"MAC" (space) message & send to 7575

ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹیلی فون

ہم بہت خوش ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہمارے وزیر اعظم عمران خان کو ٹیلی فون کیا ہے اور کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کے لیے بات کی ہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے تو ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی ٹیلی فون کیا ہے اور ان سے بھی اسی قسم کی بات کی ہے۔ آپ ذرا ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹویٹ پڑھ لیجئے۔ اس ٹویٹ میں ٹرمپ نے لکھا ہے کہ میں نے اپنے دوست نریندر مودی اور عمران خان کو ٹیلی فون کیا ہے اور ان سے کہا ہے کہ پُر امن طور پر مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اس ٹویٹ میں نریندر مودی کا نام پہلے آیا ہے، اور عمران خان کا نام بعد میں۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ٹویٹ میں یہ وضاحت نہیں کی کہ پُر امن طور پر مسئلہ حل کرنے سے ان کی مراد کیا ہے؟ ہندوستان نے تو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے کشمیر کے اس حصے کو ہندوستان میں شامل کر لیا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اب پُر امن حل کے لیے بات چیت کس بارے میں ہو گی؟ کیا امریکہ یا امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہندوستان کو مجبور کر پائیں گے کہ وہ اپنا فیصلہ واپس لے لے اور مقبوضہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت بحال کر دے؟ یہی تو اصل سوال ہے۔ بظاہر تو ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ ادھر دنیا بھر سے پُر امن بات چیت کے لیے ہندوستان اور پاکستان سے جو اپیل کی جا رہی ہے اس میں بھی مقبوضہ کشمیر کو ہندوستان میں ضم کیے جانے کے ایشوپر بات کہیں نہیں ہو رہی ہے۔ یعنی جو اصل مسئلہ یا تنازعہ ہے اس پر کوئی بات نہیں کر رہا ہے۔ سب پُر امن بات چیت پر اصرار کر رہے ہیں۔ ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی مختلف ملکوں کے سربراہوں سے ٹیلی فون پر بات کر رہے ہیں۔ وہاں سے بھی انہیں یہی جواب مل رہا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان آپس میں پُر امن طور پر بات چیت کریں۔ اس کا مطلب یہی ہوا ناں کہ یہ تمام ملک مقبوضہ کشمیر پر ہندوستان کا قبضہ تسلیم کر چکے ہیں؟ اس موضوع پر وہ بات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ معلوم تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ اب جہاں تک ڈونلڈ ٹرمپ کی بات ہے، تو ان کے ٹویٹ پر جہاں ہم اتنے خوش ہو رہے ہیں وہاں ہندوستان بھی بہت خوش ہے کہ اس کے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام پر کوئی سوال نہیں کر رہا ہے۔ اسے سب نے فراموش کر رکھا ہے۔ وہ کسی خوف و خطر کے بغیر مقبوضہ کشمیر میں اپنے منصوبے کے مطابق عمل کر رہا ہے۔ سرینگر میں اس نے سکول کھولنے کی کوشش بھی کی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کشمیری ماں باپ نے اپنے بچوں کو سکول بھیجنے سے انکار کر دیا ہے۔ سرینگر کے بعض علاقوں میں کرفیو کی پابندیاں نرم کرنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن پابندیوں کی نرمی کے بعد وہاں کشمیری عوام کی طرف سے جو رد عمل سامنے آیا اس کے نتیجے میں وہ پابندیاں دوبارہ نافذ کرنا پڑ گئی ہیں۔ ہندوستان کے اخباروں میں ایسی خبریں شائع کرائی جا رہی ہیں کہ وہاں حالات بہتر ہوتے جا رہے ہیں لیکن ہمارے دوست مرزا وحید لکھ رہے ہیں کہ وہاں سے سب اچھا کی جو خبریںآ رہی ہیں‘ وہ کشمیری صحا فیوں کی بھیجی ہوئی نہیں ہیں۔ وہاں ذرائع ابلاغ پر سخت پابندیاں ہیں۔ کسی کی مجال نہیں ہے کہ قابض فوج کی مرضی کے بغیر کوئی خبر بھیج سکے۔ مرزا وحید ہندوستانی حکومت سے کہہ رہے ہیں کہ کشمیری صحافیوں کو خبریں بھیجنے کی اجازت دیجئے، اس کے بعد دیکھیے، پھر کیا ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہی معلوم ہو گا کہ وہاں کے اصل حالات کیا ہیں۔ تمام کشمیری رہنما گرفتار ہیں۔ بازار بند ہیں۔ سڑکیں سنسان پڑی ہیں۔ گھر سے باہر اگر کوئی نظر آتا ہے تو ہندوستان کے فوجی۔ نریندر مودی جلد سے جلد لداخ کو باقی علاقوں سے الگ کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں اس کی پروا نہیں ہے کہ چین یا کوئی دوسرا ملک کیا کہتا ہے۔ وہ جلد سے جلد ہندوستان کے ہندو باشندے اس علاقے میں آباد کرنے کی فکر میں ہیں تاکہ اس علاقے کی آبادی کا تناسب تبدیل ہو جائے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ہندوستان کے اندر نریندر مودی کے اس غیر آئینی اقدام کی مخالفت نہیں کی جا رہی ہے۔ اور تو اور ہم نے ہندوستانی فلموں کی مشہور و معروف ایکٹریس رانی مکھرجی کا ایک ٹویٹ بھی دیکھا ہے۔ اس ٹویٹ میں رانی مکھر جی نے نریندر مودی کے غیر آئینی اقدام کی مذمت کی ہے اور صاف صاف کہا ہے کہ کشمیری عوام کو ان کا حق دیا جائے۔ وہاں کے اخباروں میں جہاں لکھنے والوں کی اکثریت نریندر مودی کی حمایت کر رہی ہے وہاں ان کے خلاف بھی مضامین شائع ہو رہے ہیں۔
اب رہے پاکستان کے موقف کی حمایت کرنے والے، تو ہم نے دیکھ لیا کہ جسے مسلم امہ کہا جاتا ہے، اور جس پر ہم بہت فخر کرتے ہیں، وہ بھی ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ آپ نے دیکھ لیا کہ سعودی عرب ہندوستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ عرب امارات کے بارے میں خبر ہے کہ وہ نریندر مودی کو اپنے ملک کا سب بڑا ایوارڈ دینے والا ہے۔ باقی عرب ملک بھی کھل کر ہمارا ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔ اس صورت میں ہم اس مسلم امہ سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔ مغربی ملک ہمیں جو مشورے دے رہے ہیں، وہ بھی ہمارے سامنے ہیں۔ گویا ہمیں اپنا موقف منوانے میں خاصی دشواری پیش آ رہی ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اگر اس پر بات شروع کی جا ئے تو ہمیں اپنی پوری تاریخ کھنگالنا پڑے گی۔ اس صورت میں پاکستان کے پاس ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کرے۔ امریکہ اور برطانیہ کے اخبار بھی کشمیر کے بارے میں لکھتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا حوالہ ہی دے رہے ہیں۔ انسانی حقوق ایسا مسئلہ ہے جس پر ہم دنیا کو اپنے موقف کی جانب لا سکتے ہیں۔ اب ہمارے سامنے یہی ایک راستہ رہ گیا ہے۔ اس میں ہمیں خود ہندوستان کے اندر سے بھی حمایت مل سکتی ہے۔ ہندوستان مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی جو خلاف ورزیاں کر رہا ہے و ہ ساری دنیا کے سامنے ہیں۔ ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کشمیر کا مسئلہ عالمی عدالت میں لے جانے کا اعلان کیا ہے۔ اب ہم نہیں جانتے کہ عالمی عدالت میں کوئی مسئلہ لے جانے کے لیے کن قانونی حوالوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اگر وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اس بارے میں قانونی ماہرین سے مشورہ کر لیا ہے تو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔ اگر ایسا ہے تو ہمیں عالمی عدالت میں ضرور جانا چاہیے بلکہ ہمیں ہر بین الاقوامی ادارے کا دروازہ کھٹکھٹانا چا ہیے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہم ہندوستان کو اسی طرح زچ کر سکتے ہیں کہ ہر بین الاقوامی ادارے میں اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔ اس سے نہ صرف اس مسئلے کی طرف دنیا کی توجہ برقرار رہے گی بلکہ کشمیری عوام کی جدوجہد کو بھی اس سے تقویت ملے گی۔ مقبوضہ کشمیر اس وقت محاصرے کی حالت میں ہے اور یہ حقیقت کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ وقت کے ساتھ کشمیری عوام کا غصہ اور طیش بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ فلسطین کا مسئلہ ہمارے سامنے ہے۔ اسرائیل فلسطینی باشندوں کی زمین ہڑپ کرتا جا رہا ہے۔ وہاں یہودی بستیاں بسائی جا رہی ہیں لیکن اس سے فلسطینی عوام کے حوصلے پست نہیں ہو رہے ہیں۔ وہاں فلسطینی عوام کے مظاہروں اور مظاہرہ کرنے والوں پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ کی خبریں روزانہ ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی ہندوستانی فوج کا جتنا ظلم بڑھے گا اتنا ہی وہاں کے عوام کے حوصلے بلند ہوں گے۔ مقبوضہ کشمیر کے وہ سیاسی اور دینی رہنما جو کل تک کسی نہ کسی مصلحت کے تحت ہندوستانی حکومت کا ساتھ دے رہے تھے‘ اب وہ بھی اس کے خلاف ہو گئے ہیں۔ اب وہ کھلم کھلا وہاں کے عوام کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ہمارے دوست مرزا وحید یہی تو کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان کی حکومت آخر کب تک وہاں کرفیو کی پابندیاں برقرار رکھے گی۔ جیسے ہی یہ پابندیاں نرم ہوں گی کشمیری عوام کا غم و غصہ سامنے آ جائے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں