اس وقت ہمیں ایک کتاب یاد آ رہی ہے۔ یہ کتاب امریکی صدر جارج ڈبلیو بش (جونیئر) کے زمانے میں چھپی تھی۔ کتاب کا نام تھا STUPID WHITE MEN۔ اس کے مصنف تھے مائیکل مور، جو فلم ساز بھی تھے اور آسکر وغیرہ بھی جیت چکے تھے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ ہمارے مرحوم دوست حسن عابدی نے کیا تھا‘ اور اردو کتاب کا نام رکھا تھا ''گھامڑ گورے‘‘۔ چھوٹے بش کو نمونہ بنا کر مائیکل مور نے ثابت کیا تھا کہ امریکہ کا انتخابی نظام اتنا عجیب و غریب ہے کہ ایسے ایسے گھامڑ انسان صدر منتخب ہو جاتے ہیں، جنہیں پوری دنیا تو کیا، خود اپنے ملک کے بارے میں بھی کچھ علم نہیں ہوتا۔ اس وقت تک post truth کی اصطلاح سامنے نہیں آئی تھی۔ پھر ساری دنیا کی سیاست میں حالات ایسے تبدیل ہوئے کہ ہم مابعد سچائی کے دور میں آ گئے۔ یہ وہ دور ہے جہاں سچائی نہیں بلکہ جعلی، نقلی اور مصنوعی سچائی کا بول بالا ہے۔ یہاں جھوٹی خبریں سچی بن جاتی ہیں اور سچی خبریں جھوٹی۔ اس مابعد سچائی کے بعد تو ہمیں صرف امریکہ ہی نہیں، بلکہ دوسرے مغربی اور مشرقی ملکوں میں بھی بلا ناغہ یہ تماشے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ مغرب میں انگلستان کو ہی دیکھ لیجئے۔ یہ ملک جو نہایت ہی مہذب و شائستہ اورstiff upper lip والے انگریزوں کا ملک مانا جاتا تھا، اب وہاں سر پر بُھٹے (سٹے) کے رنگ والے پیلے جھبرے بالوں والا ایک کھلنڈرا سا شخص وزیر اعظم بن جاتا ہے۔ بتایئے، کیا یہ ان انگریزوں کے لئے سبکی کا معاملہ نہیں ہے جو اپنے آپ کو متمدن اور مہذب کہتے ہیں؟ یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں۔ آپ نے وہ تصویر تو دیکھی ہو گی جو نئے وزیر اعظم بورس جانسن اور ملکہ ایلزبتھ کی اخباروں میں چھپی ہے؟ ایک طرف بورس جانسن سر جھکائے کھڑے ہیں (شکر ہے سر کے بال تراشے ہوئے تھے۔ شاید ملکہ کے ڈر سے؟) اور دوسری طرف ملکہ، حیران پریشان، پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے سامنے کھڑے اس عجیب الخلقت شخص کو ایسے دیکھ رہی ہیں جیسے سوچ رہی ہوں ''یہ کون سی مخلوق ہے؟‘‘۔ آپ وہ تصویر ایک بار پھر غور سے دیکھیے اور ملکہ کے چہرے، بالخصوص آنکھوں کے تاثرات پر غور کیجئے۔ جس ملکہ نے، اپنی طویل عمر میں، ایک سے ایک مہذب، نستعلیق اور شائستہ وزیر اعظم دیکھا ہو، اب انہیں ایسی غیر شائستہ شکلیں بھی دیکھنا پڑ رہی ہیں۔ شکر ہے، اسے دیکھ کر ملکہ عالیہ بیہوش نہیں ہو گئیں۔ اگر اس موقع کا کوئی فلمی منظر ہوتا تو فلم کا ہدایت کار وہاں ملکہ عالیہ کو ضرور بیہوش کر دیتا۔ اور ہاں، یہ گورے گھامڑ بھی نہیں ہیں۔ انہیں گھامڑ نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں، یہ کھلنڈرے ہیں۔ جی ہاں، کھلنڈرے۔
تو یہاں ہمیں ایک لفظ ملا ہے ''کھلنڈرا‘‘۔ آج ہم ایک بار مغرب سے مشرق تک اور پھر مشرق سے مغرب تک نظریں دوڑاتے ہیں تو ہر جگہ فٹ بال کی طرح یہی لفظ اچھلتا کودتا نظر آتا ہے۔ ہم کھلنڈروں کے نرغے میں آ گئے ہیں۔ بلکہ کھلنڈرے سیاست دانوں کے نرغے میں آ گئے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے کھلنڈرے پن کے قصے اتنے عام ہیں کہ یہاں انہیں دہرانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اور وہ اس پر شرمندہ بھی نہیں ہیں۔ برطانیہ کے بورس جانسن بھی اس معاملے میں ٹرمپ سے پیچھے نہیں رہے ہیں۔ اب تک ان کا آخری شکار ہمارے سرگودھا کا ایک سکھ خاندان بنا ہے۔ اور وہ بھی خشونت سنگھ کے رشتے داروں میں سے۔ اچھی خاصی شریف شکل کی خاتون بورس جانسن کے کھلنڈرے پن کی نذر ہو گئیں۔ کھلنڈرے ہونے کا یہی کمال تو ہوتا ہے۔ ہم بہت خوش ہیں کہ ان صاحب کے پردادا، سگردادا مسلمان تھے اور ترک سلطانوں کے درباریوں میں سے تھے۔ ہو سکتا ہے یہ کھلنڈرا پن انہیں وہاں سے بھی ملا ہو۔ اور وہ تعصب بھی انہیں اسی طرح ملا ہو جیسے مذہب تبدیل کرنے والوں میں پیدا ہو جاتا ہے۔ تو کیا ڈونلڈ ٹرمپ کا تعصب وطن تبدیل کرنے سے پیدا ہونے والا تعصب ہے؟ جی نہیں۔ یہ وہی ''گھامڑ گوروں‘‘ والا تعصب ہے کہ ہم سب سے بالاتر ہیں۔ چو نکہ ہم گورے ہیں اس لیے حکمرانی کا حق صرف ہم کو ہی ہے۔ باقی سب کیڑے مکوڑے ہیں۔ افغانستان کا ذکر کرتے ہوئے یہ کوئی گھامڑ گورا ہی کہہ سکتا تھا کہ ''ہم ایک بم مار کر اس پورے خطے کو تباہ بھی کر سکتے تھے‘‘۔ آخر آپ اس بدنصیب ملک کو اور کتنا تباہ کریں گے؟ اس کے تو غاروں تک میں کلسٹر بم مار مار کر کئی نسلیں آپ نے غارت کر دیں۔ اب اور کیا کریں گے آپ؟ سوائے اس کے کہ افغانستان سے اپنی شکست خوردہ فوجیں نکالنے کے لیے اس ملک کو ایک بار پھر طالبان کے حوالے کر دیں؟ اب یہی تو بات چیت کی جا رہی ہے۔ اسی مقصد کے لیے تو پاکستان سے مدد مانگی جا رہی ہے۔ اسی لیے تو ہمارے وزیراعظم پر ساری مہربانیاں نچھاور کی جا رہی ہیں۔
اب یہاں ہمیں کشمیر یاد آ گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے عمران خاں کو بتایا کہ نریندر مودی نے ان سے کشمیر کے لیے ثالثی کرنے کی فرمائش کی تھی۔ اب ہندوستان خواہ کتنی ہی تردید کرتا پھرے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بات ہوئی تھی۔ یہ ثالثی ہوتی ہے یا نہیں؟ اس بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا؛ البتہ اس موضوع پر کانگریسی رہنما اور پرانے سفارت کار منی شنکر ائیر نے ہندوستان کے اخبار Indian Express میں جو مضمون لکھا ہے آپ وہ مضمون ضرور پڑھ لیجئے۔ وہ مضمون پڑھ کر کشمیر کے بارے میں ہندوستان کے اصل منصوبے آپ کے سامنے آ جائیں گے۔ منی شنکر نے لکھا ہے کہ نریندر مودی اور ان کے نظریاتی گرو امیت شاہ ( جو آج کل ہندوستان کے وزیر داخلہ ہیں) کا منصوبہ یہ ہے کہ کشمیر کو فلسطین بنا دیا جائے‘ اور اسرائیل کی طرح رفتہ رفتہ اس کے علاقے ہندوستان میں شامل کر لیے جائیں اور وہاں کے کشمیریوں کو نکال باہر کیا جائے۔ بالکل اسرائیل کی طرح ہی یہ کام ایسے کیا جائے گا کہ ہندوستان کے آئین میں کشمیر کے علاقے کو جو تحفظ دیا گیا ہے اس پر بھی کوئی زد نہ پڑے۔ تو صاحب، آپ خود ہی سوچ لیجئے، نریندر مودی ڈونلڈ ٹرمپ سے کس ثالثی کی بات کر رہے تھے؟ اور ہم کس بات پر خوش ہو رہے ہیں؟
اب آپ پھر کھلنڈروں کی جانب آ جائیے۔ ہم نے کتابوں میں پڑھا ہے اور قصے کہانیوں میں تو جگہ جگہ یہ تذکرہ سامنے آتا ہے کہ کھلنڈرے لوگ بڑے فراخ دل، نرم مزاج اور انسان دوست ہوتے ہیں۔ ان کی نرم دلی کی تو مثالیں دی جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتے بلکہ دوسروں کی تکلیف پر خود بھی رنجیدہ ہو جاتے ہیں لیکن ہم اپنے آس پاس جن کھلنڈرے لوگوں کو دیکھ رہے ہیں، وہ تو ہمیں اس کے بالکل ہی الٹ نظر آتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا کھلنڈرا پن تو آپ دیکھتے ہی رہتے ہیں۔ نریندر مودی بھی کچھ کم کھلنڈرے نہیں ہیں۔ اپنے کتابی معنی میں تو نہیں، بلکہ عام بول چال کے معنی میں۔ وہ اپنے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ جو کر رہے ہیں، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اور پھر خود ہمارے اپنے کھلنڈرے میاں بھی تو ہیں۔ ان کا خیال آتے ہی ایسا لگتا ہے جیسے انہوں نے اپنا دل اٹھا کر طاق پر رکھ دیا ہے اور آنکھیں ماتھے پر۔ تو کیا اپنی ذات میں پوری طرح ایماندار اور دیانتدار ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دوسروں کے لیے دل پتھر کا بن جائے؟ یہاں ضیاالحق یاد آ گئے۔ بس، اس سے آگے ہم کچھ اور کہنا نہیں چاہتے۔ ورنہ وہ ساری باتیں ایک بار پھر دہرانا پڑیں گی جو ہم جیسے دل جلے ایک عرصے سے کرتے چلے آ رہے ہیں اور ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ٹیلی وژن پر ایک ہی کینڈے کے چہرے دیکھ دیکھ کر‘ اور ایک ہی انداز کی باتیں سن سن کر ہم اتنے بیزار ہو چکے ہیں کہ ان کے سامنے آتے ہی ہم اپنی آ نکھیں اور کان دونوں بند کر لیتے ہیں۔ لیکن ٹیلی وژن دیکھنا اور ان پر اچھے برے تجزئیے سننا بھی ہماری مجبوری ہے۔ ان کے بغیر بھی ہمارا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ ساٹھ پینسٹھ سال گزارے ہیں اس میدان میں ہم نے۔ عادت پڑ گئی ہے اس کی۔ اور جب کوئی عادت پڑ جائے تو پھر وہ مشکل سے ہی جاتی ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ ہمارے ٹیلی وژن سے ایک ٹی وی چینل غائب ہو گیا ہے یا غائب کر دیا گیا ہے۔ اب کچھ نہیں تو ہم وہ چینل ہی تلاش کرتے رہتے ہیں۔