مایوسی گناہ ہے۔ مگر خوش فہمی ایک بیماری ہے۔ حجت تمام ہو گئی۔ ہم خوش، ہمارا خدا خوش۔ اس لئے آئیے اس وقت آپ کو ایک ایسی اردو لغت سے متعارف کراتے ہیں جو اپنے کینڈے کی بالکل ہی منفرد اور مختلف لغت ہے۔ زاہد مسعود شاعر ہیں۔ عام طور پر نثری نظمیں لکھتے ہیں۔ مرحوم انیس ناگی کے حلقہ احباب میں جانے جاتے ہیں۔ خاصے سنجیدہ انسان ہیں لیکن انہوں نے ایک طنزیہ اور مزاحیہ اردو لغت لکھ کر ثابت کیا ہے کہ ان کے اندر ایک چلبلا انسان اور ایک اچھا مزاح نگار بھی چھپا ہوا تھا‘ جو ان کی لغت میں ظاہر ہو گیا ہے۔ ان کی لغت کا نام ہے '' تضحیک اللغات‘‘۔ سمجھ میں نہیں آتا، انہوں نے یہ نام کیوں رکھا ہے حالانکہ اس کتاب میں لغت کی تضحیک بالکل نہیں کی گئی ہے بلکہ اسے نئے معنی پہنائے گئے ہیں۔ لیجئے، ہمارا آج کا کالم زاہد مسعود کے نام ہے۔ اب آپ ان کے قلم سے اردو الفاظ کے چٹ پٹے معنی پڑھ لیجئے۔
اقتدار۔ اختیار، حکومت، پیروی، رتبہ... عام لوگوں پر حکومت کرنے یا غلبہ حاصل کرنے کو اختیار کہتے ہیں۔ سو حکومت کرنے والوں کو اہل اقتدار کہا جاتا ہے۔ اقتدار کے حصول کے کئی طریقے ہیں۔ ہمارے ہاں دو طریقے زیادہ پسند کئے جاتے ہیں۔ نمبر ایک مارشل لا لگانا۔ نمبر دو انتخاب جیت کر حکومت بنانا۔ اقتدار مخصوص لوگ ہی حاصل کر پاتے ہیں۔ بعد ازاں اسے موروثی سمجھ کر آنے والی نسلوں کو منتقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں‘ اقتدار کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ ویسے اب تو دماغ بھی نہیں ہوتا۔ کسی زمانے میں اقتدار حاصل کرنے کے لئے جنگ و جدل ہوا کرتی تھی، اب خرید و فرخت ہوتی ہے۔ اہل اقتدار بظاہر رشتے دار ہوتے ہیں مگر ایک دوسرے کو قتل کرنے یا کرانے سے دریغ نہیں کرتے۔ مغلوں کے ہاں اقتدار کے لئے خونی رشتے داروں کو قتل کرنا معمولات زندگی میں شامل تھا۔ سب سے مومن بادشاہ نے بھی اپنے تمام سگے بھائیوں کو قتل کرایا اور باپ کو آخری سانس تک نظر بند رکھا۔ یہ اور بات کہ بعد میں ٹوپیاں سی کر حکومت کے اخراجات پورے کرتا رہا۔ انسان کی دوسرے انسانوں پر حاکمیت کی خواہش اقتدار کی بنیاد قرار پائی۔ اہل اقتدار عوام کا غم کھاتے کھاتے بالآخر انہیں ہی کھا جاتے ہیں۔ مال و دولت جمع کرنا ان کی بہترین ترجیح قرار پاتا ہے۔ اقتدار چونکہ خود اندھا ہوتا ہے اس لئے رینگ رینگ کر بے بصیرت لوگوں تک بآسانی پہنچ جاتا ہے۔
بکواس۔ بیہودہ بکنا۔ فنون لطیفہ میں آخری مقبول فن بکواس کرنے کا فن ہے۔ بکواس کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور تا حکم ثانی بکواس کرنے پر کوئی سرکاری یا غیر سرکاری پابندی نہیں۔ جب سے میڈیا آزاد ہوا ہے اس فن کو بھی عروج حاصل ہو گیا ہے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر مختلف الخیال رہنما بیک وقت اس فن کا مظاہرہ کرتے پائے جاتے ہیں، جسے عوام ذوق و شوق سے سنتے اور دیکھتے ہیں... باقی کام ناظرین یا سامعین کے ذمے ہوتا ہے۔ آج کل ایک دوسرے کی تنقید کو بکواس قرار دینا علمیت کی افضل ترین شکل ہے۔ ادبی حلقوں میں پیش کی جانے والی تخلیقات کو بکواس قرار دینا عام ہو چکا ہے۔ ایک قومی شاعر کا شعر ملاحظہ ہو
جھوٹ ہے، بکواس ہے، لغو ہے کہنا کہ اب
ہم سے یہ رنگ گلستاں نہیں دیکھا جاتا
اس شعر میں جتنا قومی درد پایا جاتا ہے، نقادوں نے اسے بھی سراسر بکواس قرار دیا ہے۔
پولیس۔ امن و امان قائم رکھنے کے ذمہ دار ادارے کو پولیس کہا جا تا ہے، دنیا بھر میں پولیس امن و امان قائم رکھنے کی سلجھے ہوئے انداز میںکوشش کرتی ہے‘ مگر نو آبادیاتی ملکوں میں اس ادارے کو حکمران، غلاموں کو ان کی اوقات یاد دلاتے رہنے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ پولیس مقابلے، لاٹھی چارج، آنسو گیس، ربڑ کی گو لیاں اور چھترول پولیس والوں کے بنیادی حقوق ہیں۔ ہر غیر آئینی حکمران پولیس کی مدد سے حکومت چلانے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر جب اسے زوال آتا ہے تو پولیس ہی آگے بڑھ کر اسے ہتھکڑی لگاتی ہے۔ پولیس کے علاقائی دفاتر کو تھانے کہا جاتا ہے، جو چوروں، ڈاکوئوں، جیب کتروں اور ٹائوٹوں کے لیے تفریحی مقامات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر معصوم اور بے ضرر عوام کے لیے ایک ڈرائونا خواب بن جاتے ہیں۔ جمہوریت کے ثمرات کے طور پر ایم پی اے اور ایم این اے حضرات تھانوں میں اپنے وفادار اہل کار تعینات کراتے ہیں تاکہ اپنے مخالفین پر جھوٹے مقدمات قائم کر سکیں، ہر حکم راں اقتدار میں آنے کے لیے تھانہ کلچر تبدیل کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ مگر منتخب ہوتے ہی اس کلچر کی افادیت کا قائل ہو جاتا ہے۔ محققِ اعلیٰ حکم اللہ وسایا پی ایچ ڈی کا ذاتی خیال ہے کہ پولیس فری معاشرہ انصاف کا ضامن ہو سکتا ہے۔
ثالث۔ دو متحارب یا جھگڑا کرنے والے افراد کے درمیان تنازعہ طے کرانے والے کو ثالث کہا جاتا ہے، بشرطیکہ فریقین کا اعتماد رکھتا ہو۔ لومڑیوں کے درمیان روٹی کی تقسیم کرنے والے بندر کو دور حاضر کا بہترین ثالث قرار دیا گیا ہے۔ سکھوں کے دور میں ثالثی ایک پیشے کا نام تھا۔ ثالث کا فیصلہ فریقین کے لئے ہر طرح سے قابل قبول ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو ثالث کی پٹائی ہی آخری فیصلہ ہوتی ہے۔ رنجیت سنگھ ایک کامیاب ثالث تھا۔ اس کی کامیابی کا ایک ہی راز تھا۔ یعنی متنازعہ اشیا کی بحق ثالث ضبطی۔ جو فریق اس سے اختلاف کرتا اسے مال کے بدلے جان، یا جان کے بدلے مال میں ایک آپشن قبول کرنی ہوتی تھی۔ لوگ اکثر صورتوں میں مال کے بدلے جان کی امان پر آمادہ ہو جاتے تھے۔ ثالث حضرات مقدمات کا فیصلہ سرسری سماعت کے بعد کرتے تھے۔ اس لئے انصاف میں تاخیر ممکن نہ تھی۔ عالمی ثالثی عدالت بھی اسی اصول پر کام کرتی ہے اور وسیع تر انسانی مفادات کو مدنظر رکھتی ہے۔ چاہے اس کے لئے انسانوں کی کتنی ہی بڑی تعداد قربان کرنی پڑے۔ یہودیوں کے لئے الگ وطن کا قیام تاریخ کا ایک بڑا ثالثی فیصلہ تھا۔ ایسے ہی فیصلوں کو عالمی امن کی ضمانت قرار دیا جاتا ہے حالانکہ ایسا امن کئی جنگوں کو نسل در نسل جاری رکھتا ہے۔
جیل۔ زنداں، سزا یافتہ مجرموں کو جس چہار دیواری میں پابند کیا جاتا ہے اسے جیل کہتے ہیں مگر آج کل جرائم کی نرسری کو جیل کہا جاتا ہے۔ جو بے گناہ ملزم ایک بار جیل کی یاترا کر لیتا ہے اس کا مقدر سنور جاتا ہے۔ وہ ایک تربیت یافتہ مجرم بن کر باروزگار ہونے کی ڈگری لے کر جیل سے باہر آتا ہے۔ اس ڈگری کو نوکری کی حاجت نہیں ہوتی۔ سیاسی حکومتیں جیلوں کی ترقی کے لیے ملکی ترقی سے زیادہ فکرمند رہتی ہیں۔ ایک حکومت کے وزیر جیل خانہ جات نے دعویٰ کیا تھا کہ ملک کے اندر جیلوں کا جال پھیلا دیا جائے گا۔ ایک ڈکٹیٹر کے دور میں تو پورے ملک کو جیل قرار دے دیا گیا تھا کیونکہ اس کی چند دوستوں کے علاوہ تمام شہری بنیادی حقوق سے محروم تھے۔ جیل کی اہمیت کا اندازہ اس درد ناک حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک موروثی سیاسی دور میں وزرا جیل خانہ جات کی منسٹری کو تعلیم اور صحت کی وزارت پر فوقیت دیتے تھے۔
حب الوطنی۔ حب الوطنی کا لغوی معنی تو وطن سے محبت ہے مگر عہد حاضر میں یہ ایک ٹکڑا نما سرٹیفکیٹ ہوتا ہے‘ جسے قیام پاکستان کے بعد ثمرات پانے والے حضرات فریم کروا کر اپنے گلے میں لٹکائے پھرتے ہیں اور پاکستان کو لوٹ کا مال تصور کرتے ہیں۔ جو کوئی ان کا ہاتھ روکنے کی کوشش کرے اسے فی الفور غداری کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیتے ہیں۔ ایسے محب الوطن حضرات وقتاً فوقتاً اپنی مستند حیثیت کا استعمال کرتے ہیں اور عوام کی کمزور یادداشت پر مکمل اعتماد رکھتے ہیں کیونکہ عوام کو کبھی یاد نہیں رہتا کہ کب کوئی محب الوطن غدار تھا اور کب دوبارہ محب الوطن قرار پا یا۔ ہمارے حکم راں بیک وقت اپنی جیب میں محب الوطنی اور غداری کے سرٹیفکیٹ کی مصدقہ نقول رکھتے ہیں۔ اس معاملے میں سرکاری تنظیموں کی صوابدید پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ جعلی حب الوطنی منافع بخش جبکہ اصلی حب الوطنی برائے تزکیہ نفس ہوتی ہے۔
تو صاحب، تضحیک اللغات میں الف سے لے کر یے تک تمام الفاظ کے معنی اپنے انفرادی انداز میں دئیے گئے ہیں۔ آپ پڑھتے جائیے اور حظ اٹھاتے جائیے۔ یہ لغت آپ کے ہر جگہ کام آئے گی۔ اب یہی دیکھیے کہ اس وقت ہم نے یہ لغت استعمال کر کے اپنے آپ کو خوش فہمی کی بیماری سے بچا لیا ہے۔ ہم نے کہا ناں،کہ مایوسی گناہ ہے۔ مگر خوش فہمی ایک بیماری ہے۔