"MAC" (space) message & send to 7575

یہ ٹھیک نہیں ہے!

کیا ہمارے ملک میں کتابوں اور رسالوں پر پری سنسرشپ ہے؟ کیا ہمارے ملکی قانون کے تحت کسی کتاب پر پابندی لگائی گئی ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پیر کے دن کراچی میں فیض صاحب کے گہرے دوست ملک نورانی مرحوم کے اشاعتی ادارے مکتبہ دانیال پر چھاپہ کیوں مارا گیا؟ اور انگریزی ناول نگار محمد حنیف کے ناولA Case of Exploding Mangoes کے اردو ترجمے ''پھٹتے آموں کا کیس‘‘ کی تمام جلدیں دکان سے کیوں اٹھا لی گئیں؟ اور یہ کیوں معلوم کیا گیا کہ یہ کتاب پاکستان میں کس کس شہر اور کتابوں کی کس کس دکان پر بھیجی گئی ہے؟ کیا اس لئے کہ وہاں سے بھی یہ کتاب اٹھا لی جائے گی؟ یہ باتیں محمد حنیف اور ان کے ناول کا اردو ترجمہ کرنے والے سید کاشف رضا نے اپنے ٹویٹ میں بتائی ہیں۔ انہوں نے تو یہ بھی بتایا ہے کہ یہ چھاپہ مارنے والے اور کتابیں ضبط کرنے والے کون تھے‘ مگر ہم ان کا نام نہیں لینا چاہتے۔ اور آج کل کی اصطلاح کے مطابق انہیں نا معلوم افراد کہے لیتے ہیں۔ ایسے نا معلوم افراد جو اتنے نا معلوم بھی نہیں ہوتے۔ محمد حنیف کا انگریزی ناول بارہ سال پہلے چھپا تھا۔ یہ ایک طنزیہ ناول ہے۔ اس ناول میں حوالہ تو ایک واقعے کا ہے، لیکن دنیا بھر کے افسانوں اور ناولوں کی طرح باقی کہانی مصنف کے اپنے تخیل اور اپنے ذہن کی اختراع ہے۔ اسی کو فکشن کہتے ہیں۔ اسے اخباری واقعات پر مبنی کہانی نہیں کہا جا سکتا اور نہ اس میں واقعیت تلاش کی جا سکتی ہے۔ بارہ سال پہلے جب یہ انگریزی ناول چھپا تھا تو دنیا بھر میں اس کی خوب پذیرائی ہوئی تھی۔ اسے کسی مصنف کی پہلی کتاب کے طور پر کامن ویلتھ انعام ملا تھا اور روزنامہ گارڈین نے بھی اسے مصنف کی پہلی بہترین کتاب کا انعام دیا تھا۔ بہترین کتابوں پر عالمی انعام دینے والے ادارے بکر پرائز نے بھی اس کی خوبی کو تسلیم کیا تھا‘ اور اس سال کی بہترین کتابوں کی فہرست میں اسے شامل کیا تھا۔ اس ناول پر فلم بھی بننے والی تھی اور یہ بھی طے ہو گیا تھا کہ اس فلم کا ہیرو کون ہو گا‘ مگر معلوم نہیں کیوں وہ فلم نہیں بن سکی تھی۔ یہاں یہ ساری تفصیل بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عالمی ادب میں محمد حنیف اور ان کے اس ناول کا ایک مقام تسلیم کیا جا چکا ہے۔ محمد حنیف نے اس کے بعد دو ناول اور بھی لکھے‘ لیکن انہیں عالمی شہرت اسی ناول کی وجہ سے ملی ہے۔ 
اردو کے معروف شاعر اور ناول نگار سید کاشف رضا نے اس ناول کا اردو ترجمہ ''پھٹتے آموں کا کیس‘‘ کے نام سے کیا ہے۔ یہ ترجمہ پچھلے مہینے ہی چھپا ہے اور علمی اور ادبی حلقوں میں اسے پسند کیا گیا ہے۔ اب محمد حنیف اور کاشف رضا کہتے ہیں کہ اردو ترجمے کی اشاعت کے بعد مصنف محمد حنیف، ترجمہ کرنے والے سید کاشف رضا اور مکتبہ دانیال کی مالک حوری نورانی کو ہتک عزت کے قانونی نوٹس ملے تھے۔ چونکہ یہ قانونی معاملہ تھا اس لئے محمد حنیف، کاشف رضا اور اشاعتی ادارے کی مالک اس بارے میں اپنے وکیلوں سے مشورہ کر رہے تھے۔ ان کے فرشتوں کو بھی خیال نہیں تھا کہ قانونی نوٹس کے بعد ان کا یہ حشر بھی کیا جائے گا۔ قانونی نوٹس کے جواب کا انتظار کئے بغیر ہی کتابوں کی دکان پر چھاپہ مارا جائے گا اور وہاں موجود تمام کتابیں ضبط کر لی جائیں گی۔ شاید اب پاکستان بھر میں کتابوں کی دکانوں کی تلاشی بھی لی جائے گی۔ اب یہ کارروائی کون کرا رہا ہے؟ اور کون کر رہا ہے؟ اور کس قانون کے تحت کر رہا ہے؟ اس کی وضاحت کسی طرف سے بھی نہیں کی جا رہی۔ علمی اور ادبی حلقوں کے ساتھ تمام سوچنے سمجھنے والے سوال کر رہے ہیں کہ کیا اس ملک میں کوئی قانون نہیں ہے؟ اور اگر قانون ہے، اور یقینا اس ملک میں قانون موجود ہے، تو یہ کارروائی کس قانون کے تحت کی گئی ہے؟ 
لوگ تو یہ بھی سوال کر رہے ہیں کہ انگریزی ناول کی اشاعت کو بارہ سال ہو گئے ہیں۔ اگر اس پر کسی کو کوئی اعتراض تھا، اور اسے کسی کی ہتک سمجھا گیا تھا، تو اس وقت یہ سوال سامنے کیوں نہیں آیا؟ اور اس وقت قانونی کارروائی کیوں نہ کی گئی؟ اب اردو ترجمے کے بعد ہی اس کا خیال کیوں آیا ہے؟ اس کی وجہ آپ خود ہی سمجھ سکتے ہیں۔ یہ ہے انگریزی اور اردو قاری کا فرق۔ لیکن اس کے لئے کتابوں کی دکان پر چھاپہ مارنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس کے لیے قانونی راستہ کھلا تھا‘ اور جس کو بھی اس کتاب سے مسئلہ تھا‘ اس نے مصنف، مترجم اور ناشر کو قانونی نوٹس بھیج کر یہ راستہ اختیار بھی کر لیا تھا۔ اس کے بعدکیا ہوا کہ یہ اقدام کیا گیا؟ یہ بہتر نہ ہوتا کہ قانونی کارروائی مکمل ہونے کا انتظار کر لیا جاتا؟ کتابوں کی دکان پر چھاپہ مارنے، اور کتابیں ضبط کرنے والوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ اس طرح ساری دنیا ادھر متوجہ ہو جائے گی۔ اور یہ دنیا صرف پاکستان کی ہی دنیا نہیں ہے یہ بین الاقوامی دنیا ہے۔ کسی کتاب پر پابندی لگانا، یا کوئی کتاب ضبط کرنے کے لئے اس کے اشاعتی ادارے پر چھاپہ مارنا، اور پبلشر کو دھمکیاں دینا، علمی اور ادبی دنیا کا ایک عالمی مسئلہ بن جاتا ہے۔ کیا عالمی میڈیا یہ خبر آسانی سے ہضم کر لے گا؟ اور عالمی میڈیا جب یہ خبر اچھالے گا تو کیا پورے پاکستان کی بدنامی نہیں ہو گی؟ محمد حنیف صرف انگریزی ناول نگار ہی نہیں ہیں، وہ بی بی سی کے لئے اردو اور پنجابی میں کالم بھی لکھتے ہیں اور وہ ناول نگار کے ساتھ کالم لکھنے والے کی حیثیت سے بھی بہت مشہور ہیں۔ تو کیا یہ کارروائی جس نے بھی کی ہے اس نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ نہیں ڈال دیا ہے؟ ذرا ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے تھا۔ غصے، طیش اور اضطراری حالت میں جو کچھ کیا گیا‘ یہ پاکستان کے حق میں اچھا نہیں ہو گا۔ 
تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا میں جب بھی کسی کتاب پر پابندی لگائی گئی یا کسی کتاب پر اس طرح کے اضطراری رد عمل کا اظہار کیا گیا‘ تو اس کتاب کی مانگ بڑھ گئی۔ جو لوگ عام حالات میں ایسی کتاب نہ بھی پڑھنا چاہتے ہوں، وہ بھی تلاش کر کے یہ کتاب پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آ خر دیکھیں تو اس کتاب میں ہے کیا؟ اس کارروائی نے عام قاری کے تجسس میں اضافہ کر دیا ہے۔ پڑھنے والے کسی نہ کسی طرح اسے تلاش ہی کر لیں گے۔ 
اب ہم آپ کو مذکورہ بالا مکتبہ کے بارے میں بھی بتا دیں۔ یہ مکتبہ فیض صاحب کے دوست ملک نورانی مرحوم نے کراچی میں قائم کیا تھا۔ آج کل اس کا انتظام و انصرام ان کی صاحب زادی حوری نورانی چلا رہی ہیں۔ یہ ایک ترقی پسند اشاعتی ادارہ ہے۔ اس نے فیض صاحب، سید سبط حسن، افتخار عارف اور مشتاق احمد یوسفی جیسے ادیبوں اور دانشوروں کی کتابیں شائع کی ہیں۔ خیر، چھوڑیے اس بات کو۔ کوئی اشاعتی ادارہ ترقی پسند ہے یا غیر ترقی پسند، اس پر ایسی کارروائی ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔
لیجئے، ہم یہاں اپنا ایک واقعہ بھی بیان کر دیں۔ یہ بے نظیر کی حکومت تھی۔ ہمارے ادارے مشعل نے ایک کتاب چھاپی تھی۔ ایک دن ہمیں ایک ادارے کا فون آیا کہ وہ ہم سے ملنا چاہتے ہیں۔ ہم ان کے دفتر چلے گئے۔ بڑے اخلاق سے ہمارا استقبال کیا گیا۔ ہم سے سوال کیا گیا کہ آپ نے یہ کتاب کیوں چھاپی؟ ہم نے ان سے سوال کیا کہ کیا ہمارے ملک میں کتابوں وغیرہ پر پری سنسرشپ ہے؟۔ انہوں نے کہا ''سنسرشپ تو نہیں ہے‘‘ پھر ہم نے بتایا کہ یہ کتاب انگریزی میں پہلے چھپ چکی ہے۔ اس کے بعد ہم سے کو ئی سوال نہیں کیا گیا بلکہ ہمیں زبردست چائے پلائی گئی۔ صرف اتنا کہا گیا کہ ایسے نازک موضوع پر کچھ چھاپنے پہلے آپ کو احتیاط کرنا چاہیے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ یہ ہے قانونی طریقہ۔ کیا یہاں بھی یہی طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے تھا؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں