"MAC" (space) message & send to 7575

ہمارا اعزاز اور ایک شکایت

مبارک ہو۔ ہم نے کسی اور شعبے اور کسی اور میدان میں کوئی کارنامہ انجام دیا ہو یا نہ دیا ہو، مگر ادب کے میدان میں ہم عالمی شہرت کے ایوان میں داخل ہو گئے ہیں۔ بی بی سی نے ان ایک سو انگریزی ناول نگاروں کی فہرست جاری کی ہے جنہوں نے اس دنیا کی تشکیل و تعبیر میں حصہ لیا ہے۔ اس فہرست میں ہمارے تین ناول نگار بھی شامل ہیں۔ یہ ناول نگار ہیں‘ بیپسی سدھوا، کاملہ شمسی اور محسن حامد۔ بی بی سی نے انگلستان کے ممتاز ادیبوں، ریڈیو 4 اور فرنٹ رو کے براڈ کاسٹر اور ٹائمز لٹریری سپلیمنٹ کے ایڈیٹر سے سوال کیا تھا کہ وہ تین سو سال میں شائع ہونے والے ان ناولوں کے بارے میں بتائیں جنہوں نے ان کی زندگی پر اثر ڈالا۔ انگریزی ادب کی ان جغادری ہستیوں نے جہاں Pride and Prejudice جیسے ناولوں کا حوالہ دیا، وہاں بیپسی سدھوا کے ناول Ice Candy Man (ہندوستان میں یہ ناول دوسرے نام سے شائع ہوا تھا) محسن حامد کے ناول The Reluctant Fundamentalist(اس ناول پر فلم بھی بن چکی ہے ) اور کاملہ شمسی کے ناول Home Fire کا حوالہ بھی دیا۔ اس فہرست میں باقی اور ناول کون سے ہیں؟ یہ معلوم کر نے کے لیے ہمیں انتظار کرنا پڑے گا۔ بی بی سی نے اعلان کیا ہے کہ یہ تمام ناول اس کی ویب سائٹ پر ڈال دیے جائیں گے۔ اب جہاں تک جین آسٹن کے ناول Pride and Prejudice کا تعلق ہے، تو ہمارے اپنے شاہد حمید کو وہ اتنا پسند تھا کہ انہوں نے اس کا دو مرتبہ ترجمہ کیا۔ چونکہ وہ انگریزی ادب کے استاد تھے اس لئے ایک مرتبہ ترجمے سے ان کی تسلی نہیں ہوئی؛ چنانچہ اپنی آخری عمر میں انہوں نے دوسری بار اس کا ترجمہ کیا اور اس بار ترجمے کے ساتھ اس پر ایسے نوٹس بھی لکھے جن سے انگلستان میں اس ناول کے زمانے کے رسم و رواج اور اس زمانے کے انسانی تعلقات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ خیر، یہ تو شاہد حمید کا شوق اور ان کی محنت تھی‘ لیکن بی بی سی نے ہمارے تین ناول نگاروں کو اپنی فہرست میں شامل کر کے پاکستان اور اس کے ناول نگاروں کو جو اعزاز بخشا ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انگریزی ادب میں پاکستان بھی اپنا ایک مقام رکھتا ہے۔ ہم تو اسی پر خوش ہیں کہ چلو، کہیں تو ہمیں عزت سے یاد رکھا جاتا ہے۔ اب تو ہمارے ہاں انگریزی ناول لکھنے والوں اور لکھنے والیوں کی تعداد اتنی ہو گئی ہے کہ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں پر بھی ان کی گنتی پوری نہیں ہوتی۔ خاص طور پر ہماری خواتین کی نئی نسل تو انگریزی کو ہی اپنے اظہار کا وسیلہ بنا رہی ہے۔ 
چلو، یہ تو ہوئی انگریزی کے عالمی ادب میں ہمارا نام شامل ہونے کی خوشی‘ لیکن حال ہی میں ہم ایک اور خوشی کی تقریب میں بھی تو شامل ہوئے ہیں۔ یہ ہے دنیا بھر کی سکھ برادری کے لئے ان کے مقدس مقام کرتار پور کی راہداری کھولنے کی خوشی۔ عمران خان نے اس راہداری کا افتتاح کر دیا ہے۔ کہتے ہیں امرتسر کے گولڈن ٹمپل کے بعد کرتار پور کا یہ گردوارہ سکھوں کا سب سے بڑا مقدس مقام ہے بلکہ ہم تو کہہ رہے ہیں کہ اپنے رقبے کے اعتبار سے یہ دنیا کا سب سے بڑا گردوارہ ہے۔ اب دنیا بھر کے سکھ اس راہداری کے ذریعے بلا روک ٹوک اس گردوارے میں جا سکیں گے۔ اصل میں امرتسر کے بعد سکھوں کے زیادہ تر مقدس مقام پاکستان میں ہی ہیں۔ خود گرو نانک پاکستان کے علاقے میں ہی پیدا ہوئے تھے۔ یہ اس راہداری کا کمال ہی ہے کہ پچھلے کئی دن سے لاہور کے بڑے بڑے بازاروں میں سکھ مرد اور عورتیں گھومتے پھرتے اور خریداریاں کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ان کھاتے پیتے سکھوں کو دیکھ کر ہی ہماری خاتون ''ہم کار‘‘ نے کہا کہ عمران خان نے دو دن کسی فیس کے بغیر ان سکھ مہمانوں کو پاکستان میں داخلے کی اجازت دے کر ان کی خوشنودی تو حاصل کر لی ہے، لیکن پاکستان کے خزانے کو فائدہ نہیں پہنچایا۔ باہر سے آنے والے یہ سکھ مہمان غریب نہیں ہیں، کھاتے پیتے ہیں۔ ان کے لئے فیس ادا کرنا مشکل نہیں ہے۔ دو دن کے لئے فیس کی رعایت ہمارے لئے نقصان دہ ہے۔ بہرحال ہم نے کرتار پور کے گردوارے کے لئے سہولتیں فراہم کر کے، اور اس کے لئے راہداری کھول کر سکھ برادری کے دل جیت لئے ہیں۔ اس سے ہندوستان کے سکھ کتنے خوش ہیں؟ یہ ہم نے اپنے ٹیلی وژن پر دیکھا۔ ہم نے دیکھا کہ جالندھر میں گھر گھر پاکستان کے پرچم لہرا رہے ہیں اور سکھ بوڑھے اور نوجوان پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ ہمیں وہاں نعرۂ تکبیر 'اللہ اکبر‘ کے نعرے بھی سنائی دیئے۔ ہمیں اور کیا چاہیے؟ اب مودی سرکار کچھ بھی کہتی رہے ہم نے یہ کارنامہ انجام دے دیا ہے۔ 
چلئے، ہم نے سکھوں کو تو خوش کر لیا مگر اپنے ملک میں رہنے والی ہندو برداری کی بھی سن لیجئے۔ ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی ہماری قومی اسمبلی کے رکن ہیں۔ پہلے وہ مسلم لیگ میں تھے۔ اب عمران خان کی تحریک انصاف کا حصہ ہیں۔ اخباروں میں کالم بھی لکھتے ہیں۔ پچھلے دنوں لاہور یونیورسٹی آ ف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) میں ایک مذاکرہ ہوا۔ اس مذاکرے میں آئی اے رحمن (جنہوں نے اپنی ساری زندگی انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے وقف کر رکھی ہے) اور کنیئرڈ کالج کی پروفیسر آئرا اینڈریاس کے ساتھ ڈاکٹر رمیش کمار نے بھی حصہ لیا۔ رمیش کمار نے بتایا کہ جب وہ ایک منہدم کئے ہوئے مندر کی مرمت کے لئے کام کرنا چاہ رہے تھے تو انہیں دھمکیاں دی گئیں۔ یہ مذاکرہ جبری مذہب تبدیل کرنے کے موضوع پر ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر رمیش کمار نے بتایا کہ انہوں نے گزشتہ مارچ میں قومی اسمبلی میںاس بارے میں ایک بل پیش کیا تھا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اس بل کی پُر زور حمایت کی تھی‘ لیکن جب یہ بل پیش کیا گیا تو اسے انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی میں بھیجنے کے بجائے دوبارہ وزارت قانون اور اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس بھیج دیا گیا۔ کیوں؟ اس لئے کہ انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی کے سر براہ بلال بھٹو زرداری ہیں۔ اگر یہ بل اس قائمہ کمیٹی کے پاس جاتا تو وہ ہر حال میں منظور ہو جاتا۔ مذکورہ مذاکرے میں جبری مذہب تبدیل کرانے کے واقعات کے حوالے بھی دیئے گئے۔ یہ واقعات وہ ہیں جن میں مبینہ طور پر ہندو لڑکیوں کی مسلمان لڑکوں سے شادی کے بارے میں رپورٹ کیا گیا۔ اب یہ شادی کتنی لڑکی کی مرضی سے ہوتی ہے اور کتنی اس کی مرضی کے بغیر؟ اس کی تحقیق کوئی نہیں کرتا۔ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار ہی کا کہنا تھا کہ اس بارے میں گواہوں پر دبائو ڈالا جاتا ہے اور اپنی مرضی کی گواہیاں پیش کی جاتی ہیں۔
ہم نے اخبار میں اس مذاکرے کے بارے میں پڑھا اور یاد کیا کہ پچھلے ہی دنوں ہندو برادری نے جب دیوالی منائی تو ہمارے مسلمان بھائیوں نے بھی اس میں شرکت کی تھی۔ ہولی پر بھی ہم نے اپنے ٹیلی وژن چینلز پر پاکستان کی ہندو برادری کو ایک دوسرے پر رنگ پھینکتے اور کسی رکاوٹ کے بغیر یہ تیوہار مناتے دیکھا‘ بلکہ ان دونوں تیوہاروں پر ہندو برادری کو مندروں میں پوجا پاٹ کرتے ہوئے بھی دکھایا گیا۔ ہم پچھلے کئی سال سے پاکستانی ٹیلی وژن پر ہندو برادری کو یہ تیوہار مناتے دیکھ رہے ہیں۔ اگر یہ سب تیوہار ہمارے ملک میں بھی منائے جاتے ہیں، چاہے وہ ایک اقلیتی برادری ہی کیوں نہ مناتی ہو، تو اس برادری کو اس کا جائز حق دینے اور اس کی شکایت دور کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟ اگر پاکستان سے باہر رہنے والے سکھوں کو خوش کیا جا سکتا ہے تو پاکستان کی ہندو برادری کی فریاد کیوں نہیں سنی جا سکتی؟ عمران خاں کو خود ہی اپنی جماعت کے ایک رکن کی جانب سے پیش کئے ہوئے مسودۂ قانوں کی حمایت کرنی چاہیے۔ اصل میں تو یہ عمران خان صاحب کا ہی امتحان ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں