گئی تھی۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر آدمی ہر وقت غصے میں رہے۔ ہر وقت اس کے ماتھے پر بل پڑے رہیں۔ اور اسے اپنے ارد گرد ہر وقت اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا رہے تو ظاہر ہے زبان سے وہی الفاظ نکلیں گے جو زبان پھسلنے کے باعث نکلتے ہیں۔ غصہ، طیش اور ہر وقت نفرت کی آگ میں جلتے رہنا دشمن کو اتنا نقصان نہیں پہنچاتا جتنا اپنے آپ کو تباہ کرتا ہے۔ آپ کا خون ہر وقت کھولتا رہتا ہے۔ اور یہ کھولتا ہوا خون دل و دماغ کے ساتھ آپ کے اعصاب کو بھی جھنجھنا بنا دیتا ہے۔ اس سے آپ کی اپنی حکومت کی ناکامی بھی ثابت ہوتی ہے۔ ناکامی جھنجھلاہٹ پیدا کرتی ہے۔ یہ جو بار بار زبان پھسلتی ہے اس کے وجہ یہی اعصاب شکن نفسیاتی کیفیت ہے۔ حکومت کا نظم و نسق سنبھالنے کے لیے تو زیادہ تحمل اور بردباری کی ضرورت ہوتی ہے۔ مخالفوں کا تو کام ہی شور مچانا اور ہنگامہ کرنا ہے۔ وہ تو آپ کے ہر اچھے برے کام میں کیڑے ڈالتے رہیں گے کہ یہی ان کا کام ہے۔ (یہاں میں عرض کر دوں کی اصل محاورہ کیڑے ڈالنا ہے، کیڑے نکالنا نہیں۔ کیڑے نکالنے کا تو یہ مطلب ہو گا کہ آپ کسی کے جسم سے کیڑے نکال کر اسے پاک صاف کر رہے ہیں۔ محاورے کے مطابق آپ پاک صاف جسم میں باہر سے کیڑے ڈال کر اسے خراب کرتے ہیں)۔ وہ جو بہادر شاہ ظفر نے کہا ہے اسے گانٹھ میں باندھ لیجئے۔
ظفرآدمی اس کو نہ جانیے گا جو ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
اب یہاں مجھے ایک فلم یاد آ رہی ہے۔ وہ فلم ''قاتل‘‘ تھی یا کو ئی اور۔ فلم کی ہیروئین صبیحہ کسی بات پر غصے میں کھول رہی ہے۔ وہ زبانی کلامی اپنا غصہ نکالنے کے بجائے، دو رکعت نماز پڑھنے کھڑی ہو جاتی ہے۔ نماز سے فارغ ہوتی ہے تو اس کا غصہ کافور ہو چکا ہوتا ہے۔ اسی لئے تو کہتے ہیں، گرمی چھوڑو۔ ٹھنڈے ٹھار رہو۔ ہنسو، خوش رہو۔ اگر اپنے اوپر اور اپنی پالیسیوں پر اعتماد ہے تو مخالفوں کی باتیں اپنے کاندھوں سے ایسے جھاڑ دو جیسے دھول اور مٹی جھاڑتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مخالفوں کی باتوں پر کان نہ دھرو۔ آپ اپنے وعدوں پر عمل کرکے دکھائیے۔ صرف اپنے مخالفوں کی باتوں پر رد عمل ظاہر کرنے میں ہی اپنا وقت ضائع نہ کیجئے۔ آپ کی حکومت کہیں نہیں جا رہی ہے۔ اور اس وقت اسے جانا بھی نہیں چاہیے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو نہایت ہی ہولناک نتائج برآمد ہوں گے۔ پاکستان ایک بار پھر سالہا سال پیچھے چلا جائے گا۔ اور یہ جو پارلیمانی جمہوری نظام کے مقابلے میں صدارتی نظام کا شوشہ چھوڑا گیا ہے‘ اس کے تباہ کن نتائج پر بھی غور کر لیجئے۔ اگر ایم کیو ایم اس کی حمایت کر رہی ہے تو جان لیجئے کہ اس کا مقصد کچھ اور ہے۔ اس کی اپنی حرکتوں کی وجہ سے اب تو کراچی سے بھی اس کے پائوں اکھڑتے چلے جا رہے ہیں۔ صدارتی نظام کی حمایت کر کے سندھی اکثریت کے مقابلے میں وہ اس طرح کراچی میں پائوں جمانا چا ہتی ہے۔ اب رہے عمران خاں کے اپنے دم چھلے، تو وہ یہ بھول رہے ہیں کہ صدارتی نظام میں عمران خاں صاحب مطلق العنان نہیں ہوں گے۔ کوئی اور ہو گا۔ ہم نے اپنی زندگی میں یہ سارے نظام دیکھے ہیں۔ ہم نے لاہور میں 1953ء کا مارشل لا دیکھا ہے۔ ایوب خاں کی صدارت دیکھی ہے۔ اس صدارت میں صحافت اور صحافیوں کے ساتھ جو ہوا وہ تو جانے دیجئے کہ اس کے زخم ہم آج تک سہلا رہے ہیں لیکن مختلف صوبوں میں جو تحریکیں چلیں انہیں آپ کیوں بھول جاتے ہیں۔ ان دنوں جب ہم لاہور سے کراچی جاتے ہوئے سندھ سے گزرتے تو ریلوے سٹیشنوں پر ہمارے ڈبوں میں کچھ پمفلٹ پھینکے جاتے تھے۔ معلوم نہیں یہ پمفلٹ کسی نے محفوظ رکھے ہیں یا نہیں‘ لیکن آج بھی اگر ہم انہیں پڑھیں تو ہمارے دل لرز جائیں۔ پنجاب کے خلاف نفرت اور ماتم کہ ہمارے اوپر پنجاب کی آمریت مسلط کر دی گئی ہے۔ اور یہیں سے علیحدگی کی تحریکوں نے جنم لیا۔ مشرقی پاکستان کی حالت اس سے بھی زیادہ خطرناک تھی۔ ہم یہ واقعہ بار بار دہرا چکے ہیں۔ چلو‘ ایک بار پھر سہی۔ ہم اور بہت ہی سینئر صحافی محمد افضل خاں (جسے مرحوم کہتے دل کٹتا ہے) گرین ایرو ٹرین میں ڈھاکہ سے چاٹگام جا رہے تھے۔ سیکنڈ کلاس کا ڈبہ تھا۔ اس ڈبے میں ہمارے علاوہ صرف ایک بنگالی نوجوان اور اس کی (شاید) بیوی‘ بیٹھے تھے۔ تھوڑی دیر تو وہ ہماری باتیں سنتے رہے۔ پھر اس نوجوان نے ماتھے پر بل ڈال کر ہم سے سوال کیا ''آپ اپنی کالونی دیکھنے آئے ہیں؟‘‘۔ اس کا یہ سوال اتنا تلخ تھا کہ ہماری زبان بند ہو گئی۔ بھلا ہم کہہ بھی کیا سکتے تھے۔ اس کے بعد ہم نے یحییٰ خاں کی صدارت بھی دیکھی۔ اور اس کے ساتھ ہی مشرقی پاکستان کو الگ ہوتے بھی دیکھا۔ پھر ضیاالحق آئے اور پاکستان صدیوں پیچھے چلا گیا۔ آج جو دور چل رہا ہے وہ بھی ضیاالحق کا ہی دور ہے۔ مشرف کی صدارت نے مزید تفرقے پیدا کئے۔ آج صدارتی نظام کی بات کرنے والوں کو اپنی تاریخ فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ ٹھیک ہے، آپ پنجاب کے دو صوبے اور بنا دیجئے‘ لیکن رہے گا تو وہ بھی پنجاب ہی۔ آج آپ سے ایک سندھ ہضم نہیں ہو رہا ہے کہ وہاں آپ کی حکمرانی نہیں چل رہی ہے۔ صدارتی نظام میں آپ کو بلوچستان کی خیر بھی منانا پڑے گی۔ خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں میں ایک تحریک نے آپ کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ صدارتی نظام کے بعد کیا ہو گا؟ سوچ لیجئے۔
اب آج سے پچاس سال پرانی ایک خبر اور پڑھ لیجئے، یہ21 اپریل 1969ء کی خبر ہے۔
''نظم و نسق کی صدارتی کونسل نے اعلان کیا ہے کہ انتظامیہ کی اعلیٰ سطح پر کرپشن کی بیخ کنی کرنے کے لیے عنقریب ایک اعلیٰ اختیارات کی کمیٹی قائم کی جائے گی۔ یہ کمیٹی محتسب کا کام کرے گی۔ اس کمیٹی کے سربراہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے موجودہ یا سابق جج ہوں گے۔ صدر سے لے کر جوائنٹ سیکرٹری تک سب کو اپنے اور اپنے خاندان کے افراد کے منقولہ اور غیر منقولہ اثاثے ظاہر کرنا ہوں گے۔ کمیٹی کو اختیار ہو گا کہ وہ ان اثاثوں کی چھان بین کرے۔ کمیٹی کو عدالتی اختیارات بھی حاصل ہوں گے۔ وہ کسی فرد کو بھی طلب کر سکے گی اور ضروری دستاویزیں بھی مانگ سکے گی‘‘۔
یہ ایوب خاں کی صدارت تھی۔ اس خبر کو پچاس سال ہو گئے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ وہ ہمارے سامنے ہے۔ حاشا و کلا ہم کرپشن کی حمایت نہیں کر رہے ہیں بلکہ یہ عرض کر رہے ہیں کہ نعرے بازی سے کام نہیں چلے گا۔ اس کے لیے کچھ اور ہی کرنا پڑے گا۔ کیا آپ الیکشن کا نظام بدل سکتے ہیں؟ کیا الیکشن میں دولت کا استعمال آپ بند کرا سکتے ہیں؟ کیا آپ جاگیرداروں، سرداروں، تمن داروں اور نام نہاد پیروں کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں؟ کیا برادری سسٹم سے آپ نجات دلا سکتے ہیں؟ اگر آپ یہ نہیں کر سکتے تو آپ پچاس سال پرانی خبریں ہی دہراتے رہیں گے۔ اب آخر میں پھر ایک شعر حاضر ہے۔ یہ شعر ہمیں آئی اے رحمن صاحب نے سنایا۔ انہوں نے بتایا کہ سردار جعفری نے انہیں کسی نوجوان کا یہ شعر سنایا تھا۔ وہ نو جوان کون تھا؟ یہ کسی کو یاد نہیں۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اس شعرکا خالق کون ہے؟ خیر، شعر یہ ہے:
ہم نے جا کر دیکھ لیا ہے حدِ نظر سے آگے بھی
حدِ نظر ہی حدِ نظر ہے حدِ نظر سے آگے بھی
ہم نے یہ شعر یہاں اس لئے نقل کیا ہے کہ ہمارے سامنے بھی حدِ نظر ہی حدِ نظر ہے۔ اس سے آگے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔