''میں نے اجنبی کو غور سے دیکھا‘ پھر پوچھا: تم چاہتے ہو، میں تمہاری ماں کو تلاش کروں؟‘‘ ''ماں نہیں ماتا۔ ماں اور ماتا میں فرق ہوتا ہے۔ ماتا غائب ہوئی ہے‘‘ اس شخص نے جواب دیا۔
ہم ماں اور ماتا کے فرق پر آگے چل کر بات کریں گے۔ فی الحال اپنے سامنے کے ایک مسئلے پر بات کر لیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے کرکٹ میچز بخیر و خوبی انجام کو پہنچے۔ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ کون جیتا اور کون ہارا۔ ہماری غرض اور ہماری خوشی تو یہ ہے کہ برسوں کے بچھڑے پھر مل گئے۔ اب ہم سوچ رہے ہیں کہ راستہ کھل گیا ہے اور امید ہے‘ ملنے ملانے کے وسیلے اور بھی سامنے آتے رہیں گے۔ کہا جاتا ہے ناں کہ مومن کسی سے تین دن سے زیادہ ناراض نہیں رہتا۔ اب ہم یہاں اپنے حاکموں کی توجہ ایک اور جانب بھی مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ یہ جو لاہور میں غیر ملکی ٹیموں کے ساتھ پاکستان کے میچ ہوتے ہیں، وہ تو ہمارے لئے خوشی کا پیغام لے کر آتے ہیں کہ ایک افسوسناک واقعے نے جو پاکستان کو باقی دنیا سے الگ تھلگ کر دیا تھا، اور ہم اپنے اندر ہی محصور ہو کر رہ گئے تھے، بالآخر وہ حصار ٹوٹ گیا ہے اور باقی دنیا ہماری جانب متوجہ ہونے لگی ہے لیکن غیر ملکی ٹیموں کے ساتھ جتنے دن بھی پاکستان کے یہ میچ ہوتے ہیں، ان دنوں میں لاہور ایک محصور شہر بن جاتا ہے۔ میچ ہوتے ہیں قذافی سٹیڈیم میں، مگر گلبرگ سے لے کر ایک طرف چھائونی اور دوسری طرف گارڈن ٹائون تک ساری سڑکیں بند ہو جاتی ہیں۔ اس وجہ سے صرف چند سڑکوں پر اتنا ہجوم ہو جاتا ہے کہ دس پندرہ منٹ کا راستہ کئی کئی گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ ان راستوں کے دکان دار بھی رونے لگے ہیں کہ ان کی دکانیں بھی بند کرا دی جاتی ہیں۔ مان لیا کہ سری لنکا کی ٹیم کے ساتھ جو ہوا اس کے بعد سکیورٹی کا سخت انتظام واقعی بہت ضروری ہے، لیکن کیا اس کے لئے ایسا انتظام نہیں کیا جا سکتا کہ لاہور کے شہریوں کو پریشانی نہ ہو، اور حفاظت کا پورا پورا انتظام بھی ہو جائے؟ دنیا بہت ترقی کر گئی ہے اور حفاظتی تدابیر بھی کہیں سے کہیں پہنچ چکی ہیں۔ اس لئے ہمارے سکیورٹی اداروں کو غیر ملکی کھلاڑیوں کے ساتھ لاہور کے شہریوں کا لحاظ بھی کرنا چاہیے۔ ان غریبوں نے کیا گناہ کیا ہے کہ جب تک میچ ہوتے رہیں وہ ایک طرح کے حصار میں ہی گھرے رہیں۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ اس کا کوئی متبادل راستہ تلاش کیا جائے؟؟
یہاں یہ حفاظتی یا سکیورٹی انتظامات ہمیں اس لئے بھی یاد آئے کہ فروری میں PSL کے میچ شروع ہونے والے ہیں اور جن دنوں یہ میچ ہوں گے انہی دنوں لاہور لٹریری فیسٹیول بھی ہونے والا ہے۔ اس فیسٹیول میں پاکستان کے تمام علاقوں سے اور تمام زبانوں کے ساتھ دنیا بھر کے نامور ادیب اور دانشور بھی شریک ہوتے ہیں۔ ان مہمانوں کے ٹکٹ مہینہ ڈیڑھ مہینہ پہلے ہی بک کرا دیئے جاتے ہیں۔ گویا ان مہمانوں کے ٹکٹ پہلے ہی ان تک پہنچ چکے ہیں۔ ہمارے ایک دوست پریشان تھے کہ اگر PSL کے لئے بھی ایسے ہی حفاظتی انتظام کئے گئے جیسے اب تک کئے جاتے رہے ہیں تو کہیں لاہور لٹریری فیسٹیول کے لئے مشکلیں پیدا نہ ہو جائیں۔ میچ تو ہوں گے قذافی سٹیڈیم میں، لیکن سابقہ روایت کے مطابق اگر دور دور تک سڑکیں بند ہو جائیں گی تو علم و ادب کے شائقین الحمرا آرٹس کونسل تک کیسے پہنچ سکیں گے؟ ان کا خدشہ کسی حد تک درست معلوم ہوتا ہے لیکن ہم نے انہیں سمجھایا کہ کرکٹ کے میچ تو شام کو ہوا کریں گے‘ اور لٹریری فیسٹیول کے تمام اجلاس صبح دس بجے شروع ہو کر شام کو چھ سات بجے تک ختم ہو جاتے ہیں اور پھر ان دونوں کے راستے بھی الگ الگ ہیں۔ اس لئے کوئی بھی تقریب دوسری تقریب کے لئے رکاوٹ نہیں بنے گی۔ یہ باتیں ہم اپنے دوست کو ہی نہیں سمجھا رہے تھے بلکہ دوست کی وساطت سے اپنے حکام کو بھی سمجھانا چاہ رہے ہیں کہ دونوں تقریبیں کسی پریشانی کے بغیر منعقد ہو سکتی ہیں۔ کرکٹ میچ دیکھنے والے قذافی سٹیڈیم جائیں گے اور جنہیں علم و ادب کے کیڑے نے کاٹا ہے وہ الحمرا ضرور پہنچیں گے۔ یہ ساری باتیں ہم اس لئے کر رہے ہیں کہ پچھلے چند برسوں میں کئی بار ایسا بھی ہوا کہ اس لٹریری فیسٹیول کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے۔ آخرکار، بڑی تگ و دو کے بعد اسے الحمرا میں اپنا جشن منانے کو موقع ملا ہے اور یہی ہمارا ایسا ادبی جشن ہے جو لاہور کے علاوہ لندن اور نیو یارک میں بھی منایا جاتا ہے۔ یعنی اس فیسٹیول کے ذریعے ہمارے ادب اور ادبی مباحث کی گونج پاکستان سے باہر بھی زور شور سے سنائی دیتی ہے۔ اس لئے ہمیں یقین ہے کہ اسی لاہور شہر میں کر کٹ میچ بھی ہوں گے اور لاہور لٹریری فیسٹیول بھی ہو گا اور اس کے لئے تمام سہولتیں پنجاب اور لاہور کے حاکم ہی مہیا کریں گے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ یہ دونوں تقریبیں دنیا کے سامنے پاکستان کا روشن چہرہ ہی پیش کرتی ہیں۔ تو کیا ہماری توقع بجا ہے؟ یہ پنجاب کی انتظامیہ سے ہمارا سوال ہے۔
اب آ جائیے ماں اور ماتا کے فرق پر۔ یہ ادب ہی ہے جو کسی بھی معاشرے کو اس کی گہرائی اور گیرائی کے ساتھ پوری طرح سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ ہندوستان میں ان دنوں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس کے اپنے اور باہر کے میڈیا کے ذریعے تو ہم تک پہنچ ہی رہا ہے‘ لیکن اب وہ ادب، اور خاص طور سے اردو ادب کا موضوع بھی بن رہا ہے۔ مشرف عالم ذوقی ہندوستان میں اردو کے بہت ہی پڑھے جانے والے افسانہ نگار ہیں۔ ان کا ایک ناول حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ نام ہے ''تواریخ سے پرے ایک دنیا کی جاسوسی‘‘۔ اس ناول میں جس دنیا کا نقشہ پیش کیا گیا ہے وہ آج کے ہندوستان کی دنیا ہے۔ وہ دنیا جہاں انسان سے زیادہ ایک جانور کی قدروقیمت ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ عقیدے کا مسئلہ ہے اور اندھا عقیدہ انسان سے کچھ بھی کرا سکتا ہے۔ لیکن جہاں ایک جانور کیلئے بے گناہ انسانوں کا خون بہایا جاتا ہے وہاں احتجاج تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ اس ناول میں ماں اور ماتا کا جو فرق بیان کیا گیا ہے، وہی اس ناول کا موضوع ہے۔ ماں تو کوئی بھی ایسی عورت ہو سکتی ہے جس نے انسان کو جنم دیا ہے‘ لیکن ہندوستان میں ماتا ایک ہی ہے اور وہ ہے مقدس گائے۔ اس ماتا کے لئے انسان کی قربانی بھی جائز ہے اور آج کے ہندوستان میں انسان یہ قربانی دے بھی رہا ہے۔ اس ناول کا کچھ حصہ اپنے مبین مرزا کے رسالے ''مکالمہ‘‘ میں شائع ہوا ہے۔ اتنا حصہ ہی پڑھ کررونگٹے کھڑے ہو جا تے ہیں۔ اور جسم پر کن سلائیاں سی رینگنے لگتی ہیں ۔ ہم تو سمجھتے تھے کہ ہندوستان میں اردو افسانے اور ناول لکھنے والے ابھی تک علامتوں استعاروں اور تجریدیت کے گورکھ دھندے سے باہر نہیں نکلے ہیں، لیکن اس ناول نے ثابت کیا ہے کہ وہاں کا ناول نگار اپنے ظالمانہ معاشرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر صاف لفظوں میں اس سماج کا تانا بانا ادھیڑ رہا ہے۔ ناول میں جس دنیا اور جس معاشرے کا نقشہ پیش کیا گیا ہے اسے علی گڑھ یونیورسٹی کے پروفیسر اور اردو کے معتبر نقاد شافع قدوائی dystopia کہتے ہیں۔ ایسی ریاست یا ایسا معاشرہ جہاں انسان ظلم و جبر کی چکی میں پس رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں utopia ہوتی ہے‘ ایک ایسی مثالی دنیا جہاں انسان جنت کا مزہ لیتا ہے۔ ان کے خیال میں اس ناول کی دنیا ایک dystopia ہی ہے۔ وہ صحیح فرماتے ہیں بلکہ وہاں شہریت کا جو نیا قانون نا فذ کیا گیا ہے اس نے تو اس معاشرے کو بالکل ہی ظلم و جبر کا معاشرہ بنا دیا ہے۔ لیکن اس قانون کے خلاف وہاں ہر سطح پر احتجاج بھی کیا جا رہا ہے اور سب سے زیادہ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اس احتجاج کی قیادت نوجوان طبقہ اور وہاں کی عورتیں کر رہی ہیں۔ ادھر دنیا بھر میں بھی اس پر اعتراض کیا جا رہا ہے۔ اس لئے شاید اس قانون پر نظر ثانی ہو جائے‘ لیکن جہاں تک ماں اور ماتا کا تعلق ہے وہاں ماتا بہرحال ماتا ہی رہے گی۔