ہم مئی کی پہلی تاریخ کو مزدوروں کا دن مناتے ہیں۔ اس دن سرکاری طور پر چھٹی ہوتی ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ اس دن شکاگو کے شہدا کی یاد منائی جاتی ہے۔ چند انجمنیں اور این جی اوز جلوس بھی نکالتی ہیں۔ بڑے بڑے لال بینر عورتوں اور مردوں کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں۔ ان بینروں پر طرح طرح کے انقلابی نعرے لکھے ہوتے ہیں۔ برسوں سے یہ رسم چلی آ رہی ہے۔ چند سال پہلے تک ہمارے ادیب بھی یہ دن مناتے تھے۔ پاک ٹی ہائوس میں جلسہ ہوتا تھا۔ بڑی بڑی انقلابی تقریریں ہوتی تھیں۔گویا اس طرح ایک فرض ادا کر لیا جاتا تھا۔ حکومت کی طرف سے چھٹی منا کر بھی ایک رسم ہی ادا کی جاتی ہے۔ کچھ تسلیاں دی جاتی ہیں۔ کچھ وعدے وعید کئے جاتے ہیں۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ اس بار ہماری نئی حکومت نے بھی اشتہاروں کے ذریعے محنت کشوں کو چند خوش خبریاں سنائی ہیں۔ ان خوش خبریوں میں انہیں شیلٹر ہوم فراہم کرنے‘ ان کے کھانے کا انتظام کرنے اور اسی قسم کے کچھ وعدے کئے گئے ہیں‘ مگر ان کی تنخواہیں مقرر کرنے یا ان میں اضافہ کرنے کی کوئی خوش خبری نہیں سنائی گئی۔ انہیں یہ اطلاع بھی نہیں دی گئی کہ قانون نے انہیں جو حقوق دیئے ہیں، وہ حقوق انہیں کیسے حاصل ہوں گے۔ کہتے ہیں‘ ہمارے ہاں لیبر لاز بھی ہیں مگر وہ لاز کہاں ہیں؟ اور ان پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوتا؟ یہ پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ ان قوانین کے تحت مزدوروں کو اپنی یونین بنانے کا حق ہے‘ مگر کیا آج انہیں یہ حق دیا جاتا ہے؟ یونین بنانے کا حق ان سے اس طرح چھین لیا گیا کہ اب کوئی کارخانہ یا کوئی بھی ادارہ براہ راست ملازم بھرتی نہیں کرتا‘ بلکہ تھرڈ پارٹی کے ذریعے بھرتی کرتا ہے، اور یہ تھرڈ پارٹی ٹھیکیدار ہو تی ہے۔ اس صورت میں یونین بنانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ مزدور یا کوئی بھی محنت کش اپنے مطالبات منوانے کے لیے آواز نہیں اٹھا سکتا۔ لیبر لاز کے تحت ہی دکانوں پر کام کرنے والے ملازم صرف آٹھ گھنٹے کام کرنے کے پابند تھے۔ اس سے زیادہ کام کرنے پر انہیں زیادہ معاوضہ ادا کرنا پڑتا تھا۔ اب وقت کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ بقول ایک محنت کش کے‘ یہاں آنے کا وقت تو مقرر ہے، جانے کا کوئی وقت نہیں ہے۔ بعض ملٹی نیشنل کمپنیوں نے وقت کی پابندی کا حساب بالکل ہی ختم کر دیا ہے۔ وہاں بارہ بارہ چودہ چودہ گھنٹے کام لیا جاتا ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ اچھی تنخواہ دیں گے تو کام بھی زیادہ لیں گے۔ لیکن یہ تو بڑے اداروں اور بھاری تنخواہ والوں کا مسئلہ ہے۔ جسے مزدور کہتے ہیں وہ غلاموں کی طرح کام کر رہا ہے۔ بھٹہ مزدور کو ہی لے لیجئے۔ وہ تو بانڈڈ لیبر ہے۔ ایک طرح کا غلام۔ پیشگی رقم ادا کرکے انہیں ہمیشہ کے لئے غلام بنا لیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ ان کے بچے بھی اسی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوتے ہیں۔ اب جہاں تک ٹریڈ یونینوں کا مسئلہ ہے‘ جب تک یہ بائیں بازو کے ہاتھ میں تھیں، اپنے مطالبات کے لیے مشترکہ اور متفقہ طور پر مالکوں سے سودے بازی کر سکتی تھیں۔ پھر دائیں بازو کی جماعتوں کے ذریعے ان انجمنوں میں پھوٹ ڈالی گئی۔ اس کے بعد ان کی سودے بازی کی طاقت ختم ہو گئی۔ اس سے مالکوں کو فائدہ ہوا۔ اب سب مالکوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ مالکوں کے رحم و کرم پر بھی نہیں بلکہ ٹھیکیداروں کے رحم و کرم پر۔ چائلڈ لیبر کے نام پر دنیا بھر میں بہت شور مچایا گیا‘ حتیٰ کہ ہماری بعض مصنوعات پر غیر ملکوں میں اس لئے پابندی لگائی گئی کہ ان کارخانوں میں کم عمر بچے کام کرتے ہیں۔ لیکن یہ کم عمر بچے آج بھی وہاں کام کرتے ہیں اور انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ اب اگر نئی حکومت واقعی محنت کشوں کی بھلائی چاہتی ہے تو سب سے پہلے اسے تھرڈ پارٹی سسٹم ختم کرنے پر توجہ کرنا چاہیے۔ دوسرے‘ کام کے اوقات مقرر کرنے چاہئیں۔ تیسرے‘ آج کی مہنگائی کے حساب سے تنخواہیں اور مزدور کی اجرت مقرر کرنا چاہئے۔ جہاں تک بچوں کی مزدوری کا تعلق ہے، ہمارے آئین کے تحت ان کی تعلیم کا انتظام کرنا حکومت کا فرض ہے۔ پہلے کارخانوں پر یہ پابندی لگائی جاتی تھی کہ وہ مزدوروں کے بچوں کے لئے سکول بنائیں۔ معلوم نہیں آج اس قانون پر عمل درآمد ہوتا بھی ہے یا نہیں۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو یہ سال کے سال یوم مئی منانا ایک رسم ہی رہ گئی ہے۔ دنیا بھر میں یہ رسم نبھائی جاتی ہے تو ہم بھی اسے منا لیتے ہیں۔ ایک دن ذرا سا ہلا گلا ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد خاموشی۔ اور یہ خاموشی صرف حکومت کی طرف سے ہی نہیں ہوتی بلکہ مزدوروں کی بھلائی کے نام پر جو انجمنیں کام کر رہی ہیں‘ انہیں بھی یہ محنت کش اور یہ مزدور سال کے سال یوم مئی پر ہی یاد آتے ہیں۔ مزدوروں کے نام پر کئی ادارے اور انجمنیں کام کر رہی ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا، وہ کیا کر رہی ہیں کیونکہ مزدوروں اور محنت کشوں کے حالات دن بدن خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ غالب نے تو کہا تھا ''ہم موحد ہیں، ہمارا کیش ہے ترک رسوم‘‘ کہنے کو تو موحد ہم بھی ہیں مگر رسوم کے پابند۔ ہم رسمیں منانا جانتے ہیں۔ ہم نے یوم مئی منا لیا۔ اقوام متحدہ نے ''آزادیٔ صحافت کا دن‘‘ مقرر کیا تو ہم نے وہ دن بھی منا لیا۔ اخباروں میں صحافت کی آزادی کے لیے تھوڑا بہت شور مچایا اور پھر آرام سے بیٹھ گئے کہ اب منہاج برنا اور نثار عثمانی کہاں سے لائیں۔
اب حکومت کا ذکر آیا تو تحریک انصاف یاد آ گئی۔ کمسن لڑکیوں کی شادی کے مسئلے پر نظر آیا کہ یہ کوئی مبسوط اور منضبط سیاسی جماعت نہیں بلکہ بھان متی کا کنبہ ہے۔ کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا اکٹھا کر کے بھان متی کا کنبہ جوڑ لیا گیا ہے۔ یہاں' من چہ سرائم و طنبورۂ من چے سرا‘ والا معاملہ ہے ۔ ہر جماعت کی ایک پالیسی ہوتی ہے۔ سیاسی، معاشرتی اور معاشی امور پر ایک نقطہ نظر ہوتا ہے۔ یہاں تو ہر ایک اپنا اپنا طنبورہ لیے بیٹھا ہے۔ کمسن لڑکیوں کی شادی کے معاملے پر ایک وزیر کچھ کہہ رہا ہے تو دوسرا وزیر کچھ۔ ایک وزیر صاحب نے تو استعفے تک کی دھمکی دے ڈالی۔ ان کے خیال میں اگر کمسن لڑکیوں کی شادی پر پابندی لگائی گئی تو ان کا ایمان خطرے میں پڑ جائے گا۔ انہوں نے کمسن لڑکیوں کی شادی کے خلاف بل پیش کرنے والے اپنے ہی ساتھی رمیش کمار کو ہندو ہونے کا طعنہ دے کر ایک پاکستانی برادری کی توہین کی ہے۔ ہندو بھی پاکستان کے ایسے ہی شہری ہیں جیسے مسلمان۔ رمیش کمار اگر کمسن لڑکیوں کی شادی کے خلاف قانون بنانا چاہتے ہیں تو وہ صرف ہندو لڑ کیوں کی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ مسلمان لڑ کیوں کی بات بھی کر رہے ہیں۔ کمسن لڑکیوں کی شادی کی علت مسلمانوں میں بھی موجود ہے۔ حیرت تو اس پر ہوتی ہے کہ عمران خان صاحب خود اس معاملے میں خاموش ہیں۔ اس ملک کے وزیر اعظم اور ایک جماعت کے سر براہ کی حیثیت سے انہیں بھی اپنے موقف کی وضاحت کرنی چاہئے۔ ورنہ یہی سمجھا جائے گا کہ وہ بھی اپنے ایک پُرانے خیالات کے حامل وزیر سے اتفاق کرتے ہیں۔ انہیں کھل کر سامنے آنا چاہئے۔ شیریں مزاری جیسے وزیر ان کے ساتھ ہیں۔ بہرحال یہ تو ثابت ہو گیا کہ ان کی جماعت کے اندر سب اچھا نہیں ہے۔ عمران خان کے ڈر سے بعض وزیر اپنا منہ بند رکھتے ہیں ورنہ اندرونی اختلافات کی خلیج وہاں بہت گہری ہے۔ اسد عمر اور فواد چودھری کے معاملے میں بھی یہ خلیج سامنے آ چکی ہے۔ اب فواد چودھری کا ذکر آیا ہے تو وزارت اطلاعات کی نئی مشیر ڈاکٹر عاشق اعوان یاد آ گئیں۔ ان کے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہو رہا ہے۔ انہیں اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لئے فواد چودھری والی زبان استعمال کرنا پڑ رہی ہے مگر جب بولتی ہیں تو لگتا ہے جیسے وہ جھوٹ بول رہی ہیں۔ یہی صورتحال پنجاب میں ہے۔ لگتا ہے کہ صمصام بخاری صاحب کی زبان بھی لڑکھڑا رہی ہے۔ بہرحال سب رسمیں نبھا رہے ہیں۔