پچھلے دنوں ایک ٹیلی وژن چینل پر اردو ادب کے بارے میں پروگرام ہو رہا تھا۔ ایک نوجوان، افتخار عارف سے بات کر رہا تھا۔ ہم وہ پروگرام تو نہیں دیکھ سکے؛ البتہ سکرین کے اوپر جو سرخی لکھی نظرآ رہی تھی، اس میں لکھا تھا ''اردو ادب کا زوال کیوں؟‘‘۔ یا اسی قسم کی کوئی اور سرخی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پروگرام میں یہ فرض کرنے کے بعد گفتگو کی جا رہی تھی کہ اردو ادب پہ زوال آ گیا ہے اور ہمیں اس بیماری کا علاج ڈھونڈنا چاہیے۔ ایسا لگتا تھا‘ اپنے افتخار عارف صاحب بھی اسی موقف کے حامی ہیں۔ اب اگر عام آدمی، جو کبھی اردو ادب پڑھتا تھا، اور جس نے اب نیا ادب پڑھنا چھوڑ دیا ہے ایسی بات کرے تو سمجھ میں آتی ہے لیکن اگر افتخار عارف جیسا شاعر اور اردو ادب کا رسیا یہی بات کرے تو سمجھ میں نہیں آتا۔ مانے لیتے ہیں کہ افتخار عارف نے اپنے پرانے انداز کی شاعری چھوڑ دی ہے اور اب وہ مذہب کی جانب زیادہ راغب ہو گئے ہیں، لیکن دوسرے پرانے اور نئے شاعروں نے تو نئی نئی غزلیں اور نظمیں لکھنا نہیں چھوڑیں۔ اور نثر لکھنے والوں نے ناول اور افسانے لکھنا بھی نہیں چھوڑے۔ اب ذرا اپنی تاریخ کھنگال کر دیکھیے۔ یہ جو اردو ادب کے زوال یا انحطاط کی بات ہے، یہ قیام پاکستان کے فوراً بعد حسن عسکری صاحب نے شروع کی تھی۔ سب سے پہلے انہوں نے ہی یہ شوشہ چھوڑا تھا کہ اردو ادب انحطاط کا شکار ہے۔ اس کے بعد وہ خود ادب سے سبک دوش ہو گئے تھے، اور اشرف علی تھانوی کے حلقۂ ارادت میں چلے گئے تھے۔ آج کل یہ افواہ وہ لوگ اڑاتے ہیں جو اردو ادب نہیں پڑھتے۔ ان کی دلچسپیاں بالکل ہی بدل چکی ہیں یا پھر انہیں ٹیلی وژن چینل دیکھنے سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ آج جتنا اردوادب پیدا ہو رہا ہے‘ اتنا ادب اس وقت بھی پیدا نہیں ہوتا تھا جس کا ذکر کرکے یہ اصحاب واہ واہ کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہم مان لیتے ہیں کہ اقبال اور فیض جیسے شاعر ہر وقت پیدا نہیں ہوتے۔ اسی طرح نثر میں منٹو اور بیدی جیسے افسانہ نگار ہر وقت پیدا نہیں ہوتے لیکن ان کے بعد کتنے ہی ایسے نئے شاعر اور نئے افسانہ نگار سامنے آئے ہیں جنہوں نے نئے زمانے کے لحاظ سے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ وہ نئے زمانے اور نئے انسان کی بات کرتے ہیں۔ وہ عصری حسیت تلاش کرتے ہیں۔ پھر یہ بھی دیکھیے کہ اگر اردو ادب زوال کا شکار ہے تو شہر شہر اور قریہ قریہ جو ادبی جرائد شائع ہو رہے ہیں، ان میں ادب شائع نہیں ہو رہا ہے تو اور کیا ہے۔ اچھا برا پہلے بھی لکھا جاتا تھا، اچھا برا اب بھی لکھا جا رہا ہے۔ بلکہ آج اردو میں ناول لکھنے کا جو رواج پڑا ہے، آج سے تیس چالیس سال پہلے یہ رواج نہیں تھا۔ اس زمانے میں ہمارے نامور افسانہ نگاروں نے ایک آدھ ہی ناول لکھا۔ آج حال یہ ہے کہ اردو میں ناول ہی زیادہ لکھا جا رہا ہے۔ اور بہت اچھے ناول ہمارے سامنے آ رہے ہیں۔ ان ناولوں میں ایسے موضوع پر طبع آزمائی کی جا رہی ہے‘ جس کی طرف پہلے کسی کی توجہ گئی ہی نہیں تھی۔ اختر رضا سلیمی کے دو ناول ''جندر‘‘ اور اس سے پہلے ''جاگے ہیں خواب میں‘‘ پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقوں کی زندگی کا احاطہ کرتے ہیں۔ اسی طرح طاہرہ اقبال کا ناول ''نیلی بار‘‘ پنجاب کے نیلی بار کے علاقے کو ایک زندہ شکل میں قاری کے سامنے لاتا ہے۔ عاصم بٹ اپنے افسانوں اور ناولوں میں لاہور کے اندرون شہرکی کہانی اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ہم اپنے آپ کو ان گلیوں میں گھومتا پھرتا محسوس کرتے ہیں۔ ان کا نیا ناول ''بھید‘‘ اگرچہ اس طرح ان گلی کوچوں کی تصویر کشی تو نہیں کرتا لیکن اس کا خمیر بھی ان گلیوں سے ہی اٹھا ہے۔
اب ہم آپ کو ایسے ہی ایک ناول سے متعارف کرانا چاہتے ہیں جس میں پنجاب کے جنو بی علاقے کو اردو کے تخلیقی ادب میں محفوظ کر دیا گیا ہے۔ یہ محمد حفیظ خاں کا ناول ''انواسی‘‘ ہے۔ سرائیکی اور خاص طور سے بہاولپور کی ریاستی زبان میں ''انواسی‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ یہ آپ کو ناول پڑھ کر ہی سمجھ میں آ سکتا ہے۔ حفیظ خاں نے اس سے پہلے '' ادھ ادھور ے لوگ ‘‘ کے نام سے ناول لکھ کر ریاست بہاولپور کی تاریخ اور وہاں کے قدیم باشندوں کی زندگی اور ان کے رسم و رواج کو محفوظ کیا تھا۔ وہ ناول ایک نوحہ ہے اس علاقے کی لسانی، ثقافتی اور تہذیبی پہچان چھن جانے کا۔ معلوم ہو تا ہے کہ حفیظ خاں نے اپنے آپ کو وقف کر دیا ہے، سرائیکی اور اردو ادب میں اس علاقے کی تاریخ محفوظ کرنے کے لیے۔ ''انواسی‘‘ ناول سترہویں اور اٹھارہویں صدی کے اس واقعے سے شروع ہوتا ہے جب دریائے ستلج، دریائے ستلج تھا۔ یہ دریا جنوب میں بہاولپور اور شمال میں ملتان کے جنوبی علاقوں کو دو حصوں میں تقسیم کرتا تھا (بلکہ پانی سوکھ جانے کے باوجود اب بھی تقسیم کرتا ہے) انگریز حکومت اس دریا پر پل بنا کر ان دونوں حصوں کو ریل گاڑی کے ذریعے ملانا چاہتی ہے۔ لیکن اس بستی کے باشندے یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ان کے بزرگوں کی قبریںکھود کر ان کے اوپر سے ریل گاڑی چلائی جائے۔ انگریز افسر انہیں سمجھاتا ہے کہ ان قبروں سے ملنے والی باقیات کسی دوسری جگہ قبرستان بنا کر وہاں دفن کر دی جائیں گی لیکن اس بستی کے باشندے یہ نہیں مانتے۔ اب کشمکش شروع ہو جاتی ہے۔ بستی کے نوجوان اس منصوبے کے خلاف اپنی جانیں دائو پر لگا دیتے ہیں لیکن تاریخ کا جبر اپنا چہرہ دکھا کر رہتا ہے۔ قبرستان مسمار ہوتا ہے اور ریل کی پٹڑی پڑ جاتی ہے؛ البتہ انگریز افسر اتنی رعایت ضرور دیتا ہے کہ ایک ایسے شہید کی قبر دریا کے کنارے بنا دی جاتی ہے جن کی قبر کشائی کے بعد دیکھا گیا تھا کہ صدیوں بعد بھی ان کا جسم اسی طرح محفوظ تھا۔ اب یہاں حفیظ خاں اس علاقے کے اس عقیدے کا ذکر کرنا بھی نہیں بھولتے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان دریائوں کی تقسیم کے بعد جب ستلج ہندوستان کے حصے میں چلا گیا، اور پاکستان میں اس کا پانی سوکھ گیا ہے، تو اس میں اس شہید بزرگ کی بد دعائوں کا اثر بھی ہے۔
لیکن اس ناول میں صرف اس علاقے میں ستلج دریا پر پل بنانے، صدیوں پرانے قبرستان کی قبریں مسمار کر کے ان پر ریل کی پٹڑی بچھانے کی تفصیل ہی موجود نہیں ہے۔ اس میں ایک ذیلی کہانی بھی ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ یہ کہانی اس اکھڑ اور بد دماغ لڑکی کی داستان ہے‘ جو خود بھی نہیں جانتی کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ اسے حاصل کر نے کے لیے کئی نوجوان اپنی زندگی تباہ کر لیتے ہیں۔ وہ ایک کو چھوڑتی ہے دوسرے کے پاس چلی جاتی ہے۔ اور پھر اسے چھوڑتی ہے تو تیسرے کے پاس چلی جاتی ہے۔ یہاں آ کر ناول میں اتنی گتھیاں پڑ جاتی ہیں کہ پڑھنے والا پریشان ہو جاتا ہے۔ لیکن ناول نگار اس لڑکی کو اسی لیے ''انواسی‘‘ کہتا ہے کہ اسے کسی کل بھی چین نہیں ہے۔ ہم توحفیظ خاں اور ان کے ناولوں کو جنوبی پنجاب، بالخصوص بہاولپور کی تاریخ کے حوالے سے جانتے ہیں۔ اور یہ جانتے ہیں کہ جنوبی پنجاب اور بہاولپور کا صوبہ بنے نہ بنے، اس کی ثقافتی، تہذیبی اور انسانی تاریخ لکھنے والے، ناولوں اور کہانیوں کے انداز میں اسے ادب کا حصہ بنا رہے ہیں۔ یہ تو صرف ایک ناول کا ذکر ہے۔ ہم نے عرض کیا نا کہ اس انداز کے ناول اردو میں برابر لکھے جا رہے ہیں۔ ہمارے ادب نے ان علاقوں میں پہنچ کر نئی کروٹ لی ہے۔ یہ نئی دنیا ہے جو اردو ادب میں اپنی پہچان بنا رہی ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی ''کندۂ نا تراش‘‘ یہ کہتا پھرے کہ اردو ادب زوال کا شکار ہے تو اس کی عقل کا ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے ایسے لوگوں کو کندۂ ناتراش کہا ہے یعنی ایسی لکڑی جسے تراش خراش کر خوبصورت نہ بنایا گیا ہو۔ ان لو گوں کو بھی تراش خراش کی ضرورت ہے۔ اور یہ تراش خراش اردو ادب پڑھنے سے ہی ہو سکتی ہے۔ حفیظ خاں سرائیکی اور اردو کے ناول نگار اور نقاد ہیں۔ وہ دونوں زبانوں میں کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔