ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کیا۔ ہم نے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات کم کر دئیے۔ اس کے ہائی کمشنر کو واپس بھیج دیا اور اپنے ہائی کمشنر کو پاکستان بلا لیا۔ دونوں ملکوں میں جو تھوڑی بہت تجارت ہوتی تھی وہ بھی بند کر دی گئی۔ اب رہ گئی دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی آمد و رفت تو ہمارے ریلوے کے وزیر شیخ رشید احمد نے اس کا راستہ بھی بند کر دیا ہے۔ دہلی جانے والی سمجھوتہ ایکسپریس اور راجستھان کے سٹیشن مونابائو جانے والی تھر ایکسپریس بند کر دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی دہلی اور امرتسر جانے والی بسیں بھی بند کر دی گئی ہیں۔ ہندوستان کے ساتھ ہمارے ثقافتی تعلقات پہلے ہی بند تھے۔ ہندوستانی فلموں اور ڈراموں پر بھی پابندی تھی۔ اب وزیر اعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے ایک بار پھر اعلان کیا ہے کہ ہندوستانی فلمیں اور ڈرامے بالکل نہیں دکھائے جا سکتے۔ اب یہاں، سفارتی، تجارتی اور ثقافتی تعلقات توڑنے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ ہندوستان کو اسی طرح جواب دیا جا سکتا ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان آنے جانے پر پابندی لگانے کے جو مضمرات ہوں گے، شاید ہمارے ریلوے کے وزیر اور ان کی تائید کرنے والے ہمارے وزیر اعظم نے ان پر غور نہیں کیا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر فواد چودھری نے یہی تو کہا تھا کہ ریل گاڑی اور بسیں دونوں ملکوں میں بسنے والے منقسم خاندانوں کو ملانے کے لیے چلائی جا تی ہیں‘ لیکن اس پر شیخ رشید ناراض ہو گئے اور عمران خاں نے بھی ان کی حمایت کر دی۔ ہم بھی وہی بات کہنا چاہتے ہیں جو فواد چودھری نے کہی۔ بلکہ ہم اس سے بھی آگے کی بات کرنا چاہتے ہیں۔ شیخ رشید صاحب نے تو اپنی عادت کے مطابق یہاں تک اعلان کر دیا کہ جب تک میں یہاں ہوں اس وقت تک یہ ریل گاڑیاں نہیں چل سکیں گی۔ بالکل بجا فرمایا شیخ صاحب نے کہ ہندوستان کو بہرحال کوئی نہ کوئی جواب تو دینا تھا۔ لیکن کیا یہ اعلان کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی سوچا کہ جو پاکستانی خاندان ان ریل گاڑیوں اور بسوں میں ہندوستان جا چکے ہیں‘ ان کا کیا ہو گا؟ وہ واپس کیسے آئیں گے؟ ان سے پہلے بھی بہت سے پا کستانی وہاں موجود ہوں گے۔ ان کی قسمت کا فیصلہ کون کرے گا؟ ریل گاڑیاں اور بسیں بند رہیں گی۔ ان کے ویزے کی مدت ختم ہو جائے گی۔ اس کے بعد ان کا کیا ہو گا؟ وہ ہندوستانی حکومت کے رحم و کرم پر ہوں گے اور ہندوستان کی حکومت ان سب خاندانوں کو جیلوں میں بند کر دے گی۔ ظاہر ہے، ان کے واپس آنے کا تو کوئی ذریعہ ہو گا ہی نہیں۔ اس پر ہمیں 1965 کی جنگ کا زمانہ یاد آ گیا۔ ان دنوں جو پاکستانی باشندے ہندوستان میں رہ گئے تھے وہ سب جیلوں میں بند کر دئیے گئے تھے۔ ان میں زبید صمدانی بھی تھے۔ زبید صمدانی روزنامہ امروز ملتان کے انتظامی شعبے سے وابستہ تھے۔ وہ ہندوستانی جیل کے قصے سنایا کرتے تھے کہ ان جیسے پاکستانیوں کے ساتھ وہاں کیا سلوک کیا جاتا تھا۔ انہیں تو وہاں ایسا لگتا تھا کہ اب ان کی زندگی اسی قید خانے میں گزر جائے گی۔ وہاں قیدی کی حیثیت سے انہیں جو نمبر دیا گیا تھا زبید صمدانی وہ نمبر بھی اپنے ساتھ لے آئے تھے۔ صمدانی صاحب وہ نمبر ہمیں بھی دکھایا کرتے تھے۔ انہیں بیکانیر کی جیل میں رکھا گیا تھا۔ سوال یہی ہے کہ شیخ رشید صاحب کے اعلان کے بعد جو آخری ریل گاڑیاں اور بسیں ہندوستان گئی ہیں یا ان سے پہلے جو پاکستانی باشندے ہندوستان جا چکے ہیں، ان کے ویزا کی مدت ختم ہونے کے بعد وہ کہاں رہیں گے؟ کیا کسی نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا فرمائی ہے؟ کیا شیخ صاحب انہیں لینے خود وہاں جائیں گے؟
ناول نگار مرزا وحید پریشان ہیں۔ اب تک سرینگر میں ان کے خاندان کے کسی فرد سے ان کی بات نہیں ہو سکی ہے۔ ٹیلی فون، موبائل، انٹرنیٹ اور وائی فائی کی سروس بند ہے۔ پوری ریاست میں کرفیو لگا ہوا ہے۔ اس کرفیو میں وہاں لوگوں پر جو گزر رہی ہے‘ اس کی ایک چھوٹی سی مثال وہ نوجوان خاتون ہے جو اپنے بچے کی بھوک برداشت نہ کر سکی۔ کھانے پینے کی کوئی چیز لانے کے لیے اس نے گھر سے باہر نکلنے کی کوشش کی۔ جیسے ہی اس نے قدم باہر نکالا‘ گولی چلی‘ اور وہ زخمی ہو گئی۔ مرزا وحید اپنے ناولوں میں بھی ایسے منظر پیش کر چکے ہیں۔ لیکن وہ پرانی بات تھی۔ اس وقت تک تھوڑی بہت سانس لینے کی آزادی تھی۔ اب پوری ریاست قید خانہ بن چکی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ گھروں کے اندر جو عورتیں، بچے اور مرد بند ہیں ان کا کیا حال ہے۔ وہ کہاں سے کھا پی رہے ہیں اور آئندہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟ ہندوستان سے جو سیاسی کارکن یا صحافی ہوائی جہاز سے سرینگر پہنچتے ہیں‘ انہیں وہیں سے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ جو قیامت خیز کیفیت ہے اس کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جس پر گزر رہی ہو‘ اور مرزا وحید خود بھی اسی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ اب کشمیر کے بیباک اور جی دار صحافی افتخار گیلانی خواہ کچھ بھی کہتے رہیں۔ ان کی کون سنے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ مودی سرکار نے جو کچھ کیا ہے وہ غیر قانونی ہے۔ مگر وہ کس سے کہہ رہے ہیں؟
رام چندر گوہا، ہندوستان کے سوشل سائنٹسٹ ہیں، کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ چند دن پہلے انہوں نے اخبار انڈین ایکسپریس میں ایک مضمون لکھا: The similarities between Babri Masjid demolition and Article 370 abrogation. اس مضمون میں انہوں نے بابری مسجد کے انہدام کے وقت کی حکومت اور آج کی نریندر مودی سرکار کا موازنہ کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ جب بابری مسجد منہدم کی گئی تو ایک خاتون پروفیسر نے اس کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے ہندوستان کے بڑے اخباروں میں ایک اشتہار دیا تھا۔ اس اشتہار یا اس محضر پر مختلف زبانوں کے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کے علاوہ اس ملک کے چند بڑے صنعت کاروں اور تاجروں کے دستخط بھی تھے۔ یہ اس وقت کی حکومت تھی۔ آج جس قسم کی حکومت ہے اس کی موجودگی میں ہم یہ توقع ہی نہیں کر سکتے کہ کوئی صنعت کار یا کوئی تاجر اس طرح کے اشتہار یا محضر پر دستخط کر دے گا۔ اب اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس پر ''دیش دروہی‘‘ یا وطن دشمن ہونے کا ٹھپہ لگا دیا جائے گا۔ اور غداری کا مقدمہ قائم کر دیا جائے گا۔ مودی کی حکومت نے پورے ملک میں ایسی فضا پیدا کر دی ہے کہ ہر آدمی اپنی چمڑی بچانے کی فکر میں لگا ہوا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف عام آدمی کی نفرت کا یہ عالم ہے کہ کشمیر بھی مسلم اور غیر مسلم کا مسئلہ بن گیا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370 کے خلاف درخواست کی سماعت کرنے سے انکار کر دیا ہے اور وہ کانگریس جو نریندر مودی کے اس اقدام کے خلاف شور مچا رہی تھی، اب خود اس کے ممبر نریندر مودی کی حمایت کر رہے ہیں۔ اب اس صورت میں وہ عالمی فورم اور وہ طاقتیں کیا کریں گی جن کے دروازے ہم کھٹکھٹا رہے ہیں؟ اور کیا نریندر مودی طاقت کے نشے میں ان طاقتوں کی پروا کرے گا؟ اب سب کی نظریں کشمیری عوام پر لگی ہوئی ہیں۔ وہ ستر سال سے لڑ رہے ہیں اور ہم سوچ رہے ہیں کہ اب بھی اپنے جائز حقوق کے لیے وہی سینہ سپر ہوں گے۔ لیکن آج کا سوال یہ ہے کہ اب ان کی مدد کون کرے گا؟ ہم جہادی جماعتوں اور جہادی جتھوں کی وجہ سے خاصے بدنام ہو چکے ہیں۔ کئی عالمی ادارے ہمارے سر پر سوار ہیں۔ اس حالت میں کیا ہم کشمیری عوام کی کسی طرح مدد کر سکیں گے؟ یہ ہمارے سوچنے کی بات ہے۔ ادھر ہمیں اپنے ملک کے اندر پکڑ دھکڑ سے بھی تو فرصت نہیں مل رہی ہے۔ صبح جب ہماری آنکھ کھلتی ہے تو اخباروں اور ٹیلی وژن چینلز پر یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آج کسے گرفتار کیا گیا؟ آج محتسب اعلیٰ نے کس پر ہاتھ ڈالا؟ اور پھر، ہم یہ گنتی کرنے لگتے ہیں کہ اب اور کون رہ گیا ہے گرفتار ہونے کو؟ اور اس کی یا ان کی باری کب آئے گی؟