ٹامس ہارڈی کے ایک ناول میں انتساب کے صفحے پر لکھا ہے:Letter Killeth یعنی حرف یا لفظ قتل کرتا یا مار دیتا ہے۔ انسانی تاریخ میں لکھے ہوئے یا بے لکھے لفظ کی طاقت کا ثبوت بار بار ہمارے سامنے آتا رہا ہے۔ کتابوں پر پابندی لگائی جاتی ہے، نظموں اور غزلوں پر سزائیں دی جاتی ہیں۔ حکومتوں اور حکمرانوں کی طرف سے کتنی ہی مذہبی، علمی اور ادبی کتابوں پر پابندی لگائی گئی‘ اور کتنی ہی کتابوں پر مصنفوں کو سزائیں دی گئیں‘ مگر لفظ زندہ رہتا ہے۔ منٹو اور عصمت چغتائی کا قصہ تو ہمارے سامنے کا ہے۔ ان ممنوعہ کتابوں، افسانوں اور تحریروں پر مغرب میں تو بے شمار فہرستیں بنائی گئی ہیں لیکن پاکستان میں مصطفیٰ زیدی واحد شخص تھا جس نے ان تمام تحریروں کی فہرست مرتب کی تھی۔ یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب مصطفیٰ زیدی جہلم میں ڈپٹی کمشنر تھے۔ حسب عادت انہوں نے وہاں سے بھی ایک ادبی رسالہ نکالا تھا۔ نام تھا ''شب تاب‘‘۔ اس رسالے میں وہ اپنے معاصرین کے ساتھ تو دو دو ہاتھ کرتے ہی تھے، ایک شمارہ انہوں نے ممنوعہ کتابوں پر بھی شائع کیا تھا۔ افسوس یہ ہے کہ وہ شمارہ تو کیا، وہ رسالہ ہی اب کہیں نظر نہیں آتا۔ وہ شمارہ ہمارے پاس تھا لیکن خدا جانے ہماری لائبریری سے کون اٹھا کر لے گیا۔ اب ہم ڈاکٹر سعادت مہدی خان سے ہی توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہی کہیں سے اسے برآمد کر لیں گے۔ ڈاکٹر سعادت مہدی خان سے اس لئے کہ ان کا ایک ہسپتال تو لاہور میں بھی ہے لیکن وہ رہتے جہلم میں ہیں۔ امید ہے وہ جہلم کی کسی لائبریری میں اسے تلاش کر لیں گے یا تلاش کروا لیں گے۔ ڈاکٹر صاحب کتابوں کے رسیا ہیں۔ وہ خود ہی کتابیں نہیں پڑھتے بلکہ دوسروں کو بھی پڑھاتے رہتے ہیں۔ یہ ان کا صدقۂ جاریہ ہے۔ یہاں ہمیں محمودالحسن بھی یاد آ رہے ہیں کہ وہ بھی ہمیشہ پرانی کتابوں، یا نئی کتابوں کے پرانے نسخوں کی کھوج میں لگے رہتے ہیں۔ اور ہم عاصم کلیار کو تو بھو لے ہی جا رہے ہیں۔ وہ بھی نئی اور پرانی کتابوں کے شوقین ہیں۔ ان کی لائبریری بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ نصرت زیدی کو ہم اس لئے زحمت دینا نہیں چاہتے کہ وہ دھان پان انسان کہاں پریشان ہوتے پھریں گے لیکن 'شب تاب‘ کے وہ شمارے ادب کی ایسی تاریخ رکھتے ہیں‘ جن کا علم و ادب سے واسطہ رکھنے والے ہر شخص کوعلم ہونا چاہیے بلکہ اگر 'شب تاب‘ کا ممنوعہ کتابوں والا شمارہ مل جائے تو کوئی محنتی نوجوان آج تک کے حوالے سے اس میں اضافہ بھی کر سکتا ہے۔
آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہم نے یہ تمہید کیوں باندھی ہے۔ اب تک پتہ نہیں چلا کہ حوری نورانی کے مکتبے سے اٹھائی ہوئی کتابیں کہاں گئیں اور ان کا کیا حشر ہوا‘ لیکن ہم یہاں فیض صاحب کی اس نظم کا ذکر بھی کرنا چاہتے ہیں جس کا ہندوستان اور پاکستان‘ دونوں ملکوں میں بہت چرچا ہو رہا ہے۔ اس نظم نے سارے ہندوستان میں آگ لگائی ہوئی ہے۔ مودی سرکار نے ہندوستانی مسلمانوں کی شہریت مشکوک قرار دینے کے لئے جو نیا قانون بنایا ہے، اس کے خلاف اس ملک کے قریب قریب سارے ہی شہروں میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اس کے خلاف لڑکے لڑکیاں اور عورت مرد سب ہی سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ جامعہ ملیہ، علی گڑھ یونیورسٹی اور دلی کی جواہر لال یونیورسٹی میں ان نوجوانوں کے خلاف جو غنڈہ گردی کی گئی ہے، اس نے اس آگ کو اور بھی ہوا دی ہے۔ یوں تو اور بھی لکھنے والوں نے لکھا ہے، لیکن سب سے پہلے ہم نے اس طرف توجہ دلائی تھی کہ ہندوستان بھر کے ان احتجاجی مظاہروں میں جہاں حبیب جالب کی نظم ''میں نہیں جانتا میں نہیں مانتا‘‘ نوجوانوں کا ترانہ بن گئی ہے وہاں فیض کی نظم ''ہم دیکھیں گے‘‘ بھی ایک انقلابی نعرہ بن چکی ہے۔ لیکن یہ نظم وہاں اس لئے بھی اختلافات کا نشانہ بن گئی ہے کہ اس میں مسلمانوں کے استعارے استعمال کئے گئے ہیں۔ کانپور کے ایک پروفیسر صاحب نے تو اسے ہندو دشمن نظم قرار دے دیا تھا‘ لیکن وہاں اس نظم کے معنی سمجھانے والوں اور اس کی وضاحت کرنے والوں کی کمی بھی نہیں ہے۔ ابھی ہم وہاں کے ایک ٹیلی وژن چینل کا ویڈیو دیکھ رہے تھے۔ اس میں ایک صاحب بڑے سلیقے سے ہندی زبان میں اس نظم کا، اور خاص طور سے اس کے مشکل اردو، فارسی اور عربی الفاظ کا مطلب سمجھا رہے تھے اور بالکل صحیح مطلب سمجھا رہے تھے۔ وہ اپنی قوم کو سمجھا رہے تھے کہ یہ نظم تو آپ کے مطالبات کے حق میں ہے۔
اب یہاں ہم اپنے پڑھنے والوں کی فرمائش بھی پوری کر دیں تو اچھا ہے۔ یہ اصحاب فیض کی یہ نظم پڑھنا بھی چاہتے ہیں، اور کتاب کھول کر دیکھنا بھی نہیں چاہتے۔ اس لئے، لیجئے، وہ نظم پڑھ لیجئے۔ عنوان ہے ''ہم دیکھیں گے‘‘
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل پر لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پائوں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
جب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
اٹھے گا اناالحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
یہ نظم ضیاء الحق کے زمانے میں کہی گئی تھی اور اقبال بانو نے اپنی بے مثال آواز میں یہ نظم گا کر اسے امر بنا دیا ہے۔ اب بھی ہم اقبال بانو کی آواز میں یہ نظم سنتے ہیں تو جھرجھری سی آ جاتی ہے اور سارے بدن میں سنسنی سی دوڑ جاتی ہے۔
اب آپ کو حیرت نہیں ہونا چاہیے کہ ہندوستان میں اس نظم کی شہرت اور قبولیت کا یہ عالم ہے کہ اس ملک کی تقریباً ہر زبان میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے اور ہر زبان میں ہی کسی اچھی گانے والی نے اسے گایا ہے۔ کنڑی اور تیلیگو وغیرہ کا تو خیر، ایک لفظ بھی ہماری سمجھ میں نہیں آیا؛ البتہ بھوج پوری میں اس کا جو ترجمہ کیا گیا ہے اور جس دھن میں اسے گایا گیا ہے وہ کچھ کچھ ہمارے پلے پڑ جاتا ہے۔ پھر ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ اگر ہماری سمجھ میں نہیں آیا تو ہم اپنے پسندیدہ کالم نگار جاوید نقوی سے پوچھ لیں گے۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ ان کے گھر کی نوکرانیاں بھوج پوری بولتی تھیں۔ اور ہاں، ہمارے محترم شمیم حنفی صاحب بھی تو ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ وہ ماشاء اللہ ہفت زبان ہیں۔ اردو، ہندی اور انگریزی کے علاوہ اور بھی کتنی ہی زبانیں جانتے ہیں۔ ہم ان سے ہی معلوم کریں گے کہ کیا اس نظم کا بنگلہ زبان میں بھی ترجمہ ہوا ہے؟ ہم تو اب تک کلکتے کا وہ جلوس یاد کرتے ہیں جہاں ہم سب ''ہم ہوں گے کامیاب ہم ہوں گے کامیاب ایک دن‘‘ گاتے پھرتے تھے۔ یہ بہت پرانی بات ہے اور ہم پاک انڈیا فورم کی طرف سے دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان بھائی چارہ پیدا کرنے وہاں گئے تھے۔ اب تو ہم دعا ہی کر سکتے ہیں کہ خدا کرے دونوں ملکوں کے درمیان ایک بار پھر امن و آشتی کی فضا پیدا ہو جائے۔ دیکھ لیجئے وہ ہماری نظمیں گا رہے ہیں۔ اور ہماری نظموں کو اپنا سہارا بنا رہے ہیں۔ کاش تنگ نظری اور عدم برداشت کا منحوس سایہ ہمارے سر پر سے ہٹ جا ئے۔
اب ہم اس بحث میں پڑنا نہیں چاہتے کہ ہندوستان اور پاکستان‘ دونوں ملکوں میں انگریز حکمرانوں کے خلاف انقلابی نعروں سے لے کر آج تک جو بھی نعرے لگائے جاتے رہے ہیں وہ اردو کے ہی نعرے ہیں۔ بھگت سنگھ اردو نظم پڑھتا ہوا سولی چڑھ گیا۔ اس کے بعد بھی اردو کا سہارا لئے بغیر کوئی احتجاجی یا انقلابی نعرہ لگایا ہی نہیں جا سکتا۔