ہماری بات چیت میں عام طور پر کسی شخص کا ذکر آتا ہے تو ہم سوال کرتے ہیں ''وہ کیا ہیں؟ یعنی ان کی خوبیاں کیا ہیں؟‘‘ لیکن ہمارے درمیان ایک صاحب ایسے بھی ہیں جن کا ذکر آتا ہے تو وہ سوال یہ شکل اختیار کر لیتا ہے کہ ''وہ کیا نہیں ہیں؟‘‘ یعنی ان کی کن کن خوبیوں کو یاد کیا جائے؟ زمان خاں ایسی ہی شخصیتوں میں سے ایک ہیں۔ وہ طالب علم لیڈر رہے‘ مزدور یونینوں کے فعال کا رکن رہے، مزدور کسان پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی مجلس عاملہ کے رکن رہے‘ جیلیں بھی کاٹیں‘ اخبار نویسی بھی کی اور انسانی حقوق کی تنظیم کے بانی ارکان میں بھی شامل رہے۔ ان کا آخری ٹھکانہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ہی ٹھہرا اور ایک طویل عرصہ گزار کر وہاں سے ریٹائر ہوئے۔ ان کی ان بے تحاشا سرگرمیوں سے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آج کل امریکہ میں ایک سیاہ فام امریکی باشندے کے قتل کے خلا ف اس ملک کے مختلف شہروں سے یورپ تک جو طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے اگر زمان خاں وہاں ہوتے تو وہ وہاں بھی جھنڈا اٹھائے سب سے آ گے نظر آتے۔ زمان خاں ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جن کے بارے میں دوسرے بتائیں کہ وہ کیا نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنی دو کتابوں میں خود ہی ظاہر کر دیا ہے کہ وہ کیا ہیں یا کیا نہیں ہیں‘ اور یہ ظاہر کیا ہے مشہور و معروف شخصیتوں کے انٹرویوز میں۔ اگر میں یہ کہوں کہ زمان خاں ہر شعبے کی مشہور و معروف شخصیتوں کے انٹرویو لینے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ حالت یہ ہے کہ کوئی بھی ملکی یا غیر ملکی مشہور و معروف شخصیت ان کے سامنے آ جائے تو وہ اس کا انٹرویو ضرور کر لیتے ہیں‘ اور ان کا یہ انٹرویو عام اخباری انٹرویو کی طرح کا نہیں ہوتا بلکہ وہ شخصیت جس موضوع یا جس مضمون میں بھی شہرت رکھتی ہے‘ زمان خاں اس کے افکار و خیالات کا ست نکال کر رکھ دیتے ہیں۔ اس وقت میرے سامنے ان کی جو ضخیم انگریزی کتاب ہے، اس کا نام ہے Alternative Vision: Voices Of Reason. اس کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: ادب، تاریخ اور انسانی حقوق اور سیاست۔ ادب میں ہماری ملاقات امرتا پریتم، عبداللہ حسین، ن م راشد‘ افضل حسین رندھاوا، انجم سلیم، ڈاکٹر ارشد وحید، فخر زمان، سندھی ادیب ابراہیم جویو، افتخار نسیم، انتظار حسین، کشور ناہید، پنجابی ادیب ڈاکٹر منظور اعجاز، مہر افشاں فاروقی، نسرین انجم بھٹی، بنگالی ادیب پروفیسر نیاز زماں، ریختہ والے سنجیو صراف‘ اپنے ناقد اور شاعر شمیم حنفی اور شمس الرحمن فاروقی سے ہوتی ہے۔ انہی ادیبوں اور شاعروں میں وہ اپنے فیصل آباد کے بیٹے نصرت فتح علی خاں کو بھی نہیں بھو لے۔ نصرت فتح علی خاں اور ان کے نغمے لکھنے والے۔ وہ بھی ان شخصیتوں میں شامل ہیں۔
تاریخ میں زمان خان ہمیں ڈا کٹر مبارک علی، پروفیسر علی نوبیل احمد، پروفیسر انوار سید، مغل دور اور سنسکرت کے سکالر آندرے ترشکے، ہندوستانی مؤرخ پروفیسر بلویر اروڑا، سی آر ابرار، حمزہ علوی، ہربنس مکھیا (جو تاریخ کے ساتھ اردو شاعری کا شوق بھی رکھتے ہیں) پروفیسر اشتیاق احمد۔ پروفیسر کے کے عزیز، سری لنکا کے سکالر سر ونموٹو اور زمان خاں کی پسندیدہ مؤرخ رومیلا تھاپر وغیرہ شامل ہیں۔ رومیلا تھاپر کئی بار پاکستان آئی ہیں اور جب بھی یہاں آئیں زمان خاں کو فکری اور تاریخی طور پر کچھ نہ کچھ دے کر ہی گئیں۔ ان کے علاوہ سندھی اور بلوچی رہنمائوں کے انٹرویوز بھی یہاں موجود ہیں۔ ان سے آپ ان علاقوں کی سیاست سے بخوبی واقف ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی طرف ہماری توجہ بہت کم ہی جاتی ہے۔ زمان خاں ہمیں ان علاقوں اور ان علاقوں کی سیاست تک لے جاتے ہیں اور بلا کم و کاست ان کی باتیں ہم تک پہنچاتے ہیں۔
انسانی حقوق اور سیاست میں آ جائیں۔ یہاں ہمیں عاصمہ جہانگیر، اعتزاز احسن سے لے کر نسیم ولی خاں، قاضی حسین احمد اور مزدور رہنما میرزا ابراہیم تک کافی لوگ نظر آتے ہیں‘ بلکہ کسی بھی اہم سیاست داں کا نام لیجئے، وہ یہاں موجود ہے۔ اب آخر میں طارق علی کا ذکر بھی ہو جائے۔ پچھلے دنوں وہ پاکستان آئے ہوئے تھے۔ وہ پاکستان آئیں اور بائیں بازو کی سیاست کے بارے میں ان سے کوئی بات نہ ہو؟ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا ۔کئی اور لو گوں نے بھی ان کے انٹرویو کئے مگر زمان خاں ان میں سب سے زیادہ تجربہ کار انٹرویو کرنے والے ہیں۔ انہوں نے طارق علی سے صرف پاکستان کی سیاست پر ہی بات نہیں کی بلکہ پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات پر بھی تفصیل کے ساتھ بات کی۔ پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات اس لئے ان جیسے لو گوں کے دل کے قریب ہیں کہ یہ سب پاک انڈیا فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی کے فعال کارکن رہے ہیں‘ اور اس مقصد کیلئے انہوں نے کئی بار ہندوستان کے دورے بھی کئے ہیں۔ اسی طرح ہندوستان کے امن پسند کارکن پاکستان آئے۔ یہ فورم مرحوم ڈاکٹر مبشر حسن نے ہندوستان کی چند نامور شخصیتوں کے ساتھ مل کر بنایا تھا۔ نریندر مودی کے آنے کے بعد سب کچھ ہی تو ختم ہو گیا۔
اب جہاں تک اس کتاب کا تعلق ہے تو ایسی کتابوں کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہم ایک ہی جگہ جہاں مختلف ادیبوں دانشوروں، مؤرخوں اور سیاست دانوں کے خیالات تک رسائی حاصل کرتے ہیں، وہیں ہم اپنی ادبی، علمی اور سیاسی تاریخ کے جھروکوں میں بھی جھانک لیتے ہیں۔ مان لیجئے کہ زمان خاں ایک انتھک انسان ہیں۔ انہیں بھنک پڑ جائے کسی شعبے میں کارہائے نمایاں انجام دینے والی کسی شخصیت کی تو وہ اس وقت تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے جب تک اس کا انٹرویو نہیں کر لیتے‘ اور یہ انٹرویو ان کے قاری تک نہ پہنچ جائے۔ زمان خاں نے مجھے یہ کتاب دی تو پہلے میں اس کی ضخامت سے ڈر گیا‘ پھر اگر کتاب کا پُوائنٹ سائز تھوڑا چھوٹا ہو تو ہماری پریشانی اور بھی بڑھ جاتی ہے؛ تاہم چونکہ یہ کتاب زمان خاں کی ہے اور پھر وہ مشہور و معروف شخصیات کے انٹرویوز کی ہے تو اپنے محدود علم میں اضافے کیلئے میں اسے پڑھتا ہی چلا گیا۔ میں نے وہ کتاب پڑھی‘ اور سچی بات یہ ہے کہ اس سے بہت کچھ سیکھا۔ یہاں سیکھنے سے مراد یہ ہے کہ سیاست اور تاریخ کے بارے میں واقعی میرے علم میں بہت اضافہ ہوا۔ اب آپ کیلئے یہ ضروری نہیں ہے کہ پہلے صفحے سے آخری صفحے تک کتاب کا مطالعہ کریں۔ آپ اپنے پسندیدہ ادیبوں، سیاست دانوں مؤرخوں اور دانشوروں کا انتخاب کر لیں، اور اسی حساب سے آپ پڑھتے چلے جائیں۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا ہے‘ اور میرا خیال ہے زماں خاں بھی اپنے قاری سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ ہمارے اکثر سیاست داں اور، دانشور اپنے بارے میں لکھنے سے گریز کرتے ہیں یا یوں کہہ لیجئے کہ انہیں اپنی دوسری سرگرمیوں سے اتنی فرصت نہیں ملتی کہ وہ پتہ مار کر بیٹھیں اور کچھ لکھیں۔ اس لئے زمان خاں جیسے انٹرویو کرنے والے ان سے وہ معلومات حاصل کر لیتے ہیں جو ہماری تاریخ کا حصہ ہوتی ہیں اور بعد میں اس موضوع پر تحقیق کرنے والوں کے کام آتی ہیں۔ یہ کتاب اسی قسم کی دستاویز ہے۔ اور ہاں، زمان خاں ہیومن رائٹس کمیشن سے فارغ ہونے کے بعد قریب قریب فارغ زندگی ہی گزار کر رہے ہیں۔ انہوں نے جتنی بھرپور زندگی گزاری ہے۔ اب ان سے توقع ہے کہ وہ اپنی آپ بیتی بھی لکھ ہی ڈالیں۔ دوسروں پر جسمانی اور فکری طور پر جو بیتی ہے زمان خاں نے اپنے انٹرویوز میں انہیں محفوظ کر دیا ہے۔ اب اپنی زندگی کو بھی ایک کتاب میں محفوظ کر ڈالیں تو ہم جیسے کم علم لوگوں کی معلومات میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔ ایک بات میں بھی جانتا ہوں کی زمان خاں لگی لپٹی نہیں رکھتے۔ اس لئے ان سے پوری توقع ہے کہ وہ جو کچھ بھی لکھیں گے اپنے مزاج کے مطابق ہی لکھیں گے۔