فواد چودھری کو بیٹھے بٹھائے پتا نہیں کیا سوجھی کہ ایک بیان داغ دیا۔ چلنے دیتے کام ‘جیسے چل رہا تھا۔ چالیس لاکھ روپے ہی تو خرچ ہو رہے تھے۔ ہمارے بعض بزرگ کام سے لگے ہوئے تھے۔ رمضان اور عیدین کے چاند دیکھنے کا مسئلہ ہی تو تھا۔ اب انہیں یہ سمجھانا کہ اکیسویں صدی میں جب انسان چاند سے بھی آگے سیاروں تک پہنچ گیا ہے اور ان سیاروں پر انسانی بستیاں بسانے پر غور کر رہا ہے ہم اپنی آنکھ سے چاند دیکھنے پر اصرار کیوں کر رہے ہیں، تحصیل حاصل کے سوا اور کیا ہے۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ آج بھی وہ ننگی آنکھ سے چاند نہیں دیکھتے، بلکہ دوربین کی مدد سے چاند دیکھتے ہیں۔ اور دوربین اسی سائنس کی ایجاد ہے جو آئندہ سینکڑوں سال تک چاند کی پیدائش کا وقت بتا سکتی ہے۔ فواد چودھری کو تھوڑا اور انتظار کر لینا چا ہیے تھا کہ وقت ہمارا سب سے بڑا استاد ہے۔ اور ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ ہم 1958ء کے آخر میں روزنامہ امروز کے ساتھ ملتان گئے تھے۔ اس زمانے میں ملتان میں تین چار بڑے بڑے مدرسے سینکڑوں طلبہ کو دینی تعلیم سے آراستہ کر رہے تھے۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ ان مدرسوں میں ہونے والے اجتماع کی تصویریں اخبار میں چھاپیں‘ لیکن ہمارے فوٹو گرافر کو وہاں داخلے کی اجازت نہیں ملی بلکہ انہی مدرسوں میں ایک استاد گرامی ایسے بھی تھے کہ اگر مدرسے سے باہر بھی کسی جلسے میں وہ فوٹو گرافر کا کیمرہ دیکھ لیتے تو اپنے چہرے پر چادر ڈال لیتے تھے۔ لیکن کئی سال بعد ہم نے یہ بھی دیکھا کہ انہی مدرسوں کا کوئی اجتماع فوٹو گرافر کے بغیر نہیں ہوتا تھا۔ ہمیں تو وہ واقعہ بھی یاد ہے جب کسی بزرگ کا جنازہ اس وقت تک نہیں اٹھایا گیا جب تک وہاں اخبار کا فوٹو گرافر نہیں پہنچ گیا۔ ان بزرگ کا تعلق دینی مدرسے سے تھا۔ اب تو یہ سب تاریخ ہے۔ اور تاریخ تبدیلیوں کا نام ہے۔ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ کمیٹی ضرور بنائیے۔ اور بحث مباحثے بھی کرا لیجئے۔ شاید اس سے آپ کے چالیس لاکھ بچ جائیں۔ لیکن یہ بحث وقت کے ساتھ ہی ختم ہو گی۔ اب ہمیں یاد آیا کہ کیا فواد چودھری نے رویت ہلال کا مسئلہ چھیڑنے سے پہلے عمران خاں سے بھی بات کی تھی؟ اس لئے کہ عمران خاں تو روحانیات کو سپر سائنس بنانے کے دعوے کر رہے ہیں۔ روحانیات اور سائنس؟ چہ معنی دارد؟ اس کی تشریح عمران خاں ہی کر سکتے ہیں۔ روحانیات کو سپر سائنس بنانے کے لیے ایک یونیورسٹی کی بنیاد بھی رکھ دی گئی ہے۔ ابھی تک اس یونیورسٹی کے پورے خدوخال تو ہمارے سامنے نہیں آئے؛ البتہ عمران خاں صاحب کی تقریر سے اندازہ ہوا کہ وہاں تصوف اور روحانیات پر ریسرچ کی جائے گی۔ گویا یہ یونیورسٹی ان بڑے اور چھوٹے مدرسوں سے مختلف ہو گی جو آج کل دینی تعلیم دے رہے ہیں۔ اب اس یونیورسٹی کی فیکلٹی کیا ہو گی؟ یعنی وہاں پڑھانے والے کون ہوں گے؟ اور پھر پڑھنے والے کون ہوں گے؟ اس یونیورسٹی کا نصاب کیا ہو گا؟ اور اس نصاب کے لیے کتابیں کہاں سے آئیں گی؟ یہ سب آپ کے اور ہمارے ذہن رسا یا ذہن نا رسا پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ جہاں تک ہمارا ناقص علم ہے‘ روحانیات باطنی علوم سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کا رشتہ انسان کے اندرون سے ہے۔ یہ ما بعدالطبیعیات سے بحث کرتی ہے۔ اس کے بر عکس سائنس یا جدید سائنس مادی علوم سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کا موضوع طبیعیات ہے، ما بعدالطبیعیات نہیں۔ آج اگر عمران خاں نے روحانیات اور سائنس کو ملانے کی کوشش کی ہے تو اس سے پہلے اسلامی سائنس، کرسچین سائنس اور ھندو سائنس کی بحثیں بھی چلتی رہی ہیں۔ اور یہ بحثیں کسی نہ شکل میں آج بھی جاری ہیں۔ اسلامی سائنس کے ساتھ اب یہ روحانی سائنس بھی آ گئی ہے۔ آئیے، یہاں ہم ایک ایسے سائنس داں سے رجوع کرتے ہیں جو اس موضوع پر ایک مدلل اور مبسوط کتاب لکھ چکا ہے۔ وہ لکھتا ہے
''جدید سائنس واضح اور قطعی قاعدوں کا مجموعہ ہے، جن کے ذریعے مادی کائنات کا عقلی ادراک کیا جاتا ہے۔ سائنس کو قوت و اختیار کلی طور پر اس طریق کار سے حاصل ہوتا ہے جو مشاہدہ و استنباط کا مرکب ہے۔ تمام سائنسی معلومات کی عمارت ہمارے تجربات و حواس کی معروضی بنیاد پر تعمیر کی جاتی ہے۔ یہ معروضیت جس وجہ سے ممکن ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ تجربہ اور منطقی مطابقت ہی صداقت کے معیار ہوتے ہیں۔ اس میدان میں سائنس داں کی داخلی کیفیت یا اخلاقی کردار، اس کے سیاسی خیالات یا قومیت یا سائنس کی دنیا میں اس کے رتبہ وغیرہ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ کوئی اسے پسند کرے یا نا پسند کرے لیکن اس میں شک نہیں کہ جدید سائنس کی نوعیت کلیتاً دنیاوی ہے۔ سائنسی حقائق کی تصدیق کے لیے کسی مقدس دیوی دیوتا کی ضرورت نہیں ہو تی۔ کسی مقدس ہستی کے وجود کا نہ تو اقرار کیا جاتا ہے نہ انکار؛ تاہم انفرادی طور پر بعض سائنس داں بہت مذہبی ہوتے ہیں۔ وہ کائنات کے مقصد اور تنظیم و ترتیب کے قائل ہوتے ہیں۔ یہاں یہ یاد دلانا کافی ہے کہ جدید سائنس کے بانی گلیلیو اور نیوٹن دونوں ہی عیسائی کلیسا کے عقائد اور رسوم کے پابند تھے۔ جب سترہویں صدی میں کوپرنیکس کی دریافتوں کا انقلاب آیا تو سائنس اور مذہب کے راستے جدا ہو گئے۔ ''یہی سائنس داں یہ بھی واضح کرتا ہے کہ1979 میں طبیعیات کا نوبیل انعام جن دو سائنس دانوں کو دیا گیا، ان میں سے ایک مذہبی تھا اور دوسرا کٹر غیر مذہبی‘‘ یعنی سائنس نہ تو مذہبی ہے اور نہ غیر مذہبی۔ یہاں جس کتاب سے یہ اقتباس لیا گیا ہے اس کتاب کا نام ہے ''مسلمان اور سائنس‘‘۔ اس کے مصنف ہیں ڈاکٹر پرویز ہود بھائی۔ اس کتاب میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کے سنہری دور میں سائنسی علوم میں قابل قدر سائنسی کارنامے انجام دئیے گئے لیکن مسلمانوں کے سیاسی زوال کے ساتھ ہی ان کے علمی اور تحقیقی شعبوں پر بھی رجعت پسندوں اور دقیانوسی طرز فکر رکھنے والوں کا غلبہ ہو گیا۔ کتاب میں اس کی بے شمار مثالیں دی گئی ہیں۔ انہی مثالوں میں سے ایک مثال جنات سے توانائی پیدا کرنے کی سفارش بھی ہے۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے ایک سینئر ڈائریکٹر بشیرالدین محمود نے 1990 میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان میں توانائی کے مسئلے کا حل تلاش کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے سفارش کی کہ جنات چونکہ آگ سے بنے ہوئے ہیں اس لئے انہیں توانائی کے منبع یا وسیلے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ بشیرالدین محمود صاحب بعد میں طالبان کے ساتھ مل گئے تھے۔ ان کی سفارش کے مطابق جنات تو قابو میں نہ آ سکے؛ البتہ پاکستان آج تک توانائی کا بحران دور کرنے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہا ہے۔
یہ ساری باتیں عمران خاں کے اس دعوے سے یاد آئی ہیں کہ روحانیات کو سپر سائنس بنا دیا جائے گا۔ اب عمران خاں کو کون سمجھائے کہ باطنی علوم کو مادی علوم کے ساتھ خلط ملط نہیں کیا جا سکتا۔ دونوں کا دائرہ کار الگ الگ ہے۔ جب ہندوستان میں نریندر مودی نے دعویٰ کیا کہ قدیم ہندوستان میں انسانی اعضا کی ٹرانسپلانٹیشن کی سائنس موجود تھی تو ہم نے ان کا مذاق اڑایا تھا۔ نریندر مودی کا اشارہ لمبی سونڈ والے دیوتا گنیش کی طرف تھا‘ جس کے بارے میں کہانی مشہور ہے کہ جب شیو دیوتا نے غلطی سے اس کی گردن کاٹ دی تھی تو اس کا سر دوبارہ لگانے کے لیے ہاتھی کا سر ہی ملا تھا، جسے اس کی گردن پر لگا دیا گیا تھا۔ اس پر بہت سی کہانیاں اور ناول بھی لکھے گئے ہیں۔ ہمارے درمیان بھی بشیرالدین محمود موجود ہیں۔ عمران خاں نے اشفاق احمد کے بابے بھی یاد دلا دئیے ہیں۔ یہ بابے اشفاق احمد کے ساتھ گئے نہیں ہیں۔ وہ آج بھی موجود ہیں۔ آج کے کئی لکھنے والے بھی ان بابوں سے استفادہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ بابے روحانی طاقت رکھتے ہیں۔ چونکہ یہ ان کے ایمان کا حصہ ہے اس لیے مادی سائنس کی بات کرنے والے اس بارے میں کچھ کہتے ڈرتے ہیں۔ بہرحال روحانیات پر ریسرچ کے لیے ایک یونیورسٹی کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ اس لئے ہمیں انتظار کرنا چاہیے کہ اس ریسرچ کے بنیادی اصول کیا مرتب ہوں گے؟ اور ابھی ابھی یاد آیا کہ ایک طرف نئی نئی یونیورسٹیوں کی بنیادیں رکھی جا رہی ہیں، اور دوسری طرف ہائر ایجوکیشن کمیشن رو رہا ہے کہ اس کے فنڈز کم کر دئیے گئے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے ماہر اور قابل اساتذہ کہاں سے لائیں۔ اور ذہین و فطین طلبہ کی مالی امداد کے لیے کس کے آگے ہاتھ پھیلائیں؟