آج کل پیرزادہ قاسم کا یہ شعر ہمیں بہت یاد آ رہا ہے؎
اب کام نہیں کوئی، جز کار عزاداری
جب رو لئے جی بھر کے، پھر رونے کی تیاری
ابھی ایک آفت پر ہمارا رونا ختم نہیں ہوتا کہ دوسری آفت پر رونے کی تیاری شروع ہو جاتی ہے۔ آج کل حالت یہ ہے کہ اگر آپ کسی کے گھر جائیں تو اندر داخل ہوتے ہی صاحب خانہ ہرے رنگ کے محلول سے بھری بوتل لے کر نمودار ہوتے ہیں اور ہاتھ ملانے کے بجائے، پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ آپ کے دونوں ہاتھوں پر وہ دوا چھڑک دیتے ہیں۔ اسے سینی ٹائزر کہا جاتا ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ آج کل ساری دنیا جس وبا کے ہاتھوں بلبلا رہی ہے، انسان نے ابھی اس کا کوئی علاج دریافت نہیں کیا ہے۔ اس سے بچنے کے لئے صرف احتیاط ہی کی جا سکتی ہے اور یہ سینی ٹائزر اسی احتیاط کا حصہ ہے۔ ہمیں سمجھایا جا رہا ہے کہ بار بار صابن سے اپنے ہاتھ دھوتے رہو اور کسی ایسی جگہ جانے سے گریز کرو جہاں لوگ زیادہ ہوں بلکہ بھیڑ بھاڑ سے بچو۔ کسی سے ہاتھ نہ ملائو۔ دور سے ہی سلام کر لو۔ بہتر یہی ہے کہ اپنے گھر کے اندر ہی بند رہو۔ اب تو دفتر اور بازار بھی بند کئے جا رہے ہیں۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟ اس 'کیا ہو گا‘ کا علاج ہمارے پڑھے لکھے دوست یہ بتا رہے ہیں کہ گھر میں آرام سے بیٹھ کر کتابیں پڑھو، اچھے اچھے گانے سنو اور ٹیلی وژن پر فلمیں دیکھو اور بھول جائو کہ باہر کیا ہو رہا ہے۔ ہمارے افسانہ نگار، نقاد اور ادب کے استاد آصف فرخی نے تو ان کتابوں کے نام بھی گنوا دئیے ہیں جو مختلف زمانوں میں پھیلنے والی وبائوں کے حوالے سے دنیا بھر کی زبانوں میں لکھی گئی ہیں۔ ان میں ڈپٹی نذیر احمد کا ناول ''توبۃالنصوح ‘‘ بھی شامل ہے ۔ بلکہ اردو میں جو ہیبت ناک افسانے اور ناول لکھے گئے ہیں، انہوں نے انہیں بھی اس فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ یوں تو ہم پہلے ہی ڈاکٹر آصف فرخی کے تبحر علمی کے بہت قائل ہیں، لیکن انہوں نے ان جان لیوا وبائوں کے حوالے سے دنیا بھر میں لکھے جانے والے ناولوں اور افسانوں کا جو تعارف کرایا ہے اس نے تو ہمیں چاروں شانے چت کر دیا ہے۔ ماشا اللہ کیا علمی تبحر ہے اور کیا حافظہ ہے، ہم تو صرف 'اللہم زد فزد‘ ہی کہہ سکتے ہیں یا پھر ''ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ ناولوں کے اس تعارف سے ڈاکٹر آصف فرخی کا مقصد تو محض یہ بتانا ہے کہ مختلف زمانوں میں دنیا بھر میں جو وبائیں پھوٹتی رہی ہیں، ان پر مختلف زبانوں کے ناول اور افسانہ نگاروں نے کیا لکھا ہے اور کس طرح انہیں اپنے ناولوں اور افسانوں کا موضوع بنایا ہے‘ لیکن ہم اسے اور آگے بڑھاتے ہیں اور کورونا وائرس سے بچنے کے لئے گھروں میں بند ہو جانے والے اپنے احباب کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ گھر میں خالی نہ بیٹھو اور ڈاکٹر آصف فرخی کی بتائی ہوئی کتابیں پڑھو۔ اس طرح آپ اس وبأ سے بھی بچ جائیں گے اور آپ کے علم میں اضافہ بھی ہو گا۔ آپ کو یہ بھی علم ہو جائے گا کہ ہمارے اپنے اور دنیا بھر کے ادیبوں نے ان وبائوں سے کتنا عظیم ادب پیدا کیا ہے۔
لیجئے، ابھی یاد آیا کہ لندن کے اخبار ''گارڈین‘‘ نے بھی وہی کام کر دیا ہے جس کا مشورہ ہم اپنے احباب کو دے رہے ہیں۔ کورونا وائرس سے بچنے کے لئے گھروں میں بند ہو جانے والے لوگوں کے لئے اس اخبار نے بھی ان کتابوں کی فہرست شائع کی ہے جو اس کے خیال میں انہیں پڑھنا چاہئیں۔ اس اخبار نے بھی صرف ان ناولوں کی فہرست ہی شائع نہیں کی بلکہ اپنے آصف فرخی کی طرح اس نے ان کتابوں کا تفصیل کے ساتھ تعارف بھی کرایا ہے۔ ظاہر ہے یہ ناول انگریزی کے ہیں اور ان ناولوں سے بالکل مختلف ہیں جن کی فہرست ڈاکٹر آصف فرخی نے شائع کی ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ یہ جو چین سے کورونا وائرس وبا کی شکل میں نازل ہوا ہے، اس نے ہمیں اپنے علم میں اضافہ کرنے کا موقع بھی فراہم کر دیا ہے۔ تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ''عدو شرے بر انگیزد کہ خیر ما در آں باشد‘‘ یعنی دشمن نے ہمارے لئے جو شر پیدا کیا ہے اس میں ہماری بھلائی بھی چھپی ہوئی ہے؟
اس وبا نے ہمارے لئے جہاں خوف و دہشت کی فضا پیدا کی ہے وہاں کہیں کہیں تفنن طبع کا سامان بھی مہیا کر دیا ہے۔ اس کی مثال ایک واقعہ ہے‘ جو انگریزی کے نہایت ہی مؤقر اخبار کے اتنے ہی معتبر ریذیڈنٹ ایڈیٹر نے اپنے کالم میں بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے پنجاب کے وزیر اعلیٰ اس وبا کے بارے میں ایک اجلاس کی صدارت فر ما رہے تھے۔ اجلاس کے شروع میں ہی انہوں نے نہایت بھولپن اور اتنی ہی معصومیت سے اس اجلاس میں مو جود افسروں سے سوال کیا '' یہ کورونا کاٹتا کیسے ہے؟‘‘ یہ سوال سن کر ان افسروں پر کیا گزری ہو گی؟ یہ تو وہی جانتے ہوں گے۔ ہم تو صرف یہ عرض کرنا چاہ رہے ہیں کہ دیکھ لیجے، یہ ہیں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے سب سے بڑے اور عمران خان کے چہیتے وزیر اعلیٰ۔ ہم نے عرض کیا ناں کہ یہ ہم اپنی طرف سے نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ وہ نقل کر رہے ہیں جو اس اخبار میں چھپا ہے اور جو ہم نے پڑھا ہے۔ اس کا گناہ و ثواب لکھنے والے کے سر۔ ہم تو صرف نقل کر رہے ہیں۔
ادھر یار دوستوں نے اس ہولناک وبا میں تفریح کے پہلو بھی نکال لئے ہیں۔ کسی نے ایک بہت ہی پرانی ہندوستانی فلم کے ایک منظر کی ویڈیو بھیجی ہے۔ اس منظر میں اپنے زمانے کی مشہور فلمی رقاصہ ککو چند اور لڑکیوں کے ساتھ ناچ رہی ہے اور بیک گرائونڈ میں گانا چل رہا ہے ''کیجیے نظارہ دور دور سے‘‘۔ ثابت ہوا کہ ہم منہ بسورنے والی قوم نہیں ہیں بلکہ خوف ناک سے خوف ناک صورت حال میں بھی ہماری حس مزاح برقرار رہتی ہے۔ اب یہاں ہم ان تماشوں کا ذکر نہیں کریں گے جو ہندوستان میں ہو رہے ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ وہاں کورونا وائرس کی وبا سے بچنے کے لئے گائے کا پیشاب پیا جا رہا ہے اور ٹویٹر پر ان محفلوں کی تصویریں بھیجی جا رہی ہیں‘ جہاں موجود سب لوگ مٹی کے کوزوں میں بھر کر پی رہے ہیں۔ وہاں با قاعدہ اشتہار دئیے جاتے ہیں کہ فلاں تاریخ کو فلاں جگہ یہ چیز پینے کی محفل ہو گی اور وہاں جوق در جوق لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ کہتے ہیں وہاں گائے کا گوبر بھی کھایا جا رہا ہے لیکن اس کی ہم تصدیق نہیں کر سکتے کیونکہ اس کی تصویریں ہمیں نہیں ملی ہیں اور ہم ان کا مذاق بھی نہیں اڑا سکتے کہ یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ جب ان کا ایک وزیر اعظم خود اپنا پیشاب ہی پیتا تھا تو اس سلسلے میں اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ وہاں گائے کا بول بازار میں فروخت بھی ہو رہا ہے۔
اب آخر میں عمر رسیدہ بزرگوں کے لئے ایک حوصلہ افزا خبر۔ لندن میں ایک سو سال کے ایک صاحب نے ساٹھ پینسٹھ سال کی ایک خاتون سے شادی کی ہے۔ یہ صاحب ہیں یاور عباس، جو کسی زمانے میں بی بی سی پر اردو میں خبریں پڑھا کرتے تھے اور ان کی دلہن ہیں ہماری جانی پہچانی نور ظہیر جو سید سجاد ظہیر کی صاحب زادی ہیں۔ ظاہر ہے سجاد ظہیر کو تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔ کمیونسٹ پارٹی کے رہنما اور اردو کے ممتاز ادیب۔ نور ظہیر پاکستان بھی آتی رہی ہیں۔ کئی کتابوں کی مصنف ہیں۔ یہ شادی کورونا وائرس کی وبا کے دنوں میں ہی ہوئی ہے اور جلدی جلدی اس لئے ہوئی ہے کہ کہیں لندن میں بھی گھروں سے باہر نکلنے پر پابندی نہ لگا دی جائے؛ تاہم خبر میں یہ تو بتایا گیا ہے کہ یاور عباس ایک سو سال کے ہیں لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ انہوں نے پہلے بھی کوئی شادی کی تھی؟َ اور اگر شادی کی تھی تو کیا ان کے بچے بھی ہیں؟ اگر بچے ہیں تو ظاہر ہے کافی بڑے بڑے ہوں گے۔ اس سوال کا جواب ہمیں اپنے افتخار عارف صاحب سے مل سکتا ہے۔ یاور عباس صاحب کا تعلق بھی لکھنئو سے ہے اور افتخار عارف نے لندن میں بھی کافی وقت گزارا ہے۔ ظاہر ہے وہ یاور عباس کو اچھی طرح جانتے ہوں گے۔