"MAC" (space) message & send to 7575

نوجوان میدان میں آ گئے

اب تو عمران خان کے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وزیر فواد چودھری نے بھی کہہ دیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین بحال کی جائیں۔ تو کیا یہ امید رکھی جائے کہ پاکستان بھر کے ان ہزاروں طلبہ کا مطالبہ پورا ہو جائے گا‘ جنہوں نے جمعہ کے دن پچاس شہروں میں بھرپور جلوس نکال کر اپنی یک جہتی اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا؟ ہمیں تو شبہ ہے۔ فواد چودھری نے عید کا چاند دیکھنے کے لئے ایک سائنسی کیلنڈر بھی تو جاری کیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ اب اس کیلنڈر کے مطابق ہر مہینے کا چاند نکلنے کی اطلاع دی جائے گی۔ لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ اب تک رویت ہلال کمیٹی کے ارکان ہی چاند نظر آنے یا نظر نہ آنے کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ ہر قمری مہینے کے شروع میں بڑے بڑے بزرگ صورت علما کسی بلند ترین عمارت پر کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کی آنکھیں مغرب کی بنائی ہوئی دوربین کے شیشے پر لگی ہوتی ہیں اور وہ ملک بھر سے شہادتوں کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں کہ شاید کسی چھوٹے بڑے شہر کے کسی کونے کھدرے میں کسی چیل کی نظر رکھنے والے آدمی کو چاند نظر آیا ہو۔ فواد چودھری کی نہیں مانی جاتی، اوروں کی مان لی جاتی ہے۔ اس سے کیا ثابت ہوا؟ عمران خان کی کابینہ میں ان کی اتنی ہی سنی جاتی ہے کہ بس بولتے رہو۔ اب طلبہ یونین کی بحالی کے بارے میں فواد چودھری تو یہ کہہ رہے ہیں، اور ایک دوسرے وزیر فر ما رہے ہیں ''طلبہ یونینز بحال ہونی چاہئیں، مگر اس بارے میں ابھی فیصلہ نہیں کیا گیا‘‘۔ عمران خان صاحب کی کابینہ میں ایسی ہی بھانت بھانت کی آرا سنی جاتی ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے ناں کہ من چہ سرائم، و طنبورۂ من چہ سرا۔ لیکن انگریزی محاورے کے مطابق ''گھوڑے کی منہ‘‘ سے ابھی کچھ نہیں نکلا۔ اور چاند دیکھنے کے معاملے میں بھی ادھر سے کوئی اشارہ نہیں ملا تھا۔ تو کیا طلبہ یونین بحال کرنے کا فیصلہ ہو جائے گا؟ یاد کیجئے، پیپلز پارٹی کی حکومت کے زمانے میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی طلبہ یونین بحال کرنے کا اعلان کیا تھا۔ مگر اس کے بعد کیا ہوا؟ کیا یہ یونین بحال ہو گئیں؟ یہ آپ دیکھ لیجئے۔ فیصلہ کہاں ہوتا ہے؟ فیصلہ کون کرتا ہے؟ یہ ہم سب جانتے ہیں۔
بہرحال جمعرات کے روز پاکستان بھر کے طلبہ نے پچاس شہروں میں ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو کر اور پُر جوش جلوس نکال کر ثابت کیا کہ اب وہ پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں‘ اپنا مطالبہ منوا کر ہی رہیں گے۔ ان کے جوش و خروش کا اندازہ اس ویڈیو سے بھی لگا لیجئے جس میں نوجوان طلبہ اور طالبات پورے جوش و خروش کے ساتھ نعرے لگا رہے ہیں:
سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
بھگت سنگھ نے پھانسی سے پہلے یہ شعر پڑھا تھا۔ اور اب یہ انقلابی نوجوانوں کا نعرہ بن چکا ہے۔ آخر ان طلبا اور طالبات کو باہر نکلنا ہی تھا۔ ضیاالحق نے ان نوجوانوں کے گرم خون سے خوف زدہ ہو کر جب پابندی لگائی تھی‘ اسے تیس بتیس سال ہو گئے ہیں۔ اس عرصے میں اس تنظیم کو تو پوری طرح کھل کھیلنے کا موقع دیا گیا‘ جس نے اپنی سرپرست جماعت کے ساتھ اس آمر مطلق کا ساتھ دیا تھا، لیکن دوسری تنظیموں کو بند کر دیا گیا۔ 
آپ آزادی سے پہلے کا متحدہ ہندوستان دیکھ لیجئے۔ طلبہ کی کتنی تنظیمیں تھیں۔ مسلم لیگ کی مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن تھی۔ کانگریس کی آل انڈیا سٹوڈنٹس کانگریس تھی۔ اور کمیونسٹ پارٹی کی آل انڈیا سٹوڈنٹس فیڈریشن تھی۔ 1946 میں ہندوستان میں الیکشن ہوئے تو یہ طلبہ ہی تھے جو مسلم لیگ کے لئے شہر شہر گائوں گائوں مارے پھرتے تھے۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ پنجاب میں مسلم لیگ کے لئے کام کرنے آئے تھے۔ تاریخ پر نظر ڈال لیجئے یہ طلبہ تنظیمیں ہی تھیں‘ جنہوں نے بڑے بڑے سیاسی لیڈر پیدا کئے۔ پاکستان بننے کے بعد بھی اس ملک میں طلبہ کے حقوق کے ساتھ انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کے تحفظ کے لئے جو تنظیمیں پیش پیش رہیں‘ ان میں وکلا، صحافی اور یہ طلبہ بھی شامل تھے۔
پابندی لگنے سے پہلے تمام تعلیمی اداروں میں انہی تنظیموں کی وجہ سے رونق تھی۔ سالانہ انٹر کالجی ایٹ مباحثے ہو رہے ہیں، مشاعرے ہو رہے ہیں، موسیقی کی محفلیں ہو رہی ہیں اور ڈیکلیمیشن مقابلے ہو رہے ہیں‘ اور یہ پوری آزادی کی فضا میں ہوتے تھے۔ ان سے طلبہ اور طالبات میں بولنے، بات کرنے، اور ادب سے شغف پیدا ہونے اور شعر گوئی کی صلاحیت پیدا ہوتی تھی۔ موسیقی سے ان نوجوان دلوں میں گداز، نرمی اور ایک دوسرے کے ساتھ اخوت اور بھائی چارہ پیدا ہوتا تھا۔ اس وقت بھی نظریاتی اختلاف ہوتے تھے، مگر جھگڑے ٹنٹے نہیں ہوتے تھے۔ یہ جھگڑے اور مار کٹائی اس تنظیم نے شروع کی جسے ہر تعلیمی ادارے میں پوری طرح کھل کھیلنے کی آزادی تھی۔ ایک یونیورسٹی کے کیمپس میں تو یہاں تک ہوا کہ پہلے اپنے مخالف کی خوب پٹائی کی گئی‘ اس کے بعد اسے نہر میں پھینک دیا گیا۔ اس تنظیم کو تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ تازہ واقعہ بھی اسی یونیورسٹی کا ہے۔ چند لڑ کوں نے یونیورسٹی میں ٹرانسپورٹ کی سہولتیں حاصل کرنے کے لئے پُر امن جلوس نکلا۔ دوسری تنظیم نے اس لئے اس پر حملہ کر دیا کہ کہیں یہ طلبہ اس کے مقابلے پر نہ کھڑے ہو جائیں۔ انتظامیہ نے ان طلبہ کو نا پسندیدہ قرار دے کر یونیورسٹی سے نکال دیا جو اپنا حق مانگ رہے تھے حالانکہ وہ صرف آمد و رفت کی سہولت ہی مانگ رہے تھے۔ ادھر بلوچستان یونیورسٹی میں حکم دیا گیا ہے کہ طلبہ سیاست میں حصہ نہیں لیں گے۔ اس صورت میں پچاس شہروں میں ہزاروں طلبہ کے جلوس اپنے جائز حقوق مانگنے کے لئے ہی نکلے ہیں۔ ان کا سب سے پہلا مطالبہ تو طلبہ یونین کی بحالی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے فنڈز میں جو کمی کی گئی ہے‘ اسے پورے فنڈز دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اب جہاں تک جنسی طور پر ہراساں کرنے کا معاملہ ہے‘ یہ معاملہ انتظامیہ اور طلبہ یونین مل کر ہی طے کر سکتے ہیں۔
اب یہاں ہمیں گورنمنٹ کالج لاہور کا ایک تاریخی مباحثہ یاد آ رہا ہے۔ اب یہ نہ پوچھیے کہ یہ کتنی پرانی بات ہے۔ صرف اس واقعے سے خود ہی اندازہ لگا لیجئے۔ یہ مباحثہ برطانوی پارلیمنٹ کے دارالعوام کی طرز پر ہوا تھا۔ اس میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کون تھے؟ باپ بیٹے۔ جی ہاں، باپ اور بیٹا۔ باپ تھے پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر مظہر علی خان اور بیٹا تھا‘ طارق علی خاں، جو آج دنیا کے معروف سیاسی مبصروں اور نادر انگریزی ناول نگاروں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ نہایت ہی دلچسپ مباحثہ تھا‘ بلکہ کہہ لیجئے کہ یہ پارلیمنٹ میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے لیڈروں کی دھواں دھار تقریریں تھیں۔ ہال بھرا ہوا تھا اور تالیاں بجا بجا کر حاضرین کی ہتھیلیاں سرخ ہو گئی تھیں۔ اس مباحثے کا موضوع کیا تھا؟ یہ اس وقت ہمیں یاد نہیں آ رہا ہے۔ شاید آئی اے رحمن صاحب کو یاد ہو۔ 
ہم تو یہ عرض کر رہے ہیں کہ طلبہ تنظیمیں تربیت گاہ ہوتی ہیں۔ یہاں سے علمی اور تعلیمی میدان میں بڑے بڑے مصنف اور سکالر اور سماجی اور سیاسی میدان میں بڑے بڑے لیڈر پیدا ہوتے ہیں۔ یہ لیڈر اپنے معاشرے کو بدلتے ہیں۔ جان لیجئے، انقلاب کے نعرے رومانوی ہی ہوتے ہیں۔ ان سے نوجوان ذہنوں کی رومانویت ہی جھلکتی ہے۔ لیکن دنیا کی تاریخ پڑھ لیجئے، یہی رومانویت، حقیقت کا روپ بھی دھار لیتی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے انقلاب اسی رومانویت کے ذریعے برپا ہوئے ہیں۔ آج یہ ہزاروں نوجوان جو پاکستان کے پچاس شہروں میں جلوس کی شکل میں نکلے ہیں‘ ان کی یہ رومانویت اور ان کی یہ محبت اور محنت بالآخر رنگ لا کر رہے گی اور اگر آج حکمراں جماعت کا ایک وزیر ان کی حمایت میں سامنے آیا ہے تو کل پوری حکومت ان کے مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔ یہ نوجوان ہمارے مستقبل کے امین ہیں۔ یہ پاکستان کو پیچھے نہیں، آگے لے جانا چاہتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں کے شانہ بشانہ کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے فیض فیسٹیول میں ان نوجوانوں کا جوش دیکھا تھا تو اسی وقت اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ کچھ لے کر ہی رہیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں