پچھلے ہفتے فون آیا ''آپ مجھے پہچانے؟‘‘ بالکل ہی ان جانی سی آواز تھی۔ بھلا ہم کیسے پہچان سکتے تھے۔ ابھی ہم یہ کہنے ہی والے تھے کہ معاف کیجئے، پہچان نہیں سکا، کہ ادھر سے خود ہی جواب آ گیا ''میں مستری بول رہا ہوں۔ میں نے آپ کے گھر کام کیا تھا‘‘۔ اب گھروں میں کام تو نکلتے ہی رہتے ہیں اور طرح طرح کے مستری کام کرتے رہتے ہیں۔ کس کس کو یاد رکھا جا سکتا ہے۔ ہم خاموش ہوئے، تو ادھر سے آواز آئی ''آپ سے ایک ضروری کام ہے‘‘۔ ہم پھر خاموش رہے۔ ''آپ کسی کو بتائیں گے نہیں‘‘۔ اب ہمارے کان کھڑے ہوئے۔ کیا ایسی خفیہ بات ہے جو ہم سے کی جا رہی ہے‘ اور وعدہ بھی لیا جا رہا ہے کہ کسی کو بتائیں گے نہیں۔ ہم پورے ہوش و حواس کے ساتھ وہ خفیہ بات سننے کو تیار ہو گئے۔ سوچا‘ کوئی بہت ہی اہم اور قیمتی بات ہو گی۔ ''ہاں، بتائو‘‘ ہمارے منہ سے نکلا۔ ''سر جی، بات یہ ہے کہ میں آج کل سیالکوٹ میں کام کر رہا ہوں۔ کسی سکھ کا پرانا گھر ہے۔ اسے گرایا جا رہا ہے‘‘ یہ کہہ کر وہ آواز خاموش ہو گئی۔ ''اچھا پھر؟‘‘ ہمار ی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی کہ یہ آدمی ہمیں کیا کہانی سنا رہا ہے۔ ''ہم اس گھر کی بنیادیں کھود رہے تھے تو کئی فٹ نیچے ایک مٹکی نکلی‘‘۔ کیا نکلی؟ مٹکی؟ ہم حیران ہو گئے۔ یہ تو انتظار حسین کا افسانہ بن رہا ہے۔ ''ہاں، مٹکی نکلی۔ اس مٹکی میں دو تین کلو سونے کی ٹکیاں ہیں‘‘۔ کیا سونے کی ٹکیاں؟ ہماری حیرت اور بڑھ گئی۔ ''ہاں، سونے کی ٹکیاں‘‘ اس آواز نے بڑے وثوق سے کہا۔ ''ان پر 1810 لکھا ہوا ہے‘‘۔ اچھا تو وہ گنی یا اشرفیاں ہیں؟ یہ ہم نے اس سے نہیں کہا۔ ''رنجیت سنگھ کے زمانے کی معلوم ہوتی ہیں‘‘ وہ بولا۔ اچھا۔ یہ آدمی پڑھا لکھا معلوم ہوتا ہے۔ ''دیکھو‘‘ ہم نے اسے سمجھانا چاہا ''زمین سے جو قیمتی چیز نکلتی ہے وہ سرکار کی ہوتی ہے۔ تم ڈپٹی کمشنر کے پاس جائو اور انہیں یہ مٹکی دے دو‘‘ ہماری یہ باتیں ہماری ہم کار فضہ توفیق بھی سن رہی تھیں۔ انہوں نے ہم سے پوچھا: کیا قصہ ہے؟ ہم نے فون پر ہاتھ رکھ کر انہیں سارا قصہ بتایا۔ انہیں مستری سے ہمدردی ہو گئی۔ کہنے لگیں ''آپ کیوں اس غریب کو مروا رہے ہیں۔ سرکاری افسروں کے پاس یہ خزانہ گیا تو وہیں ہڑپ کر لیا جائے گا۔ اس غریب کو کچھ بھی نہیں ملے گا‘‘۔ اس بات چیت کے دوران ہمیں پورا یقین ہو گیا تھا کہ یہ مستری سچی بات کر رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی سیالکوٹ میں ایسا ہی کوئی خزانہ ملا تھا۔ سکھ اور ہندو پارٹیشن کے وقت جب یہاں سے بھاگے تھے تو اپنے زیورات وغیرہ زمین میں دبا گئے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ حالات بہتر ہو جائیں گے تو واپس آ کر یہ چیزیں نکال لیں گے۔ ہم نے اسے سمجھایا کہ تم ایک اشرفی لے کر کسی سنار کے پاس جائو اور اس کی قیمت معلوم کرو۔ ''پورا خزانہ لے کر کسی کے پاس نہ جانا‘‘ یہ سب باتیں ہم اس کی ہمدردی میں کر رہے تھے۔ لیکن اب جو اس شخص نے بات کی اس نے ہمیں اس سنہرے خواب سے جگا دیا۔ پہلے تو اس نے کہا‘ یہ مستری فلاں سے بات کر لیں۔ اب وہ مستری صاحب آئے۔ پہلے تو انہوں نے ہمارا نام پوچھا۔ اس کے بعد وہ آپ سے تم پر اتر آئے۔ کہنے لگے: ہم کسی جیولر کے پاس نہیں جائیں گے‘ تم کسی سے بات کر لو‘ جو قیمت ملے گی‘ آدھی تمہاری، آدھی ہماری۔ اب ہماری سمجھ میں آیا کہ یہ کیا کھیل ہے۔ ہم نے فوراً فون بند کر دیا‘ اور جس نمبر سے کال آئی تھی، وہ نمبر بھی بلاک کر دیا۔ دیکھیے تو کیسا بیوقوف بنایا ان لوگوں نے ہمیں۔ اور ہم بیوقوف بن بھی گئے تھے۔ تو کیا وہ جو کوئی بھی تھے ہمیں اتنا سادہ لوح سمجھتے تھے کہ ہم ان کی باتوں میں آ جائیں گے؟ اصل میں ہم پارٹیشن کے وقت کی ایسی کئی کہانیاں سن چکے تھے‘ اس لئے ان مستریوں کی (اگر وہ مستری ہی تھے) بات سچی معلوم ہو رہی تھی۔ اب ہم آپ سے معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ کیا ہمیں ان مستریوں کو اپنے پاس بلا کر، وہ اشرفیاں دیکھنا چاہیے تھیں؟ اور ان سے سودا کرنا چاہیے تھا؟ مگر ہم تو ڈر گئے تھے۔
ڈر اس لئے گئے تھے کہ آج کل ان لوگوں کو پکڑا جا رہا ہے‘ جن کے پاس ان کی آمدنی سے زیادہ اثاثے ہوتے ہیں۔ شکر ہے‘ ہم ان مستریوں کے جھانسے میں نہیں آئے‘ ورنہ ہم بھی آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے کے الزام میں پکڑے جاتے۔ اب کسی کی آمدنی کا فیصلہ کون کرتا ہے؟ وہی جو پکڑنے کی طاقت اور اختیار رکھتے ہیں۔ اب اگر ہم سے کوئی پوچھتا تو ہم اپنی ساٹھ ستر سال کی نوکری اور محنت کا حساب کیسے دیتے؟ خورشید شاہ کی آمدنی کیا ہے؟ وہ کب سے سیاست کی بھول بھلیوں میں چکر لگا رہے ہیں؟ وہ کتنی بار وزیر رہے ہیں اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف رہے ہیں؟ کہتے ہیں، وہ بجلی کے محکمے میں میٹر ریڈر تھے۔ جیسے میٹر ریڈر ہونا بہت بڑا جرم ہے۔ ہم جب دنیا کے بڑے بڑے کامیاب لوگوں کی زندگی کی کہانیاں پڑھتے ہیں تو فخر سے کہتے ہیں کہ کیسے وہ غربت سے امارت تک پہنچے۔ اور ہم انہیں رول ماڈل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ہم تو صرف اتنا عرض کرنے کی جسارت کرنا چا ہتے ہیں کہ جب تک کسی پر جرم ثابت نہ ہو جائے اسے بدنام کرنے کی کوشش نہ کیجئے۔ یہ جو اخبار والوں کو ایک لفظ ''مبینہ ‘‘ مل گیا ہے۔ یہ نہایت ہی خطرناک لفظ ہے۔ آپ تو مبینہ کہہ کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں، لیکن جس شخص کو آپ اس مبینہ کے جال میں پھنساتے ہیں اس کی تو عزت خاک میں مل جاتی ہے۔ مہذب دنیا کا دستور یہ ہے کہ جب تک کسی شخص کا جرم ثابت نہ ہو جائے‘ اس وقت تک وہ بے گناہ ہی تصور کیا جاتا ہے۔ اور جرم ثابت کیا جاتا ہے عدالت میں۔ ہم عدالت میں جانے سے پہلے ہی عوام کی نظروں میں اسے مجرم بنا دیتے ہیں۔ جو ادارے یہ کام کر رہے ہیں، وہ تو ان کی ذمہ داری ہے حالانکہ ان کے قانوں میں بھی ترمیم ہونی چاہیے اور اس قانون کو مہذب ملکوں کے قانون کے مطابق ہونا چاہیے مگر ہمیں ثبوت کے بغیر تو کسی کی عزت کے ساتھ نہیں کھیلنا چاہیے۔ اب تو ایسا لگنے لگا ہے کہ ہماری پوری قوم ہی سادیت پسند یا اذیت پسند ہو گئی ہے اور یہ اذیت پسندی صرف سیاست میں ہی نظر نہیں آ رہی ہے بلکہ معاشرے کے دوسرے حلقوں میں بھی زور و شور سے اپنی شکل دکھا رہی ہے۔ قصور میں کیا ہو رہا ہے؟ اور کب سے ہو رہا ہے؟ ہم دیکھ رہے ہیں؟ وہاں کسی کو پکڑا گیا؟ سوال یہ ہے۔ اب وہاں ڈی این اے ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہم مسٹری فلم دیکھ رہے ہیں۔ سامنے ہیں اور نظر نہیں آ رہے ہیں۔ ہمارے وزیر اعلیٰ سال میں دوسری مرتبہ عمرے کی سعادت حاصل کرنے تشریف لے گئے۔ انہوں نے واپس آ کر ہوائی اڈے پر ہی اپنی کابینہ کا اجلاس طلب کر لیا۔ وہ قصور بھی تشریف لے گئے مگر نتیجہ وہی کا وہی۔ سندھ کے ایک شہر میں اقلیتی فرقے کے ساتھ کیا ہوا؟ کیا اس پر ہماری آنکھیں کھلیں؟ آنکھیں کیسے کھلتیں۔ ایسا تو اکثر ہوتا رہتا ہے۔ میڈیکل کالج کی ایک لڑکی نے خود کشی کی یا اسے مارا گیا؟ ابھی تک ہم فیصلہ نہیں کر پائے ہیں اور ابھی خیال آیا کہ ملک بھر میں ڈینگی ایک بار پھر پھیل گیا ہے۔ صرف پنجاب میں اس سے کتنی ہی موتیں ہو چکی ہیں۔ لیکن ایک ڈیڑھ سال پہلے تو اس وبا پر قابو پا لیا گیا تھا۔ جس حکومت نے اس وبا پر قابو پایا تھا اس کا نام لیتے ہوئے ہماری زبان لڑکھڑا جاتی ہے۔ اس حکومت نے اس پر کیسے قابو پایا تھا؟ ہم اس سے بھی سبق نہیں سیکھتے۔ ہمیں تو یاد آرہا ہے کہ ہمارے علاقے میں مہینے میں ایک دو بار مچھروں اور مکھیوں کو مارنے کے لیے سپرے کیا جاتا تھا۔ ان گرمیوں میں ترستے ہی رہے کہ ایک بار بھی یہ کیڑے مار دھواں ہمیں نظر آ جائے۔
اب ہمیں ایک اشتہار یاد آ گیا۔ کسی زمانے میں ٹیلی وژن پر یہ اشتہار دکھائی دیتا تھا۔ سنسان سڑک پر ایک نوجوان کھڑا چیخ رہا ہے ''میری باری کب آئے گی‘‘۔ خورشید شاہ کی گرفتاری کے بعد اب ہر طرف سے یہی آواز آ رہی ہے ''میری باری کب آئے گی؟‘‘