کوے ہیں سب دیکھے بھالے۔ چونچ بھی کالی پر بھی کالے۔ حکومتیں بھی ہماری سب دیکھی بھالی ہیں۔ 1950 کی دہائی سے اب تک کی تمام حکومتیں ہم نے دیکھی ہیں‘ اور یہ بھی دیکھا ہے کہ جب بھی کسی حکومت کی کمزوری سامنے آنے لگتی ہے تو نزلہ میڈیا پر ہی گرتا ہے۔ یہ الیکٹرانک میڈیا تو کل کی بات ہے‘ پہلے صرف اخبار ہی ہوتے تھے اور حکومت کا عتاب ان پر ہی نازل ہوتا تھا۔ 1953 میں قادیانیوں کے خلاف لاہور میں ہنگامے ہوئے تو شہر میں مارشل لا لگا دیا گیا۔ یہ پاکستان کا پہلا مارشل لا تھا‘ جو صرف لاہور میں لگایا گیا تھا۔ اس مارشل لا میں اخبار زمیندار بند کر دیا گیا‘ اس کا پریس ضبط کر لیا گیا اور اس کے ایڈیٹر مولانا اختر علی خان کو گرفتار کر لیا گیا۔ مولانا اختر علی خان کے صاحب زادے منصور علی خان نے ''آثار‘‘ کے نام سے اخبار نکالا۔ زمیندار کی بندش کے بعد تمام اخبار خود ہی محتاط ہو گئے تھے‘ اس لئے اس وقت ان پر زیادہ سنسر لگانے کی ضرورت نہیں تھی۔ پھر جنرل ایوب خان کا مارشل لا آ گیا۔ یہ پہلا مارشل لا تھا جو پورے ملک میں لگایا گیا تھا۔ اس حکومت نے پہلا کام یہ کیا کہ پروگریسیو پیپرز لمیٹڈ پر قبضہ کر لیا اور اس کا انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز، اردو اخبار امروز، ہفت روزہ لیل و نہار اور ماہنامہ سپورٹس ٹائمز اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ پہلے انہیں دو تین ہاتھوں میں فروخت کیا گیا۔ جب اس سے بھی مقصد پورا نہ ہوا تو نیشنل پریس ٹرسٹ بنا کر یہ اخبار اس کی تحویل میں دے دیئے گئے۔ اس وقت تک مشرق اخبار بھی خاصا مشہور ہو چکا تھا۔ اسے بھی پریس ٹرسٹ کے حوالے کر دیا گیا۔ یہ پہلا مارشل لا تھا جس میں اخباروں نے سنسر کا مزہ چکھا۔ اخباروں کی کاپیاں جوڑ کر انفارمیشن افسر کی خدمت میں پیش کی جاتیں اور ان کی منظوری کے بعد اخبار پریس میں جاتا۔ اگر انفارمیشن افسر کو کوئی خبر حکومت کی مرضی کے خلاف نظر آتی تو وہ اسے کاٹ دیتا۔ شروع میں کچھ اخباروں نے سنسر شدہ خبر کی جگہ خالی صفحہ چھوڑنے کی جرأت کی‘ لیکن انہیں حکم دیا گیا کہ خالی جگہ نہیں چھوڑی جا سکتی۔ نیشنل پریس ٹرسٹ کی تحویل میں لئے جانے والے اخبار تو خود ہی سرکاری گزٹ بن گئے تھے مگر اس سنسر شپ اور ان پابندیوں کے باوجود ایسے جی دار صحافی بھی موجود تھے جنہوں نے اس سنسر شپ کی دھجیاں اڑا ئیں۔ مولانا کوثر نیازی نئے نئے سیاست میں آئے تھے۔ انہوں نے ''شہاب‘‘ کے نام سے ایک اخبار نکالا تھا۔ اس کے ایڈیٹر تھے نذیر ناجی۔ یہ اخبار جس طرح سنسر کی پابندیوں کا مقابلہ کرتا تھا، اس کی ایک مثال نئی نسل کے صحافیوں کے سامنے پیش کرنا ضروری ہے۔ سنسر کرنے والوں نے اس اخبار کا ایڈیٹوریل سنسر کر دیا‘ چونکہ سرکاری حکم یہ تھا کہ سنسر کی ہوئی جگہ خالی نہیں چھوڑی جا سکتی، اس لئے دوسرے دن اخبار بازار میں آیا تو ایڈیٹوریل کی جگہ جوتوں کی تصویریں لگی ہوئی تھیں۔ اس طرح جیسے جوتے پہنے ہوئے کوئی آدمی اس ایڈیٹوریل کی خالی جگہ پر چلتا ہوا آگے بڑھ گیا ہو۔ اس پر بہت ہنگامہ ہوا۔ اب حکومت نے اس پر کیا کارروائی کی؟ یہ تو نذیر ناجی ہی بتا سکتے ہیں‘ لیکن انہی دنوں نیشنل پریس ٹرسٹ کا ایک اجلاس کراچی میں ہو رہا تھا۔ ٹرسٹ کے ایک اخبار کے ایڈیٹر کی حیثیت سے ہم بھی اس اجلاس میں موجود تھے۔ کسی نے ''شہاب‘‘ کا وہ شمارہ سب کے سامنے رکھ دیا۔ پہلے تو اسے دیکھ کر سب کی ہنسی چھوٹ گئی۔ بعد میں خیال آیا کہ یہ تو سرکار کی توہین ہے؛ چنانچہ باقاعدہ طور پر اس کی مذمت کی گئی۔ اسی زمانے میں کراچی سے ''الفتح‘‘ جیسے بے باک اور نڈر ہفت روزہ اخبار بھی نکلے۔ اب اگر اخباروں پر سنسر شپ اور اس کی مزاحمت کی تاریخ پڑھنا ہو تو ضمیر نیازی اور احفاظ الرحمن کی کتابیں پڑھ لیجیے۔
ہم تو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جہاں حکمرانوں کی طرف سے میڈیا پر پابندیاں لگائی جاتی تھیں تو وہاں صحافیوں اور ان کی تنظیم فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی طرف سے اس کا مقابلہ بھی کیا جاتا تھا۔ جنرل ایوب خان نے اخباروں پر سرکاری گرفت مضبوط کرنے کے لئے پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس جاری کیا۔ اس آرڈیننس کا جاری ہونا تھا کہ پورے پاکستان میں اس کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے۔ اس وقت مشرقی پاکستان بھی ہمارے ساتھ تھا۔ شہر شہر جلوس نکالے جانے لگے۔ ملتان میں بھی صحافیوں نے جلوس نکالا۔ حالانکہ ہم سرکاری اخبار میں کام کرتے تھے، لیکن اس جلوس میں ہم اور ہمارے ساتھی صحافی بھی شامل تھے۔ ہمارے خلاف دفعہ 144 کا مقدمہ قائم ہوا۔ عدالت میں ہماری شناخت کرائی گئی۔ وہاں ایک ایسے آدمی نے ہمیں شناخت کیا جسے بعد میں ہم نے اپنے اخبار میں چپراسی بھرتی کیا۔ یہ زمانہ منہاج برنا، نثار عثمانی، افضل خان اور ان جیسے دوسرے نڈر اور بے باک صحافی رہنمائوں کا زمانہ تھا۔ یہ رہنما اظہار رائے کی آزادی کے لئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر نے کو بھی تیار رہتے تھے۔ انہوں نے جیلیں کاٹیں اور نوکریوں سے نکالے بھی گئے مگر صحافت کی آزادی اور صحافیوں کے حقوق کے لئے ہمیشہ سینہ سپر رہے۔ ان میں سے اکثر صحافی ذوالفقار علی بھٹو کے ہمدرد تھے۔ لیکن جب بھٹو نے صحافیوں کے حقوق پامال کئے تو انہوں نے اس کے خلاف بھی مزاحمت کی‘ اور جیل گئے۔ اس زمانے تک پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے جو تنظیمیںسرگرم تھیں ان میں وکیلوں کی تنظیم کے ساتھ فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کا نام ہی سرفہرست تھا۔ ان دنوں صحافت اور صحافیوں کے حقوق پر زد پڑتی تھی تو اخبار ہڑتال بھی کر دیتے تھے۔ ان میں نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبار بھی شامل ہوتے تھے۔
ضیاء الحق نے مارشل لا لگایا تو انہیں اس حقیقت کا پورا ادراک تھا۔ اس لئے سب سے پہلے اس مارشل لا کا عتاب صحافیوں پر ہی نازل ہوا۔ جن صحافیوں کو کوڑے لگائے گئے ان کے نام آپ جانتے ہی ہیں۔ ضیاء الحق کو یہ بھی علم تھا کہ صحافیوں کی طاقت ان کے اتحاد میں ہی ہے اور ان کا اتحاد ان کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی بنیاد پر ہے۔ طے ہوا کہ یہ اتحاد توڑا جائے اور صحافیوں میں پھوٹ ڈالی جائے؛ چنانچہ پی ایف یو جے کے مقابلے میں ایک اور تنظیم کھڑی کر دی گئی۔ صحافیوں کا اتحاد ٹوٹا، اور ان کی طاقت ختم ہو گئی۔ اب صحافیوں نے آپس میں ہی لڑنا شروع کر دیا اور حکومت یہی چاہتی تھی۔ جب تک صحافیوں کا اتحاد قائم تھا اس وقت تک کسی بھی صحافی پر کوئی آفت آتی تھی تو ان کی تنظیم ان کے ساتھ کھڑی ہو جاتی تھی‘ لیکن 1983 میں جب ایم آر ڈی کی تحریک چل رہی تھی، اور این پی ٹی کے بارہ صحافیوں نے ایک محضر پر دستخط کر کے ماشل لا اٹھانے کا مطالبہ کیا تھا تو انہیں ملازمت سے نکال دیا گیا تھا۔ لیکن ان کی تنظیم اس کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھا سکی تھی کیونکہ ان میں پھوٹ پڑ چکی تھی۔ نثار عثمانی نے جب ضیاء الحق سے اس کا ذکر کیا تھا تو اس آمر مطلق نے غصے میں کھولتے ہوئے کہا تھا: میرے بس میں ہوتا تو میں انہیں پھانسی چڑھا دیتا۔ جنرل مشرف کو یہ تمغہ دیا جاتا ہے کہ انہوں نے آزاد ٹیلی وژن چینل شروع کئے‘ لیکن یہ وہی مشرف ہیں جنہوں نے یہ چینل بند بھی کئے تھے۔
عرض کیا ناں کہ جب بھی حکوتیں اپنے انتظام و انصرام میں کمزور ہوتی ہیں تو انہیں میڈیا ہی اپنا دشمن نظر آتا ہے۔ اور اس پر قدغن لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ قدغن کھلے عام بھی ہوتی ہے اور چوری چھپے بھی۔ دیکھ لیجیے۔ ہم چوری چھپے اس قدغن کے شکنجے میں کب سے پھنسے ہوئے تھے کہ ایک اور حکم نامہ آ گیا۔ حکم ہوا کہ ٹیلی وژن پر یہ کہا جائے، اور یہ نہ کہا جائے۔ اسے بلایا جائے اور اسے نہ بلایا جائے۔ ایک اینکر دوسرے چینل پر جا کر اپنی رائے کا اظہار نہیں کر سکتا۔ اب اخباروں اور ٹیلی وژن چینلز کی طرف سے اس پر احتجاج کیا جا رہا ہے اور مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ پیمرا اپنا یہ حکم نامہ واپس لے لیکن ابھی تک تو یہ حکم نامہ واپس نہیں ہوا ہے۔ اسی لئے اس وقت ہمیں منہاج برنا اور نثار عثمانی یاد آ رہے ہیں۔