محاورہ ہے ''غم نہ داری بز بخر‘‘۔ اگر آپ کو کوئی غم نہ ہو تو ایک بکری خرید لو۔ پھر آپ کی زندگی میں غم ہی غم اور دکھ ہی دکھ رہ جائیں گے۔ پریم چند نے اسی عنوان سے افسانہ بھی لکھا ہے۔ ایک صاحب نہایت آرام اور سکون کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے۔ انہیں کوئی غم اور کوئی دکھ نہیں تھا۔ ان کی شامت جو آئی تو انہوں نے بکری خرید لی۔ بس پھر کیا تھا۔ اب وہ تھے اور ان کی بکری۔ وہ اپنی فکر تو بھول گئے، ہر وقت بکری کی فکر میں ہی لگے رہتے۔ ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ ہم چاہتے تو کسی فکر و فاقے کے بغیر نہایت آرام سے ملک و قوم کا انتظام و انصرام چلا سکتے تھے۔ لیکن کیا کیا جائے، ہم اپنے چند عزیز و اقارب کے بھرے میں ایسے آئے کہ افسانے والی حرکت کر ڈالی۔ ہم نے پریم چند کے افسانے کی بکری نہیں خریدی بلکہ بکروال خرید لیا۔ اب چاروں طرف سے بے بھائو کی پڑ رہی ہیں اور ہماری فکروں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے مگر وہ پٹھان ہی کیا جو ایک بار قدم اٹھانے کے بعد پیچھے ہٹ جائے۔ پٹھان اپنی بات کا پکا ہوتا ہے۔ ایک بار جس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا، وہ ہاتھ کبھی دوسرے سر پر نہیں جائے گا۔ دوسرے معاملوں میں یو ٹرن لیا جا سکتا ہے مگر یہاں پتھر کی لکیر ہے۔ اسے نہیں مٹایا جا سکتا۔ بلکہ جتنا شور مچایا جاتا ہے اتنا ہی ہمارا عزم پختہ سے پختہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ ہماری بے پناہ پریشانیوں میں ایک اور پریشانی کا اضافہ ہے، مگر اب تو ہم پریم چند کے افسانے میں داخل ہو گئے ہیں۔ اب یہی دیکھیے کہ ایک تو ملک کی معیشت ہمارے لئے درد سر بنی ہوئی ہے۔ عام آدمی چیخ رہا ہے کہ مہنگائی نے اس کا کچومر نکال دیا ہے۔ اس کے لئے زندہ رہنا مشکل ہو گیا ہے۔ سٹیٹ بینک کی طرف سے اسے بار بار ڈرایا جا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں مہنگائی اور بھی بڑھے گی۔ یہ مہنگا ئی تو بڑھ ہی رہی تھی کہ اوپر سے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر ڈرون حملہ ہو گیا۔ تیل کی پیداوار بند ہو گئی۔ اب ہمارے ملک میں پٹرول اور بھی مہنگا ہو جائے گا۔ پٹرول مہنگا ہو گا تو ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھ جائیں گے۔ کرائے بڑھیں گے تو عام آدمی کی ضرورت کی ہر چیز کے دام آسمان سے باتیں کرنے لگیں گے۔ اوپر سے اپوزیشن ہر وقت ہمارے سر پر سوار رہتی ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ احتساب کے نام پر یہ سب جیلوں میں چلے جائیں گے۔ ان کے جن جرائم کا ہم ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں، عدالتوں میں وہ جرائم ثابت ہو جائیں گے۔ ہمارے خیال تھا کہ انہوں نے ملک سے باہر جو دولت جمع کر رکھی ہے، وہ پاکستان آ جائے گی۔ اس طرح ہمارے معاشی اور سیاسی دلدر دور ہو جائیں گے، اور ہم آرام سے حکمرانی کریں گے مگر یہ احتساب ختم ہونے میں ہی نہیں آتا۔ ہر مقدمہ طول پکڑتا چلا جا رہا ہے۔
ادھر بین الاقوامی حالات بھی قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ ٹرمپ صاحب نے وعدہ کیا تھا کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کرائیں گے مگر الٹا وہ نریندر مودی کی گود میں جا گرے ہیں۔ ان کے ملک کے شہر ہیوسٹن میں ہندوستانی باشندوں کا جو اجتماع ہو رہا ہے ٹرمپ صاحب بھی اس میں شرکت کر رہے ہیں۔ اس اجتماع کا نعرہ ہے: Howdy Modi‘ یعنی ''کیا حال ہے مودی؟‘‘ خوش آمدید مودی۔ گویا یہ اجتماع نریندر مودی کے استقبال کے لئے ہو رہا ہے۔ اب اس استقبال میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی شامل ہو کر کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے کسی نجومی کی ضرورت نہیں ہے۔ کہتے ہیں، امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ اس کا کوئی صدر غیر ملکی باشندوں کی کسی استقبالیہ تقریب میں شریک ہو رہا ہے؛ البتہ ٹرمپ صاحب نے یہ کہہ کر پاکستان کو بھی تسلی دی ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران وہ پاکستان کے وزیر اعظم سے بھی ملاقات کریں گے۔ اب ہم جنرل اسمبلی کے اجلاس کے لئے بھی تیاریاں کر رہے ہیں۔ مگر کیا ہم یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ اگر ٹرمپ صاحب سے ملاقات ہوئی تو ہم کیا بات کریں گے؟ یا یہ کام ہم نے اوپر والوں پر چھوڑ رکھا ہے؟ جو وہ کہیں گے ہم کہہ دیں گے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس اس قسم کی گھن گرج کے لئے بہت مشہور ہے۔ پریشانیاں سی پریشانیاں ہیں کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہیں۔
ہماری انہی پریشانیوں میں ''غم نہ داری بز بخر‘‘ والی پریشانی بھی ہے۔ ہم نے بکری خرید لی ہے اور وہ ہمارے لئے کمبل بن گئی ہے۔ مگر یہ وہ کہانی والا کمبل نہیں ہے کہ ہم اس سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ ہے کہ ہمارا پیچھا ہی نہیں چھوڑتا۔ یہ کمبل وہ ہے جس سے ہم خود ہی پیچھا چھڑانا نہیں چاہتے۔ ہمارے پرستار پریشان ہیں کہ ہماری آنکھوں کے گرد گہرے گہرے حلقے پڑ گئے ہیں۔ ہماری نیندیں حرام ہو گئی ہیں۔ ہمارے ایک پرستار تو اس لئے پریشان ہیں کہ ہمارا وزن بڑھنے لگا ہے۔ ان صاحب نے نہایت ہی درد مندی کے ساتھ لکھا ہے کہ بیٹھے بیٹھے ہمارا وزن بڑھنے لگا ہے۔ ہمیں ورزش کرنے کی مہلت تک نہیں ملتی۔ ورزش تو دور کی بات ہے آرام کی فرصت بھی کہاں ہے ہمارے پاس۔ ہمارے خیر اندیش سمجھا رہے ہیں کہ اپنی کمر پر سے کم سے کم ایک پریشانی کا بوجھ تو اتار پھینکو مگر ہماری انا ہمارے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔ ڈیرہ غازی خان کے دور افتادہ علاقوں کے جاننے والے سمجھا رہے ہیں کہ تونسہ اتنا پس ماندہ اور گیا گزرا علاقہ بھی نہیں ہے کہ اس کے نام پر ہم اپنی کمر کا بوجھ اتارنا نہیں چاہتے۔ کریم خان تونسوی اسی تونسہ کے رہنے والے تھے۔ مغربی پاکستان میں ڈائریکٹر انفارمیشن تھے۔ ان کے محکمے میں ان جیسا انگریزی تحریر کا ماہر اور کوئی نہیں تھا۔ اور اگر اپنے مرحوم دوست پروفیسر فرخ درانی کو بھی ان میں شامل کر لیا جائے تو وہ بھی اسی علاقے سے تعلق رکھتے تھے۔ کیا غضب کے آدمی تھے۔ گورنمنٹ کالج میں انگریزی پڑھاتے تھے۔ رعب داب کا یہ عالم تھا کی ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے۔ اس زمانے میں نئے نئے سکوٹر آئے تھے۔ وہ سکوٹر پر سوار ہوتے تو راستے بھر اپنے سامنے اور دائیں بائیں چلنے والوں کو پورے ہاتھ کا ''کھلا‘‘ دکھاتے جاتے کہ تم میرے راستے میں کیوں آ گئے۔ اور پھر یہ جو تمن دار اور سر دار ہیں، وہ اپنے علاقے کے بے تاج بادشاہ ہوتے ہیں۔ عام لوگ ان کی ''رعیت‘‘ ہوتے ہیں۔ عام لوگ ان کے برابر آنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے اور وہ ان سے رعایا والا ہی سلوک کرتے ہیں۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ ہم کریم خاں تونسوی کے ساتھ فورٹ منرو جا رہے تھے۔ راستے میں ایک دیہاتی ملا۔ وہ بھیڑیں چرا رہا تھا۔ وہاں کے باشندے بلوچ نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ کریم خان نے اس آدمی کو آواز دی ''بلوچ، تم کون ہو؟‘‘ ان کا مطلب تھا کہ تم کس قبیلے کے ہو؟ اب آب جانتے ہیں کہ اس غریب بھیڑیں چرانے والے نے کیا جواب دیا؟ اس نے کہا ''ہم لغاریوں کی رعیت ہیں‘‘۔ گویا ان کی اپنی کوئی شناخت نہیں ہے۔ ان کی شناخت ہے تو کسی سردار یا تمن دار کی رعیت یا رعایا ہونے کی ہے۔
ہماری پریشانیوں ہی پریشانیاں ہیں۔ کس کس کا ذکر کیا جائے؟ ہمارے خیر خواہ اب ہم سے ہمدردی جتانے لگے ہیں اور کہنے لگے ہیں کہ ملک و قوم کے حالات تو ہمارے بس میں نہیں ہیں لیکن اس کمبل کا بوجھ اپنی پیٹھ سے اتارنا تو ہمارے اختیار میں ہے۔ اسی کو اتار پھینکو مگر انہوں نے پریم چند کا افسانہ نہیں پڑھا۔ اگر انہوں نے وہ افسانہ پڑھا ہوتا تو ایسی بات نہ کرتے۔ اب ہم نے ''غم نہ داری بز بخر‘‘ والا محاورہ اپنا ہی لیا ہے تو اس کا نتیجہ بھی بھگتنے کو تیار ہیں۔ ہمارے خیر خواہوں، دوستوں اور پرستاروں کو زیادہ فکر مند نہیں ہونا چاہیے۔ جب اوکھلی میں سر دیا ہے تو موسلوں سے کیا ڈرنا؟