''آپ کو اظہارِ رائے کی پوری ضمانت دی جاتی ہے لیکن اس کے بعد جو ہو گا، اس کی ضمانت نہیں دی جا سکتی‘‘۔ عیدی امین کا یہ قول ہمیں نئے سال پر ملا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ قول اپنی گرہ میں کس کے باندھ لو، کہ یہ تمہیں بار بار یاد آئے گا۔ اور ہم نے اپنے چاروں طرف نظر دوڑائی ہے اور اسے گرہ میں باندھ لیا ہے۔ لیکن یہاں یہ سوال بھی تو ہمیں تنگ کر رہا ہے کہ کہاں ہے نیا سال؟ کیسا نیا سال؟ کون لایا نیا سال؟ ہمارے لئے تو پچھلے ڈیڑھ دو سال سے ایک ہی سال چلا آ رہا ہے بلکہ یہ ڈیڑھ دو سال بھی ہم نے تکلف میں ہی کہہ دیا ہے۔ ورنہ ہمیں تو یاد نہیں کب ہمیں ایسی نوید ملی ہو‘ جب ہم اپنی آنکھوں کے سامنے اپنا روشن مستقبل دیکھ رہے ہوں۔ اب رہی ڈیڑھ دو سال کی بات، تو آپ صرف اپنے ٹیلی وژن چینلز پر ہونے والی بات چیت پر ہی ایک نظر ڈال لیجئے۔ کیا اس عرصے میں ان پروگراموں میں آپ کو کوئی تبدیلی دکھائی دی ہے؟ وہی رونا دھونا، وہی دھماچوکڑی اور وہی ایک دوسرے کا منہ نوچنے کی کوشش۔ اگر اس عرصے میں کہیں کوئی فرق پڑتا دکھائی دیتا ہے تو یہ کہ ایک دن ایک صاحب حکومت کے خلاف بات کرتے ہوئے منہ سے جھاگ اڑاتے نظر آتے ہیں تو دوسرے دن وہی صاحب حکومت کے حق میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہے ہوتے ہیں۔ اس پر نہ وہ حیران ہوتے ہیں، اور نہ ہم کیونکہ یہ سب ہماری عادت بن چکی ہے اور عادت مشکل سے ہی جاتی ہے۔ ہمارے سامنے تو بار بار وہی فلم چلنے لگتی ہے۔ ہم نے پوسٹ ٹرتھ کو خواہ مخواہ بد نام کیا ہے۔ ہمارے لئے تو ہمیشہ پوسٹ ٹرتھ کا ہی زمانہ رہا ہے۔ اب Sapiens کا مصنف ہراری تو اسے اور بھی دور تک لے جاتا ہے اور سوال کرتا ہے کہ انسانی تاریخ میں بھی کب پوسٹ ٹرتھ کا زمانہ نہیں رہا؟ لیکن ہم انسانی تاریخ میں اتنی دور تک نہیں جاتے۔ ہم سے تو اپنی تاریخ ہی نہیں سنبھلتی پوری انسانی تاریخ ہم کہاں تک سنبھالتے پھریں گے۔
ہم نے اس عرصے میں کیا کچھ نہیں دیکھا۔ ہم بات کرنے کا سلیقہ بھول گئے ہیں۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ ہم نے اپنی آنکھیں ماتھے پر رکھ لی ہیں اور ہر قسم کے اخلاق و آداب سے آزاد ہو گئے ہیں۔ ہماری زبانیں لمبی ہو گئی ہیں۔ بڑے چھوٹے کی تمیز مٹ گئی ہے۔ جس کے جو منہ میں آتا ہے کہے چلا جاتا ہے۔ جھوٹ اور سچ کا فرق بھی مٹ گیا ہے۔ ایسا پکا سا منہ بنا کر اس دھڑلے سے جھوٹ بولا جا رہا ہے کہ خدا کی پناہ۔ کل کے چھوکرے اپنے آبائواجداد کے برابر لوگوں کے منہ پر تاریخ کے بارے میں ایسی ایسی غلط باتیں کرتے ہیں کہ دیکھنے اور سننے والوں کو شرم آنے لگتی ہے۔ مقابلہ یہ ہوتا ہے کہ پوری طاقت سے گلا پھاڑ کر کون بول سکتا ہے اور کون جب بولنے پر آتا ہے تو بلا تکان ایسے بولتا چلا جاتا ہے کہ کسی دوسرے کو بولنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ اس سے پہلے مذہب کا استعمال اس طرح نہیں کیا جاتا تھا۔ مذہب کا نام استعمال کرتے ہوئے بہت احتیاط سے کام لیا جاتا تھا بلکہ مذہب اور مذہبی معاملات کو علمائے دین تک محدود رکھا جاتا تھا۔ لیکن اب مذہب کا نام استعمال کر کے دوسروں کے منہ بند کئے جاتے ہیں۔ اس عرصے میں توہم پرستی نے بھی بہت فروغ پایا ہے۔ اب سچ یا جھوٹ‘ کہا یہی جاتا ہے کہ ہم جنات کو گوشت کھلاتے ہیں۔ اور شاید یہی جنات، یا انہیں گوشت کھلانے والے ہمارے سیاسی فیصلوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ لیکن خیر، یہ فیصلے کہیں اور بھی کئے جاتے ہیں۔ اور ہم اس کی وضاحت بھی نہیں کر سکتے۔
چلئے، اسے بھی یاد کئے لیتے ہیں کہ ہمیں پچھلے ڈیڑھ دو سال میں نیا پاکستان بنانے کے کتنے سہانے خواب دکھائے گئے ہیں۔ کہا گیا کہ نیا پاکستان بنے گا تو ہر طرف اجالا ہی اجالا ہو جائے گا۔ اندھیرا دور بھاگ جائے گا اور ہمارے بد نصیب وطن کے نصیب کھل جائیں گے۔ ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہنے کی بات تو نہیں کہی گئی تھی؛ البتہ یہ ضرور کہا گیا تھا کہ بے روزگاروں کے لئے روزگار کے نئے نئے مواقع پیدا ہو جائیں گے۔ اس ملک میں کوئی ضرورت مند نہیں رہے گا۔ ہر ایک کی ضرورت اس کے مانگنے سے پہلے ہی پوری ہو جائے گی۔ اس سلسلے میں اب تک جو وعدے پورے کئے گئے ہیں وہ یہ ہیں کہ پناہ گاہوں کے نام پر کچھ ادارے کھول دیئے گئے ہیں۔ کہتے ہیں وہاں بھوکوں کو کھانا بھی کھلایا جاتا ہے۔ گویا بھیک مانگنے والوں کی تعداد بڑھائی جا رہی ہے۔ مفت کھانے والوں کو اور کیا کہا جائے گا؟ لیکن سنا ہے کہ بھیک منگے پھر بھی ان پناہ گاہوں میں نہیں جاتے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ وہ پناہ گاہیں خالی پڑی ہیں۔ اب تک حکومت کی طرف سے جتنے بھی منصوبوں کی خوش خبری سنائی گئی ہے، ان سے بے روزگاروں کے لئے روزگار کے نئے مواقع ابھی تک تو پیدا ہوتے نظر نہیں آتے؛ البتہ عیدی امین کی یہ بات پوری ہو گئی ہے کہ ہمارے ہاں اظہار رائے کی آزادی کے نام پر تھوڑی بہت بولنے کی جو نام نہاد آزادی ملتی ہے اس کے بعد یہ آزادی استعمال کرنے والوں کا وہی حشر کیا جاتا ہے جس کا عیدی امین نے ذکر کیا تھا۔ ہم پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ تمام بولنے والوں کو ایک ایک کر کے جیلوں کی ہوا کھلائی جا رہی ہے۔ وہ تو اپنی عدالتوں کو دعا دینی چاہیے کہ انہوں نے ضمانتیں منظور کر کے ان بولنے والوں کو زندہ رہنے کا حق دے دیا ہے۔ ورنہ خدا جانے ان عقوبت خانوں میں پڑے پڑے ان کا کیا حشر ہوتا۔ اسی لئے ہمارے حکمرانوں کو یہ عدالتیں بھی ایک آنکھ نہیں بھاتیں۔ ایک آمر کے مقدمے میں عدالتی فیصلے کے بعد اپنی آزاد عدلیہ اور اس کے ججوں کے بارے مں جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ ہم انصاف پر مبنی فیصلہ کرنے والے ایک حق پسند جج کا نفسیاتی تجزیہ کرانے کی جسارت بھی کرتے ہیں اور ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اسی ڈکٹیٹر کے بارے میں ہم نے پہلے کیا کہا تھا۔ ہم نے عرض کیا نا کہ یہاں شرم و حیا سب کسی اور کے حصے میں چلے جاتے ہیں۔ شکر کیجئے، ہم یہاں غیر پارلیمانی الفاظ استعمال کرنا نہیں چاہتے، ورنہ اردو کا ایک ایسا محاورہ ہمارے ذہن میں آ رہا ہے جس میں چاٹنے کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ لیکن ہم یہاں وہ محاورہ بول کر اپنے آپ کو بھی انہی کی سطح پر لانا نہیں چاہتے۔
ہم یہاں ہندوستان کا ذکر بھی کئے دیتے ہیں۔ وہاں نریندر مودی جی آپے سے باہر ہو گئے ہیں۔ لیکن وہاں کے عوام بالخصوص نوجوانوں نے بھی اس حکومت کو وہ ناکوں چنے چبوا ئے ہیں کہ وہ بھی کیا یاد کرے گی۔ یہ نوجوان تمام جمہوریت پسند قوتوں کو راستہ دکھا رہے ہیں کہ جب بھی کو ئی حکمران یا کوئی حکومت آپے سے باہر ہو جائے تو اسے کیسے سبق سکھانا چاہیے۔ شہریت کا نیا قانون مودی سرکار کے گلے پڑ گیا ہے۔ آثار تو یہی بتا رہے ہیں کہ آخر کار اس قانون کو واپس لینا ہی پڑے گا۔ جمہوریت پسند قوتوں کے لئے حوصلے کی بات یہ ہے کہ نئے قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں صرف مسلمان ہی شامل نہیں ہیں بلکہ ہندو بھی اس میں شریک ہیں۔ ہندوستان میں ہندو دانشوروں کا ایک بہت بڑا طبقہ جمہوریت پسندوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ اب یہ ہمارے سوچنے کی بات بھی ہے کہ کیا ہم ہندوستان کے ان بے باک اور صداقت پسند طبقوں سے کچھ سیکھ سکتے ہیں؟
اب آئیے اپنے رفتگاں کو بھی یاد کر لیں۔ اردو افسانے کی آبرو خالدہ حسین پچھلے سال ہمیں چھوڑ گئیں۔ انور سجاد بھی چلے گئے۔ شاعر حامد سراج بھی اس سال کی نذر ہو گئے۔ صدیقہ بیگم تو حال ہی میں ان جانے والوں میں شامل ہوئیں۔ اور اپنے انداز اور اپنی طرز کے واحد صحافی ظفر اقبال مرزا بھی تو ہمیں چھوڑ گئے۔ معروف مصنف‘ محقق اور ناقد ڈاکٹر جمیل جالبی اور اردو شاعری کو ایک نیا آہنگ عطا کرنے والے حمایت علی شاعر بھی سالِ گزشتہ میں ہم سے جدا ہو گئے۔ اب دیکھیے یہ نیا سال ہمیں اور کیا دکھاتا ہے۔