سب کا ذکر ہو رہا ہے ‘مگر اکبر الہٰ آبادی کسی کو یاد نہیں آرہے ہیں ۔انہوں نے تو پچھلی صدی کے شروع میں کہا تھا:؎
بوٹ ڈاسن نے بنایا میں نے ایک مضموں لکھا
ملک میں مضموں نہ پھیلا اور جوتا چل گیا
اب آ پ دیکھ لیجے ۔زبانی کلا می بات نہ بنی اور جو تا چل گیا۔ اب جتنے منہ اتنی باتیں۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ آپ اتنے پریشان کیوں ہو تے ہیں؟ وہ تو اپو زیشن سے یہ کہنا چا ہ رہے تھے کہ ہم ایک عرصے سے جو کام کرتے چلے آ رہے ہیں ‘اب وہ کام آپ نے کیوں کر لیا؟یعنی انہیں غصہ تھا اس با ت کا کہ آپ بھی وہی کام کر نے لگے ہیںجو ہم کر رہے تھے ۔ یہ ہم برداشت نہیں کر سکتے ۔لیجے ‘اب یہاں ایک اور محاورہ بھی یاد آ گیا۔ ؎
جس کا کام اسی کو ساجھے
اور کرے تو تو ''جوتا‘‘ باجے
معاف کیجے شعر میں ٹھینگا با جے کہا گیا ہے ‘لیکن یہاں اپنی ضروت کے مطابق ہم نے ٹھینگا با جے کی جگہ جو تابا جے لکھ دیا ہے کہ آج کا محاورہ یہی ہے‘ ہمیں نئے پاکستان کی نئی حکومت نے یہی سمجھایا ہے کہ بات کرو تو آج کے محاورے میں اور آج کا محاورہ وہی ہے‘ جو ایک ٹیلی وژن چینل کے سٹو ڈیو کی میز پر نظر آیا۔ اب میز پر بوٹ رکھنے والے کو تو کو ئی شر مندگی نہیں ہے کہ نئی نسل کے اس قبیلے نے کسی اچھی یا برُی بات پر شر مندہ ہو نا سیکھا ہی نہیں ہے ‘لیکن وہ اینکر صاحب شرمندہ ہیں‘جن کے پرو گرام میں یہ خوب پالش کیا ہوا چمکتا دمکتا بوٹ نظر آ یا ۔ اور یہاںان کی شر مندگی سمجھ میں بھی آ تی ہے‘ کیو نکہ ان سے سوال کیا جا رہا ہے کہ جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے پرو گرام میں شر کت کر نے والے ایک صاحب زادے اپنے ساتھ ایک بوٹ بھی لا ئے ہیں اور انہوں نے وہ بوٹ اپنے سامنے میز پر رکھ بھی دیا ہے تو کیا انہیں پرو گرام میں وقفہ نہیں کر دینا چا ہیے تھا؟ اور کیا انہیں ان صاحب زادے سے یہ در خواست نہیں کر نا چاہیے تھی کہ آپ یہ حر کت نہ کیجے‘ ورنہ پرو گرام نہیں ہو گا؟
اب کچھ لو گ تو کہہ رہے ہیں کہ آج کل ٹیلی وژن چینلز پر پرو گرام کی ریٹنگ بڑ ھانے کیلئے اس قسم کی حر کتیں نہ صرف بر داشت کر لی جا تی ہیں ‘بلکہ ان کی حو صلہ افزا ئی بھی کی جا تی ہے ‘لیکن ہم یہ بات نہیں مانتے ۔ہمارے خیال میں اپنے سامنے رکھا ہوا اتنا بھا ری بھرکم بوٹ دیکھ کر وہ اینکر صاحب بھی گھبرا گئے ہوں گے اور انہیں اس وقت تک اس غلطی کا احساس نہیں ہوا ہو گا‘جب تک اس پرو گرام میں حصہ لینے والے دو معزز مہمان وہاں سے اُٹھ کر چلے نہیں گئے ہو ں گے ‘لیکن پرو گرام تو اس کے بعد بھی چلتا رہا؟ کچھ لوگ یہ بھی سوال کر رہے ہیں۔
ہم نے عرض کیا نا کہ نئے پاکستان میں زبان کا محاورہ بدل گیا ہے ۔جو پہلے ناخوب تھا اب وہ خوب ہو گیا ہے۔اور وہ جو اخلاق‘آداب‘ تہذیب و شرافت اور شائستگی تھی ‘وہ اب ماضی کی داستان بن گئی ہے ۔ اب تو وہی خوب ہے جو ہم کہتے ہیں ۔ اور ہم وہ کہتے ہیں ‘جو ہمارے منہ میں آ جاتاہے۔جب ٹیلی وژن کے پرو گراموں میں اخلاق و آداب سے گر ی ہو ئی باتیں سنائی دیں گی اور باتوں باتوں میں تھپڑ اور طمانچوں کی نوبت آ جائے گی ‘ حتیٰ کہ اپنے مخالف کا سر پھوڑ نے کیلئے کر سیاں تک اٹھا لی جا ئیں گی تو پھرکہاں کا اخلاق اور کہاں کے ادب آداب رہ جا ئیں گے ؟ دھول دھپہ پہلے تو سراپا ناز کا شیوہ تھا‘اب سب کا یہی شیوہ ہو گیاہے ۔توکیا یہاںہمیں علامہ اقبالؔ کے ایک مصرع میں تھوڑی سی تر میم کر نے کی اجازت ہے؟علامہ نے تو مغل تاریخ کے کسی اور حوالے سے کہا تھا‘مگر یہاں ہم اسے ایک اور حوالے سے کہہ رہے ہیں ۔علامہ نے کہا تھا:ع
حمیت نام تھا جس کا‘ گئی تیمور کے گھر سے
اب اگر یہاں ہم تیمور کی جگہ اسی وزن کا کو ئی اور نام لکھ دیں تو ہمارا حشر وہ تو نہیں ہو گا ‘جو آج کل مخالفوں کا ہو رہا ہے ؟ آپ سمجھ گئے ہوں گے نا کہ ہم تیمو رکی جگہ اسی کا ہم وزن ایک اور نام کس کا لکھنا چا ہتے ہیں؟ اگر آپ کی سمجھ میں نہ آ رہا ہو تو ظفرؔ اقبال سے پوچھ لیجے ۔وہ دوسرے کالم نگاروں کے شعر وں کی غلطیاں درست کرتے رہتے ہیں‘یہاں وہ ہماری اور آپ کی مدد ضرور کریں گے اور وہ ہم وزن نام ضرور بتا دیں گے ‘ مگربھائی صاحب‘ سوال کر نے والے یہ بھی تو سوال کر رہے ہیں کہ یہ حمیت ومیت کیا ہو تی ہے؟اب تو سو سنار کی اور ایک لوہار کی والا معاملہ ہے ۔جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔کیا یہی آج کا محاورہ نہیں ہے ؟
یہاں تک لکھنے کے بعد ہمیں سچ مچ ڈر لگنے لگا ہے ۔ ہم سیاست کے پھٹے میں ٹانگ اڑانے سے ہمیشہ بھاگتے رہے ہیں ۔ اور اب تو رئوف کلاسرا ہمیں ڈرا رہے ہیں کہ عمران خاں کی کا بینہ کے اجلاسوں میںاور کو ئی مو ضوع زیر بحث آ ئے‘ نہ آ ئے میڈیاضرور زیر بحث آ تا رہتا ہے اور نہایت سنجیدگی کے ساتھ اس سنگین مسئلے پر سر کھپا یا جا تا ہے کہ اس بے نتھے بیل کی ناک میں نتھ کیسے ڈالی جا ئے ۔ان کے خیال میں یہ بے نتھا بیل صرف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہی نہیں ہے ‘بلکہ سوشل میڈیا بھی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا تو بالکل ہی بے قابو ہو گیا ہے ‘اس پر تو جس کا جو جی چا ہے وہ لکھتا چلا جا تا ہے ‘لیکن وہ یہ بھول جا تے ہیں کہ اسی سوشل میڈیا پر ان کے حواری موالی بھی تو مو جود ہو تے ہیں ‘ بلکہ اپنی عادت کے مطا بق سوشل میڈیا پر بھی یہ حوالی موالی جو زبان استعمال کرتے ہیںاسے پڑھ کر تو کانوں سے دھواں نکلنے لگتا ہے ۔
اور پھر وہی سوال‘کہ جسے اظہارِ رائے کی آزادی کہتے ہیں وہ کس چڑیا کا نام ہے ؟ اور کس پیڑ پر رہتی ہے؟ ٹیلی وژن کے ٹاک شوز میں باتیں کر نے والوں کی اچانک آواز بند ہو جا تی ہے‘ اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ بہر حال ہم توڈرتے ہی رہتے ہیں۔ڈرتے رہتے ہیں اس لیے کہ ہم ضیا ء الحق کے زمانے میں بڑی کاری چوٹ کھا چکے ہیں۔ سچ چھاپنے پر ملتان سے نکالے گئے اورمارشل لا اُٹھانے کا مطالبہ کر نے پر نوکری سے ہی نکالے گئے تھے۔ دو تین سال ہم نے بے روز گاری میں گزارے تھے۔اب ہم میں اور کشٹ اٹھانے کی ہمت نہیں ہے ۔
ہم نے شروع میں ڈاسن کے بوٹ کاذکر کیا ہے۔یہ ڈاسن کون تھا؟ اور اس کے بوٹ کیسے تھے؟ یہ معلوم کر نے کیلئے ہم نے سید قاسم جعفری سے رجوع کیا۔ جعفری صاحب ہماری قدیم و جدید تاریخ کے امین ہیں ۔بلا کا حا فظہ پا یا ہے انہوں نے۔ جو چیز بھی آپ کو یاد نہ آ ئے آپ ان سے معلوم کر لیجے۔ہم نے ان سے معلوم کیا کہ یہ ڈ اسن کے بوٹ کیسے ہوتے تھے ؟ انہوں نے بتایا کہ یہ گر گابی کی طرح ہو تے تھے۔ اب آج کی نسل تو گر گابی کو بھی نہیں جانتی ہو گی ۔آج جسے ہم مو کیشن کہتے ہیں‘ اسی انداز کی گر گابی ہوتی تھی ‘البتہ اس کا چمڑا پیٹنٹ اور چمک دار ہوتا تھا اور اس کے اوپر نیکٹائی والی'' بو‘‘ لگی ہو تی تھی۔ بعض صاحبِ ذوق اصحاب یہ گر گابی آج بھی استعمال کرتے ہیں۔قاسم جعفری صاحب نے ایسی ہی ایک گر گابی انتظار حسین کیلئے بھی بنوا ئی تھی ۔انتظار حسین اسے بڑے شوق سے پہنتے تھے ۔
لیجے ہم کہاں سے چلے تھے اور کہاں پہنچ گئے ۔ہم تو یہ کہہ رہے تھے کہ یہ جو میڈیا ہے ان کے خیال میں یہ بے نتھا بیل بن گیا ہے ۔اس لیے اس بے نتھے بیل کی ناک میں نتھ ڈالنے کی تدبیریں سو چی جا رہی ہیں۔ اب آ خر میں اکبر الہ آ بادی کا شعر ایک بار پھر پڑھ لیجے۔؎
بوٹ ڈاسن نے بنایا‘میں نے اک مضموں لکھا
ملک میں مضموں نہ پھیلا اور جو تا چل گیا