معلوم نہیں آپ لاہور کے امراضِ قلب کے ہسپتال گئے ہیں یا نہیں۔ خدا کرے آپ کو وہاں جانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ لیکن ہم وہا ںگئے‘ اور مریض کی حیثیت میں گئے۔ ایک اتوار کو سویرے سویرے ایسا لگا جیسے ہمارے سانس الٹے سیدھے ہو رہے ہیں۔ اس وقت کسی اور ہسپتال میں کسی ڈاکٹر کی موجودگی نا ممکن نظر آتی تھی‘ اس لئے ہمارے گھر والے ہمیں فوراً امراض قلب کے اس ہسپتال لے گئے۔ اندر داخل ہوتے ہی سامنے ایک نیچے سے کائونٹر پر دو تین نوجوان بیٹھے تھے۔ انہوں نے ہمارے نام وغیرہ کا فارم پُر کیا اور ہمیں دے دیا۔ ہم وہ فارم لے کر اندر گئے۔ وہاں پہلے ہماری ای سی جی کی گئی۔ پھر ای سی جی کی رپورٹ لے کر ہم سامنے بیٹھے ڈاکٹر کے پاس پہنچے۔ ڈاکٹر صاحب نے بڑی توجہ سے ہمیں دیکھا۔ کچھ سوال جواب ہوئے۔ اس کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ تمہارے دل کی ایک شریان اپنے راستے سے بھٹک گئی ہے‘ اور وہ خون آگے بھیجنے کے بجائے واپس بھیج رہی ہے۔ انہوں نے تسلی دی کہ زیادہ پریشانی کی بات نہیں ہے۔ احتیاط کرو۔ اور دوا کھاتے رہو۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک دوا لکھ دی، اور ہم واپس آ گئے۔ یہ سارا کام گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے میں ہو گیا۔ ہم نے اس ہسپتال کی جو صفائی ستھرائی دیکھی اور ڈاکٹروں اور دوسرے عملے کو جس طرح پوری توجہ کے ساتھ مریضوںکی دیکھ بھال کرتے دیکھا، اس سے ہم اتنے متاثر ہوئے کہ دل سے اس ہسپتال اور اس کے ڈاکٹروں اور باقی عملے کے لئے دعا نکلی‘ اور سوچا، کاش سارے ہسپتال ہی ایسے ہو جائیں۔ مریضوں کے مرض کی تشخیص ہو رہی ہے۔ ای سی جی کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر توجہ سے دیکھ رہے ہیں۔ بالکل مفت۔ اس دن اتوار کی چھٹی تھی۔ اس کے باوجود ہسپتال مریضوں سے بھرا ہوا تھا اور وہ سب وہاں کے انتظام سے مطمئن دکھائی دے رہے تھے۔ یہ سب غریب لوگ تھے۔ عورتیں اور مرد۔ لاہور کے بھی اور لاہور سے باہر کے بھی۔ انہیں دیکھ کر ہمیں شرمندگی سی ہوئی۔ سوچا، ہم ان غریبوں کا وقت لے کر ان کا حق مار رہے ہیں۔ اس کے بعد ہم وہاں نہیں گئے، بلکہ ایک مہنگے ہسپتال کے مہنگے ڈاکٹر کے پاس گئے۔ دوسری رائے لینے کے لئے اور اپنے آپ کو تسلی دینے کے لئے۔ اس ہسپتال میں کئی مہنگے مہنگے ٹیسٹ کرانے کے بعد ان ڈاکٹر صاحب نے بھی وہی دوا تجویز کی جو امراض قلب کے ڈاکٹر نے تجویز کی تھی۔ گویا مفت کا علاج بھی وہی تھا جو مہنگے ہسپتال کا علاج تھا۔ اس وقت یہ ساری کہانی بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لاہور میں امراض قلب کا یہ ہسپتال عام آدمی کے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے۔ یہ ہسپتال کس نے بنایا ہے؟ اور اس کا انتظام و انصرام کس کی کوششوں کا نتیجہ ہے؟ یہ آپ خود ہی تحقیق کر لیجئے۔
اب اسی ہسپتال میں چند دن پہلے جو وحشیانہ حرکتیں کی گئیں اس پر رئیس امروہوی یاد آ گئے۔
کہنے لگے کہ ہم کو تباہی کا غم نہیں
میں نے کہا کہ وجہ تباہی یہی تو ہے
ہم لوگ ہیں عذابِ الٰہی سے بے خبر
اے بے خبر، عذابِ الٰہی یہی تو ہے
تو اس دن عذاب الٰہی سے بے خبر لوگوں نے اس ہسپتال کا جو حشر کیا‘ وہ آپ کے سامنے ہے‘ اور اس کے بعد اب جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ بھی عذاب الٰہی سے کم نہیں ہے۔ آپ کو ڈاکٹروں سے شکایت تھی۔ ہسپتال سے شکایت تو نہیں تھی۔ آپ نے اس ہسپتال پر دھاوا بول کر نقصان کسے پہنچایا؟ غریب مریضوں کو۔ جانیں کس کی گئیں؟ غریب لوگوں کی۔ یہ کوئی بھی نہیں کہتا کہ تمام کالے کوٹ والے وکیل ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ہر طبقے اور ہر حلقے میں اچھے اور برے دونوں ہی ہوتے ہیں۔ ہمارے کئی دوست وکیل ہیں۔ نہایت ہی نفیس، شائستہ اور متحمل مزاج۔ پڑھنے لکھنے کا شوق رکھنے والے۔ ہم ان کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ ایسی قبیح حرکت کریں گے۔ یہ نوجوان وکیل تھے۔ جس طرح انہوں نے ہسپتال کو میدان جنگ بنایا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر ہم شرم سے پانی پانی ہو گئے تھے۔ ہم وہ منظر دیکھ رہے تھے اور دعا کر رہے تھے کہ خدا کرے یہ صحیح نہ ہو۔ وکیل تو پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ ان سے ایسی توقع کی ہی نہیں جا سکتی۔ یہ جو ہسپتال میں توڑ پھوڑ کر رہے ہیں، کیا یہ وکیل ہیں؟ پڑھے لکھے وکیل؟ ان غریب مریضوں کے لئے ان کے دل میں ذرا سا بھی رحم نہیں ہے‘ جو اپنے دل کا علاج کرانے یہاں آئے ہوئے ہیں؟ اس سے پہلے نوجوان ڈاکٹر بھی ہڑتال کرتے رہے ہیں۔ ان کی ہڑتال سے بھی مریضوں کو تکلیف پہنچی ہے لیکن انہوں نے یہ توڑ پھوڑ نہیں کی۔
اور اب جو تجربہ کار اور مشہور و معروف وکیل اپنے نوجوان ساتھیوں کی صفائیاں پیش کر رہے ہیں‘ وہ سن کر تو اور بھی شرم سے سر جھک جاتا ہے۔ کیا انہوں نے جو حرکت کی قانون کی نظر میں وہ جرم نہیں ہے؟ اور اگر وہ جرم ہے تو کیا انہیں اس کی سزا نہیں ملنی چاہیے؟ بار ایسوسی ایشنوں اور بار کونسل کے الیکشن نے اتنے بڑے بڑے وکیلوں کو اپنے نوجوان ساتھیوں کی مدد کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اب ان کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے۔ بہرحال اب یہ معاملہ عدالت کے سامنے ہے۔ وہی اس کا فیصلہ کرے گی۔ لیکن اس عرصے میں وہ لوگ کہاں جائیں جن کے مقدمے عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ ان کے وکیل تو ہڑتال پر ہیں۔ ایک واقعے نے پورے ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے۔
یہاں ہمیں ایک اور واقعہ یاد آ گیا۔ یہ آٹھ دس سال پہلے کی بات ہے۔ ہم کسی کام سے ضلع کچہری گئے ہوئے تھے اور مکانوں کی رجسٹری والے دفتر کے باہر بیٹھے تھے۔ ہمارے سامنے ایک وکیل صاحب ایک نوجوان سے باتیں کر رہے تھے۔ وہ نوجوان دفتر کا کلرک معلوم ہوتا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ باتیں کرتے کرتے ان وکیل صاحب نے اس نوجوان کے منہ پر تھپڑ برسانا شروع کر دئیے۔ ہماری طرح کچھ اور لوگ بھی وہاں موجود تھے‘ مگر کسی کی مجال نہیں تھی کہ ان وکیل صاحب کا ہاتھ پکڑتا۔
اب ہم رو رہے ہیں کہ ہمارے اندر برداشت کا مادہ ختم ہو گیا ہے۔ ہم ذرا سی بات پر بھڑک اٹھتے ہیں۔ ٹھنڈے دل سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت معدوم ہو چکی ہے۔ اور یہ عدم برداشت ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ بن چکی ہے۔ مگر جب ہمارے حکمران ہی صبح شام اٹھتے بیٹھتے اپنے مخالفوں کو دھمکیاں دیتے نظر آئیں گے‘ اور انہیں سبق سکھانے کی باتیں کرتے رہیں گے تو عام آدمی کیا کرے گا؟ اپنے حکمرانوں کے بتائے ہوئے راستے پر ہی چلے گا ناں۔ عربی کی کہاوت ہے کہ عام آدمی اپنے حکمرانوں کے دین پر ہی چلتا ہے۔ یہاں دین سے مراد ان حکمرانوں کا عمل ہے۔ ذرا سوچیے، ہمارا معاشرہ کس راستے پر چل نکلا ہے۔ آج کا نوجوان اگر اپنا غصہ اور اپنا طیش ہر وقت اپنے ماتھے پر سجائے پھرے گا‘ تو اس قوم کا کیا ہو گا؟ ہمارے ایک دوست کا خیال یہ ہے کہ پہلے وکالت کا پیشہ اختیار کرنے والے شہروں سے تعلق رکھتے تھے۔ شہروں کا کلچر ان کے اندر تحمل اور بردباری پیدا کرتا تھا۔ اب جو وکیلوں کا نیا طبقہ آیا ہے اس کا تعلق شہروں کے کلچر سے نہیں ہے۔ وہ دیہات سے آئے ہیں۔ اور دیہات میں جو رسہ گیری کا کلچر اب تک چلا آ رہا ہے تو وہ اپنے ساتھ یہ کلچر شہروں میں بھی لے آئے ہیں۔ بہرحال یہ ان کا اپنا خیال ہے۔ عمرانیات کے ماہر اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ ہمیں اس کا علم نہیں‘ لیکن ہمارے ذی ہوش دانش وروں کو بہرحال سوچنا پڑے گا کہ ہماری نئی نسل کی پرورش کس نہج پر ہو رہی ہے۔ اپنے حکمرانوں سے تو ہمیں کوئی توقع نہیں ہے۔ ان کے سر پر تو اپنے مخالفوں کو جہنم واصل کرنے کا بھوت سوار ہو چکا ہے‘ اور وہ اس عمل سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ انہیں اس کی ذرہ برابر بھی پروا نہیں کہ ان کی جنگجویانہ پالیسی کی وجہ سے ہمارے معاشرے کا تار و پود کس طرح بکھرتا چلا جا رہا ہے۔
تو کیا امراض قلب کے ہسپتال کا حادثہ ہمارے لئے کوئی سبق رکھتا ہے؟ کیا اس سے ہم کچھ سیکھ لیں گے؟ رئیس امروہوی کے بقول‘ کیا ہمیں اپنی تباہی کا غم نہیں ہے؟ اگر ہمیں اپنی تباہی کا غم نہیں ہے تو یہی تو عذابِ الٰہی ہے۔