کہتے ہیں: ہر کہ آمد عمارتے نو ساخت۔ جو بھی آتا ہے ایک نئی عمارت بناتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی تو کہا گیا ہے کہ خشت اول چوں نہند معمار کج تا ثریا می رود دیوار کج۔ اگر معمار پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھے گا تو دیوار چاہے آسمان تک بھی چلی جائے ٹیڑھی ہی رہے گی۔ اب آپ کی ذہنی کاوش پر ہے کہ ان دونوں ضرب الامثال سے کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں خبر آئی کہ ایک سرکاری افسر نے، جو اکادمی ادبیات کے سربراہ بن کر ڈیپوٹیشن پر آئے ہیں، اکادمی کی عمارت سے فیض اور فراز کی تصویریں ہٹوا دی ہیں۔ سنا ہے کہ جب اخباروں میں بہت شور مچا تو وہ تصویریں واپس لگا دی گئیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ان صاحب کے دماغ میں یہ بات آئی ہی کیسے کہ فیض اور فراز کی تصویریں ہٹا دی جائیں؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ صاحب اس طرح اپنی ذہنی اور نظریاتی ساخت ظاہر کر رہے تھے۔ اب دیکھا جائے تو اصولی طور پر اصل ذمہ داری اس حکومت کے تعلیم اور ثقافت کے وزیر کی ہے کہ وہ ان معاملات پر نظر رکھیں۔ ایک سال سے زیادہ ہو گیا ہے اور ابھی تک اکادمی کا کوئی چیئرمین مقرر نہیں کیا گیا۔ سرکاری افسر ڈیپوٹیشن پر آئیں گے تو وہی کچھ کریں گے جو ان صاحب نے کیا۔ ہمارے تعلیم اور ثقافت کے وزیر عمران خان صاحب کی پوری کابینہ میں سب سے پڑھے لکھے مانے جاتے ہیں۔ اور یہ بات غلط بھی نہیں ہے۔ اب ان سے زیادہ کون جانتا ہو گا کہ پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز یا پاکستان اکادمی ادبیات فیض اور فراز کی مرہون منت ہی ہے۔ بھٹو صاحب کے زمانے میں ادب و ثقافت کے حوالے سے جتنے بھی ادارے قائم کئے گئے وہ سب فیض صاحب کے ہاتھوں ہی تشکیل پائے۔ اب یہ پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس ہو یا اکادمی ادبیات، یہ فیض صاحب کے ذہن کی پیداوار ہی ہیں۔ اکادمی ادبیات کی تخلیق تو ہمارے سامنے کی بات ہے۔ یہ اکادمی قائم ہوئی اور اس کے پہلے ڈائریکٹر فراز بنائے گئے۔ ہم نے فیض صاحب سے پوچھا، اس اکادمی کی ذمہ داریاں کیا ہوں گی؟ تو انہوں نے فرانس کی اکادمی کا ذکر کیا اور کہا کہ فرانس کی اکادمی کی طرح یہ پاکستانی زبان و ادب کے فروغ اور پاکستانی ادیبوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے گی۔ اس کے بعد ہنس کر کہا ''اب یہ فراز کا کام ہے کہ وہ اسے کیسے چلاتا ہے‘‘۔ اب فراز پر الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے زمانے میں کوئی کام کر کے نہیں دیا۔ لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک تو یہ نیا نیا کام تھا‘ دوسرے اس وقت تک اکادمی کے پاس فنڈز بھی نہیں تھے۔ اس وقت وزیر تعلیم و ثقافت عبدالحفیظ پیرزادہ تھے۔ انہیں قانون سے دلچسپی تو تھی مگر ادب و ثقافت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ہمیں یاد ہے کہ اس دنوں ہر سال یوگوسلاویہ میں (اس وقت تک یوگوسلاویہ ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہوا تھا) تیسری دنیا کے ادیبوں کی کانفرنس ہوتی تھی۔ فراز چاہتے تھے کہ پاکستان کا وفد بھی اس کانفرنس میں شرکت کرے‘ مگر اس کے لیے روپے پیسے کی ضروت تھی اور یہ روپیہ پیسہ پیرزادہ صاحب کی وزارت ہی فراہم کر سکتی تھی۔ اس کے لیے فراز نے دن رات ایک کر دیے۔ آخر وزارت کی طرف سے اس وقت یہ رقم دی گئی جب وہ کانفرنس ختم ہو چکی تھی۔ پاکستان کا یک رکنی وفد ایک دن بعد بلگریڈ (بلغراد) پہنچا۔ فراز کے کام کرنے کا اپنا انداز تھا۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ وہ لا ابالی طبیعت کا آدمی تھا۔ اس کے باوجود اس کے دور میں کئی کتابیں بھی شائع ہوئی تھیں۔ یہاں ہم ایک بات اور بتا دیں۔ اس وقت تک اکادمی کا سربراہ ڈائریکٹر کہلاتا تھا۔ چیئرمین کا عہدہ فخر زمان کے عہد میں تخلیق کیا گیا۔ فخر زمان کا یہ عہدہ وزیر کے برابر تھا، جو ان کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ اکادمی کے زیر اہتمام پاکستان کی سطح پر تو سالانہ کانفرنسیں ہوتی تھیں لیکن فخر زمان نے بین الاقوامی کانفرنسوں کا اہتمام بھی کیا۔ حتیٰ کہ ایک کانفرنس میں بنگلہ دیش کے ادیب بھی شریک ہوئے تھے۔ یہ کانفرنس اس لئے بھی یاد رکھی جائے گی کہ بنگلہ دیش کے ایک مندوب نے اپنے خطاب میں 1970 کا قصہ چھیڑ دیا تھا‘ اور ان واقعات کا حوالہ دیا تھا‘ جو اس وقت وہاں پیش آئے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ان واقعات پر معافی مانگی جائے۔ اس پر باقی پاکستانی ادیب تو خاموش بیٹھے رہے لیکن اچانک طاہرہ مظہر علی خان اپنی نشست سے اٹھیں اور سٹیج پر پہنچ گئیں۔ انہوں نے نہایت درد بھرے لہجے میں اعلان کیا کہ اس وقت جو کچھ ہوا اس پر ہمیں بہت افسوس ہے۔ طاہرہ مظہر علی خان نے یہ کہا اور پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ پہلا اور آخری موقع تھا جب بنگلہ دیش کے ادیبوں نے پاکستان کی کسی کانفرنس میں شرکت کی۔ یہ ساری رام کہانی سنانے کا مقصد یہ ہے کہ یہ پاکستان اکادمی ادبیات ایک سال سے بھی زیادہ عرصے سے اپنے چیئرمین سے محروم ہے۔ ہمارے وزیر تعلیم کو تمام سکولوں میں یکساں نظام تعلیم کی تو بہت فکر ہے‘ لیکن یہ فکر نہیں ہے کہ اکادمی کا چیئرمین مقرر کر دیا جائے۔ یہ اکادمی کا چیئرمین نہ ہونے کا نتیجہ ہی ہے کہ اس سال جن شخصیتوں کو سرکاری اعزاز یا ایوارڈز سے نوازا گیا‘ ان میں صرف دو قابل ذکر ادیب ہی شامل تھے۔ ان میں ایک ابن صفی مرحوم اور دوسری فہمیدہ ریاض (ہم انہیں مرحوم نہیں کہیں گے) تھیں۔ گویا یہ ایوارڈ دینے والوں کی نظر میں پاکستان میں اور کوئی ادیب و شاعر اس قابل ہی نہیں تھا کہ اسے کوئی ایوارڈ دیا جاتا۔ اگر کوئی ادیب و شاعر اکادمی کا سربراہ ہوتا تو یقینا ایسا نہ ہوتا۔
اور شاید اسی غفلت کا نتیجہ ہے کہ اب مختلف شہروں کے ادبی اداروں نے اپنے طور پر اعزاز دینا شروع کر دیے ہیں۔ پہل کی ہے مظفر گڑھ نے۔ ضلع کی انتظامیہ نے ''شان مظفر گڑھ‘‘ کے نام سے ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ اس تقریب میں اس ضلع کی ممتاز علمی، ادبی، سماجی اور سیاسی شخصیتوں کو ایوارڈ دیئے گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہاں جو ایوارڈ دیئے گئے‘ ان کا نام حکومت پاکستان کی جانب سے دیئے جانے والے ایوارڈز جیسا ہی ہے۔ جیسے پٹھانے خاں مرحوم کو ''تمغہ ہلال مظفر گڑھ‘‘ دیا گیا۔ یہ تمغہ ان کے صاحب زادے نے وصول کیا۔ ٹیلی وژن اداکار توقیر ناصر کو بھی یہی ایوارڈ ملا۔ اور تو اور غلام مصطفیٰ کھر کو بھی اسی اعزاز سے نوازا گیا؛ البتہ نواب زادہ نصراللہ خان کو ''تمغہ نشانِ مظفر گڑھ‘‘ عطا کیا گیا۔ یہ بھی ان کے صاحب زادے نے وصول کیا۔ اب ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کو مظفر گڑھ کے اس اعزاز میں کیسے شامل کیا گیا؟ ان کا خاندان تو ملتان سے تعلق رکھتا ہے۔ اور پھر، تمام شخصیتوں کو یہ اعزاز بخشا گیا۔ لیکن حنا ربانی کھر کو نظر انداز کر دیا گیا۔ حنا ربانی کھر پاکستان کی ایک ممتاز سیاست دان ہی نہیں ہیں‘ بلکہ وہ اس ملک کی نہایت کامیاب وزیر خزانہ اور وزیر خارجہ بھی رہ چکی ہیں۔ اور ابھی یاد آیا کہ اس علاقے کے ادب دوست جب اس ضلع کے ادیبوں اور شاعروں کا ذکر کرتے ہیں تو ایک ایسی شخصیت کو فراموش کر دیتے ہیں‘ جس نے اس علاقے کی زبان اور ادب کے ساتھ اس کے شاعروں اور فن کاروں کو بھی پورے پاکستان سے متعارف کرایا۔ اس کا نام تھا ریاض انور۔ مان لیتے ہیں کہ اس نے زیادہ عرصہ ملتان اور لاہور میں گزارا مگر وہ اور اس کا خاندان تو مظفر گڑھ سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ جو ہم پٹھانے خان کو بہت یاد کرتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ انہیں سامنے لانے والا ریاض انور ہی تھا۔ ہر سال ملتان میں جو جشن فرید منایا جاتا تھا‘ اس میں مغربی اور مشرقی پاکستان کے نامور ادیبوں، شاعروں اور موسیقاروں کے ساتھ ضلع مظفر گڑھ کے فن کار اور ادیب بھی شامل ہوتے تھے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ کراچی میں بیٹھے ظریف احسن نے مظفر گڑھ کے ادیبوں اور شاعروں پر ایک نہیں دو کتابیں لکھ ڈالی ہیں۔ ان کتابوں میں ان شاعروں اور ادیبوں کا ذکر تو ہے جو قیام پاکستان کے بعد ہندوستان کے مختلف شہروں سے آ کر وہاں آباد ہوئے‘ مگر ذکر نہیں ہے تو ریاض انور کا۔