الحمرا میں آرٹ گیلری کے سامنے چبوترے پر بیس پچیس نوجوان لڑکے لڑکیاں گلے میں سرخ چادریں ڈالے کھڑے تھے۔ اور زور شور سے نعرے لگا رہے تھے۔ ہم نے حیرت سے انہیں دیکھا۔ یہ کون ہیں اور یہاں کیوں کھڑے نعرے لگا رہے ہیں؟ ادھر ادھر سے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ یہ سوشلسٹ پارٹی کے کارکن ہیں اور یہ نعرے لگا رہے ہیں:
فیض تیرا مشن ادھورا
ہم سب مل کر کریں گے پورا
ہم نے سوچا‘ اچھا...؟ پاکستان میں ابھی ایسے نوجوان موجود ہیں جو فیض کا مشن پورا کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟ بائیں بازو کی جماعتیں تو اپنے اختلافات سے ہی باہر نہیں آتیں۔ وہ تو اکٹھی ہی نہیں ہوتیں۔ وہ تو ہمیشہ مختلف ٹکڑیوں میں بٹی رہتی ہیں۔ وہ فیض کا مشن کیسے پورا کریں گی؟ فیض کا مشن کیا تھا؟ یہی ناں کہ اس ملک میں ترقی پسند، روشن خیال اور لبرل معاشرہ پیدا ہو۔ ایسا معاشرہ جہاں بھائی چارہ ہو، رواداری ہو۔ کسی بھی قسم کی تنگ نظری اور شدت پسندی نہ ہو۔ ہر ایک کو اظہار خیال کی آزادی ہو۔ ایسا معاشرہ جو معاشی، معاشرتی اور سیاسی میدان میں دوسری ترقی یافتہ قوموں کے شانہ بشانہ کھڑا ہو‘ اور دنیا اسے عزت کی نگاہ سے دیکھے۔ یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب اس ملک کو روشن خیال اور خرد افروز سیاسی قیادت نصیب ہو‘ اور یہ ترقی پسند سیاسی قیادت آج کا روشن دماغ نوجوان ہی فراہم کر سکتا ہے۔ جی ہاں، روشن دماغ نوجوان۔ تنگ نظر نوجوان نہیں۔ ہماری تاریخ میں، خواہ وہ تقسیم سے پہلے کی تاریخ ہو یا بعد کی، یہ نوجوان اپنی طلبہ تنظیموںکے راستے سے ہی سیاسی اور سماجی میدان میں سامنے آئے۔ آمرانہ حکومتوں نے اسی لئے طلبہ تنظیموں پر پابندی لگائی۔ انہیں ڈر تھا کہ یہ نیا خون ہی ہے جو ان کا مقابلہ کر سکتا ہے لیکن ہماری بد نصیبی یہ ہے کہ آمرانہ حکومتوں کے بعد جو ٹوٹی پھوٹی جمہوری حکومتیں آئیں، انہوں نے بھی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ کو اپنی یونین یا اپنی تنظیم بنانے کی اجازت نہیں دی۔ اس ساری صورت حال میں یہ طلبہ تنظیمیں تو پابندی کا شکار رہیں، لیکن ایک جماعت کی طلبہ تنظیم نے کسی پابندی یا کسی رکاوٹ کے بغیر تمام کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ اس پر روک ٹوک لگانے والا کوئی نہیں تھا۔ یہ واحد طلبہ تنظیم ہے جس نے ہر نئے اور پرانے طالب علم پر، بزور طاقت، اپنا رعب جمائے رکھا۔ کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اس تنظیم کا مقابلہ کر سکتا۔ ضیاالحق کے بعد ہر حکومت میں یہ مطالبہ کیا جاتا رہا کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ کو یونین بنانے کی اجازت دی جائے اور ان پر جو پابندی لگائی گئی ہے وہ اٹھا لی جائے‘ لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ یہ بھی کہا گیا کہ طلبہ کی اس تنظیم کو بھی اسی آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع فراہم کیا جائے، جس آزادی سے وہ سالہا سال سے کام کر رہی ہے؛ البتہ دوسرے نظریاتی طلبہ کو بھی اپنی تنظیم بنانے کی آزادی دی جائے۔ مگر آج تک کسی نے نہیں سنا۔
ہم نے الحمرا میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کو فیض کا مشن پورا کرنے کے نعرے لگاتے دیکھا تو ہمیں بھی حوصلہ ہوا یہ باتیں لکھنے کا۔ ورنہ ہمارے ارد گرد ایسا ماحول اور ایسی فضا بنا دی گئی ہے کہ ترقی پسندی اور روشن خیالی گالی بن گئی ہے‘ اور ہم ڈرتے ہیں اس کے بارے میں بات کرتے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہندوستان میں ہندو انتہا پسندی بڑھتی ہے تو ہمیں اس ملک کا سیکولر کلچر یاد آ جاتا ہے‘ اور ہم شور مچاتے ہیں کہ مودی سرکار نے پنڈت نہرو کا سیکولر کلچر تباہ کر دیا‘ لیکن اگر کوئی یاد دلاتا ہے کہ آپ کے اپنے ملک میں تو یہ سیکولر کلچر نظر نہیں آتا اور آپ سیکولرازم کو گالی سمجھتے ہیں، تو آپ کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔ اصل خرابی یہ ہے کہ ہم سیکولر کلچر کا ترجمہ ''لا دینی کلچر‘‘ کرتے ہیں حالانکہ سیکولر کلچر کا مطلب ہے ہر شخص کو اپنے مذہب، اپنے عقیدے اور اپنے نظریے کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دینا‘ اور اس حق کا تحفظ کرنا۔ اب ہمیں بتایا گیا ہے کہ 29 نومبر کو پاکستان بھر سے یہ روشن خیال طلبہ لاہور میں اکٹھے ہو رہے ہیں۔ یہاں موجودہ حالات پر اجتماعی احتجاج کیا جائے گا۔ فیض نے بھی تو یہی کہا تھا ''چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘‘۔
اب یہاں ہمیں بابری مسجد کے بارے میں ہندوستانی سپریم کورٹ کا فیصلہ یاد آ گیا۔ ہندوستان میں ہی اس فیصلے پر نہایت سخت تبصرے کئے جا رہے ہیں۔ عالمی شہرت رکھنے والی مؤرخ رومیلا تھاپر نے تو اس فیصلے کے پرخچے اڑا دیئے ہیں۔ لیکن ہمیں مہاتما گاندھی کے پڑپوتے تشار گاندھی (غالبا یہی نام ہے ان کا) نے جو تبصرہ کیا ہے، وہ ہمیں بہت پسند آیا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اگر آج اسی سپریم کورٹ میں مہاتما گاندھی کے قتل کا مقدمہ چلایا جاتا تو اس کا فیصلہ کچھ یوں ہوتا ''ناتھو رام گاڈسے قانوں کی رو سے قتل کا مجرم ہے لیکن وہ بہت بڑا دیش بھگت (بہت بڑا محب وطن) ہے‘‘۔ دیکھ لیجئے، اس فیصلے پر اس سے زیادہ ''قاتل طنز‘‘ اور نہیں ہو سکتا۔
لیجئے، قاسم جعفری نے حساب لگا کر بتایا ہے کہ اردو شاعری میں صرف غزل اور نظم وغیرہ چند اصناف ہی نہیں ہیں بلکہ اس کی تو تیس پینتیس سے بھی زیادہ اصناف ہیں۔ فیض فیسٹیول کا ایک سیشن ''شاعری کی اصناف‘‘ پر تھا۔ اس موضوع پر بات کر رہی تھیں زہرا نگاہ اور عارفہ سیدہ زہرا۔ قاسم جعفری میزبان تھے۔ انہوں نے یہ اصناف گنوانا شروع کیں تو ہم منہ کھولے انہیں دیکھتے رہے۔ اب آپ گنتے جائیے: غزل، نظم، پابند نظم، آزاد نظم، نثری نظم، گیت، دو بیتی، فرد، دوحہ، حمد، مدحِ، منقبت، قصیدہ، مرثیہ اور خدا جانے کیا کیا۔ ہم تو حیران تھے کہ انہوں نے اتنی بہت سی اصناف کہاں سے جمع کر لی ہیں اور انہیں یاد بھی رکھا ہے۔ ہر صنف اپنی انفرادیت میں مختلف اور ممیز۔ موسیقی کے راگ راگنیوں میں جو بول گائے جاتے ہیں قاسم جعفری نے انہیں بھی اردو شاعری کی اصناف میں ہی شمار کیا۔ یہ ایسا موضوع ہے جس پر تحقیقی مقالہ لکھنے کی ضرورت ہے۔ کیا ہمارے تعلیمی اداروں میں اردو پڑھانے والے اساتذہ اس طرف توجہ کر سکتے ہیں؟ ویسے ہمارا خیال ہے‘ ان اساتذہ کرام کو تو یہ تمام اصناف یاد بھی نہیں ہوں گی۔ یہ تو قاسم جعفری ہی ہیں جو اتنی باریک بینی سے کام لیتے ہیں۔
اس فیسٹیول میں اجمیر شریف کی درگاہ کے خادم اعلیٰ سید فرید مہاراج اور فرانسیسی خاتون مارٹینا کتیلا بھی آئی ہوئی تھیں۔ قاسم جعفری ان دونوں سے بات کر رہے تھے۔ موضوع تھا: قوالی، اس کی تاریخ، قوالی سننے اور قوالی کی محفل میں بیٹھنے کے آداب۔ بزرگوں کی درگاہوں میں جو قوالی پیش کی جا تی ہے تو اسے سننے کے کیا آداب ہو تے ہیں؟ وجد کیا ہوتا ہے؟ قوالی سنتے ہوئے اگر کسی کو وجد آ جائے تو جسے وجد آیا ہے اس کے ساتھ تمام سامعین کیوں کھڑے ہو جاتے ہیں؟ مارٹینا نے بھی اس بارے میں باتیں کیں۔ اس جشن میں سید فرید مہاراج کو دیکھ کر ہمیں تجسس ہوا کہ اس وقت جب پاکستان اور ہندوستان کے درمیان آمدورفت بند ہو چکی ہے‘ یہ کیسے پاکستان آ گئے؟ معلوم ہوا کہ پاکستان تو ہندوستان سے آنے والوں کو ویزا دے رہا ہے۔ یہ ہندوستان ہے جو پاکستانی باشندوں کو ویزا نہیں دیتا حتیٰ کہ بس اور ریل گاڑی بھی بند کر دی گئی ہے۔ فرید مہاراج لاہور سے فیصل آباد بھی گئے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے پردادا کا مزار فیصل آباد میں ہے۔ ہم نے سوال کیا، کہاں اجمیر اور کہاں فیصل آباد؟ یہ کیسے ہو گیا؟ معلوم ہوا کہ ان کے پردادا کے کئی مرید اس زمانے کے لائل پور اور آج کے فیصل آباد میں بھی موجود تھے۔ وہ جالندھر سے وہاں آئے تھے۔ اور وہیں ان کا انتقال ہوا تھا۔ اب آپ دیکھ لیجئے کہ دونوں ملکوں کے خاندانی رشتے کہاں کہاں پھیلے ہوئے ہیں اور تقسیم کے ساتھ یہ رشتے کیسے ٹوٹے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں مودی سر کار کی دہشت گردی کے بعد تو دونوں ملکوں کے درمیان ڈاک کا سلسلہ بھی ٹوٹ گیا ہے۔ چلئے ڈاک کا سلسلہ ٹوٹنا تو اتنا افسوسناک نہیں ہے کہ واٹس ایپ وغیرہ کی موجودگی میں ساری دوریاں مٹ گئی ہیں لیکن دونوں ملکوں کے درمیان کتابوں اور رسالوں کی آمدورفت بند ہو جانے کا بہت نقصان ہوا ہے۔ آپ اردو زبان و ادب کو ہی لے لیجئے۔ ہندوستان میں بھی اردو زبان میں کتابیں چھپ رہی ہیں۔ ہم وہ کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں اور ہندوستان کے اردو پڑھنے والے ہماری کتابوں کے انتظار میں رہتے ہیں۔ باقی اختلافات تو ہوتے رہیں گے، کم سے کم کتابوں کا تبادلہ تو بند نہ کیا جائے۔ یہ تو کتابیں پڑھنے والوں پر ظلم ہے۔