عرفان صدیقی کی گرفتاری اور رہائی پر ہمارے ایک دوست کو حکومت پاکستان کا قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن یاد آ گیا۔ پوچھنے لگے کہ کیا نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی وہ ڈویژن بھی ختم ہو گیا ہے؟ نئی حکومت اور نیا پاکستان بن جانے کے بعد اس کا ذکر سننے میں نہیں آیا؟ نواز شریف کی حکومت نے قومی تاریخ اور ورثے کا ایک نیا ڈویژن بنایا تھا۔ اس ڈویژن کے تحت اکادمی ادبیات، ادارہ فروغ قومی زبان، لوک ورثہ، اردو سائنس بورڈ‘ اردو لغت بورڈ اور نیشنل بک فائونڈیشن آتے تھے۔ اس کے سربراہ عرفان صدیقی تھے۔ ہم نے بتایا کہ اردو سائنس بورڈ، اردو لغت بورڈ، ادارہ فروغ قومی زبان اور نیشنل بک فائونڈیشن تو اپنی جگہ کام کر رہے ہیں۔ انہیں ایسے سربراہ مل گئے ہیں جو نہ صرف اپنے کام میں مہارت رکھتے ہیں بلکہ انہوں نے ان اداروں کو مزید ترقی دی ہے لیکن اکادمی ادبیات اور لوک ورثہ اپنے سربراہوں سے محروم ہیں۔ اکادمی کے سر براہ ڈاکٹر قاسم بگھیو کو سبک دوش ہوئے بھی ایک سال ہو گیا ہے۔ ان کی جگہ کوئی نیا سربراہ ابھی تک نہیں آیا ہے۔ ایک سرکاری افسر اپنے فرائض کے ساتھ یہ اضافی کام بھی کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے ان افسر صاحب کا ادب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور یوں بھی وہ دو دو کام کیسے کر سکتے ہیں۔ اس لئے اکادمی کی علمی اور ادبی سرگرمیاں ایک لحاظ سے تعطل کا شکار ہیں۔ یہی حال لوک ورثہ کا بھی ہے۔ دفتری کام تو چل رہے ہیں کہ وہ مجبوری ہے لیکن بڑے پیمانے پر جو علمی اور ادبی کانفرنس وغیرہ ہوتی تھی وہ ایک ڈیڑھ سال سے نہیں ہوئی ہے۔ ہمیں موجودہ حکومت کے بعض پسندیدہ کالم نویسوں کی تحریروں سے اندازہ ہوا تھا کہ وہ خود امیدوار ہیں ان عہدوں کے بلکہ یہاں تک خبریں پھیلائی گئی تھیں کہ تمام علمی و ادبی اداروں کے موجودہ سربراہ فارغ کر دیئے جائیں گے اور وہ صاحب خود یہ تمام ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔ خدا کا شکر ہے یہ خبر غلط ثابت ہوئی۔ ورنہ علمی اور ادبی میدان میں تباہی آ جاتی۔ اس کے بعد وہ کالم نویس بھی جیسے خاموش ہو گئے۔ ہمیں تو فکر اکادمی ادبیات پاکستان کی تھی۔ ہم نے سوچا تھا کہ چلو کوئی تو سنبھالے اکادمی کے سربراہ کی ذمہ داری۔ ہمارے ذہن میں تو کئی ایسے نام ہیں جو ان عہدوں کے لئے نہایت ہی موزوں ہو سکتے ہیں لیکن کوئی سننے والا ہو تو ہم یہ نام اس کے سامنے رکھیں۔ یہاں تو معلوم ہوتا ہے کہ علم، ادب اور ثقافت اس حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہیں۔ ہمیں شفقت محمود صاحب سے تھوڑی بہت توقع تھی کہ وہ شاید کسی کی سن لیں گے کیونکہ عمران خاں کی کابینہ میں ایک وہی پڑھے لکھے اور سنجیدہ وزیر نظر آتے ہیں۔ لیکن ان کا بھی یہ حال ہے کہ ایک دن انہوں نے دینی مدارس کے نصاب میں اصلاح کا مژدہ سنایا اور دوسرے دن کہہ دیا کہ ہم ان مدرسوں کے نصاب میں کو ئی تبدیلی نہیںکر رہے ہیں۔ اب ہم کس سے کہیں کہ اکادمی ادبیات کے لیے ہمارے نزدیک کشور ناہید کو منایا جا سکتا ہے‘ اگر وہ مان جائیں۔ اگر وہ نہ مانیں تو ڈاکٹرنجیبہ عارف، یاسمین حمید یا امر سندھویہ ذمہ داری سنبھال سکتی ہیں۔ ہماری خواتین ادیبوں اور شاعروں میں یہ انتہائی پڑھی لکھی خواتین ہیں۔ یہاں ہم خواتین کا نام اس لیے لے رہے ہیں کہ اکادمی ادبیات کو آج تک کوئی خاتون سربراہ نصیب نہیں ہوئی۔ ضروری تو نہیں ہے کہ ہر بار کوئی مرد ہی اس کا سربراہ ہو۔ لیکن یہاں بھی خدشہ یہی ہے کہ یہ تینوں خواتین شاید اس کے لیے تیار نہ ہوں۔ اس لئے ہم مردوں میں اردو کے معتبر افسانہ و ناول نگار اور نقاد محمد حمید شاہد اور اصغر ندیم سید کا نام پیش کئے دیتے ہیں۔ اصغر ندیم سید کے تعارف کی ضرورت نہیں ہے کہ انہیں سب ہی جانتے ہیں۔
یہاں تک بات کرنے کے بعد ہم نے اپنے دوست کو دیکھا۔ وہ ہونٹوں ہی ہونٹوں میں مسکرا رہے تھے۔ ہم نے کہا‘ اچھا... آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ''اندھا بانٹے ریوڑیاں، ہر پھر کے اپنے اپنوں کو ہی دے‘‘؟ لیکن یہ بھی تو سوچیے کہ اس وقت ہم جو بیٹھے مغز پچی کر رہے ہیں‘ اس کا کوئی فائدہ بھی ہے؟ بھائی، ہمیں پوچھتا ہی کون ہے؟ ''کس نمی پرسد کہ بھیا کون ہو‘‘ ہم ہوتے کون ہیں یہ سفارشیں کرنے والے۔ اور یہ تجویز دینے والے؟ اگر نئے پاکستان کی نئی حکومت اپنے پسندیدہ افراد کو یہاں لانا چاہتی ہے تو وہ انہیں لے آئے۔ کم سے کم ہمیں یہ علم تو ہو جائے کہ ان کے نزدیک اکادمی ادبیات کے لیے موزوں ترین شخصیت کون ہے بلکہ اس سے حکومت اور اس کے کارندوں کے مبلغ علم کا پتہ بھی چل جائے گا۔ مبلغ علم کا بھی اور ان کے ذہنی معیار کا بھی۔ یوں بھی سب جانتے ہیں کہ یہ جو ادیب اور شاعر ہوتے ہیں ناں‘ یہ خاصے سر پھرے ہوتے ہیں۔ ان سے کوئی بعید نہیں کہ آج اگر انہیں یہ ذمہ داری سونپی جائے تو کل وہ حکومت کے خلاف ہی بولنا شروع کر دیں گے۔ انہی ادیبوں اور شاعروں میں ایسے بد دماغ بھی ہوتے ہیں جو خود اپنے ساتھیوں کو ہی طعنے دینا شروع کر دیتے ہیں۔ حبیب جالب نے اپنے ساتھی ادیبوں اور شاعروں کی بے حسی اور بے عملی دیکھ کر ہی تو کہا تھا ''اب قلم سے ازار بند ہی ڈال‘‘۔ تو کیا حکومت ڈر رہی ہے کہ کہیں اس کا قدم الٹا ہی نہ پڑ جائے؟
اب یہاں ہمیں اپنے فلسفی دوست (جو شاعر بھی ہیں) اشفاق سلیم مرزا یاد آ گئے۔ مرزا صاحب پاکستان میں ترقی پسندی، روشن خیالی اور خرد افروزی کے حوالے سے ایک لیجنڈ مانے جاتے ہیں۔ ایک داستانی شخصیت۔ انہوں نے اس موضوع پر کتنی کتابیں لکھی ہیں؟ اس وقت ان کی تعداد ہمیں یاد نہیں۔ بہر حال، انہوں نے پاکستان میں روشن خیالی اور خرد افروزی کی روایت مستحکم کرنے کے لیے مسلسل لکھا ہے۔ اور انتھک لکھا ہے۔ ہم اس وقت جو انہیں یاد کر رہے ہیں، تو اس کی وجہ ہمارے موجودہ معاشرے کے بارے میں ان کی بد دلی اور ان کی مایوسی کا اظہار ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ ستر بہتر سال سے ترقی پسندی، روشن خیالی اور خرد افروزی کے حوالے سے پاکستان میں جو بھی لکھا گیا ہے، اس کا معاشرے پر ذرہ برابر بھی اثر نہیں ہوا ہے۔ روشن خیال لکھنے والوں کی ان تحریروں نے کسی شعبے اور کسی طبقے پر بھی اپنا پائیدار نقش نہیں چھوڑا ہے۔ یہ لکھنے کے بعد انہوں نے اعلان کیا ہے کہ اب انہوں نے قلم رکھ دیا ہے اور آئندہ وہ بالکل نہیں لکھیں گے۔ بلا شبہ کسی بھی صاحب علم و دانش کی طرف سے یہ نہایت ہی دل شکن اور افسوس ناک اعلان ہے۔ جس کسی نے بھی ان کا یہ اعلان پڑھا ہے اس کا پہلا رد عمل یہ ہے کہ اگر ایسے پختہ عزم والے دانشور بھی مایوس ہو جائیں گے تو اس عام آدمی کا کیا ہو گا جو اس امید پر زندگی گزار رہا ہے کہ آخر کبھی تو اس رجعتی معاشرے کے بھاگ جاگیں گے اور کبھی تو یہاں بھی اس ترقی پسندی، اس روشن خیالی اور اس خرد افروزی کا بول بالا ہو گا‘ جس نے مہذب دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں اور معاشروں کو اس مقام تک پہنچایا ہے۔ اور یہی دانشور تو ہیں جو اپنی تحریروں میں موجودہ اجارہ دار سرمایہ دارانہ نظام کی خامیوں کی نشان دہی کرتے رہتے ہیں اور ان کی اصلاح کے لیے فکری رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ خود اشفاق سلیم مرزا نے جو اتنی کتابیں لکھی ہیں، وہ کیوں لکھی ہیں؟ کیا وہ سب لا حا صل ہے؟ لیکن... یہاں تک لکھنے کے بعد ہم نے اپنے ارد گرد نظر ڈالی۔ اور پچھلے چند عشروں کے واقعات اور اس عرصے میں ہونے والی ثقافتی، تہذیبی اور معاشرتی تبدیلیاں یاد کیں، تو ہمیں جھرجھری سی آ گئی۔ اور خود ہم بھی اشفاق سلیم مرزا کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہو گئے۔ اشفاق سلیم مرزا غلط تو نہیں کہتے۔ پچھلے ستر سال میں ہم پیچھے ہٹتے چلے گئے ہیں، اور رجعتی اور دقیانوسی طاقتیں آگے بڑھتی گئی ہیں۔ فیض صاحب نے ہمیں سکھایا تھا کہ ''بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘‘۔ ہم نے بول کر بھی دیکھ لیا۔ انہوں نے کہا ''ہم دیکھیں گے‘‘۔ اور ہم آج تک اس دیکھنے میں ہی لگے ہوئے ہیں اور اس دن کا انتظار کر رہے ہیں جس کا 'فیض صاحب کے بقول، ہم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ مگر یہ انتظار ہے کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آتا۔