انیس سو پچاس کی دہائی میں سید امتیاز علی تاج نے ایک فلم بنائی تھی‘ نام تھا ''گلنار‘‘۔ فلم کی کہانی اردو کی مشہور مثنوی ''زہرِ عشق‘‘ پر مبنی تھی۔ اس فلم میں نور جہاں اور خلیل احمد نے خالص اردو مثنوی کی قدیم طرز پر وہ مثنوی گائی تھی۔ خلیل احمد اس وقت تک فلموں کے میوزک ڈائریکٹر نہیں بنے تھے بلکہ ایک تمباکو کمپنی میں ملازم تھے اور ریڈیو پر شوقیہ گاتے تھے۔ سائیں اختر نے اپنی انتہائی بلند ترین آواز میں اس مثنوی کی حزنیہ شدت میں اضافہ کیا تھا۔ غلام حیدر اس فلم کے میوزک ڈائریکٹر تھے۔ اس فلم میں اردو کے معروف مزاح نگار شو کت تھانوی نے بھی کام کیا تھا۔ اس مثنوی کے ایک شعر نے سننے والوں کے دل ہلا دیئے تھے۔ ان میں ہم بھی شامل تھے۔ معلوم نہیں وہ فلم کہاں غائب ہو گئی۔ جس شعر نے ہمیں واقعی رلا دیا تھا وہ شعر یہ ہے:
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج تم، کل ہماری باری ہے
ہمیں کیا خبر تھی کہ ایک دن یہ شعر واقعی ہمارے لئے بھی حرز جان بن جائے گا۔ آج کل ہم ہیں اور یہ شعر ہے۔ ساٹھ پینسٹھ برس کا ساتھ چھوٹ گیا‘ اور اب ہم اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ مگر یہ ہمارا ذاتی دکھ ہے۔ اس دکھ میں نہ ہم کسی اور کو شریک کر سکتے ہیں اور نہ کوئی اس دکھ کی شدت میں شریک ہو سکتا ہے؛ البتہ ہمارے بچوں کا جو غم ہے ہم اسے بھی نہیں بھول سکتے۔
اب ہم یاد کر رہے ہیں اس برے وقت کو جو ان دنوں اردو ادب پر آن پڑا ہے۔ پہلے آصف فرخی اچانک ہمیں چھوڑ گئے۔ پھر اردو کے غزل گو شاعر محمد خالد اس دنیا سے چلے گئے۔ ان کے بعد افسانہ نگار رشید مصباح کی باری آ گئی‘ اور چند دن پہلے ناصر زیدی بھی یہ داغ دے گئے۔ وہ ماہنامہ ادب لطیف کا صدیقہ بیگم نمبر تیار کر رہے تھے۔ ذرا سوچئے‘ دیکھتے ہی دیکھتے کیسے کیسے شاعر اور افسانہ نگار اردو ادب کو تہی دست کر گئے۔
یہاں ہمیں اور بھی تاریخی دکھ یاد آ رہے ہیں۔ چند دن پہلے 5 جولائی کا دن گزرا ہے۔ یہ ہماری تاریخ کا تاریک ترین دن تھا۔ اب اگر کہا جائے کہ اس دن نے پاکستان کو اس اندھے کنویں میں دھکیل دیا جس سے نکلنے کے لئے ہم آج تک ہاتھ پائوں مار رہے ہیں تو غلط نہ ہو گا بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم اس دلدل میں پھنس گئے ہیں جس سے نکلنے کے لئے ہم جتنے بھی ہاتھ پائوں مارتے ہیں اتنے ہی اور بھی دھنستے چلے جاتے ہیں۔ اس دن کے حوالے سے ہم سے زیادہ باخبر لوگوں نے بہت کچھ لکھا ہے لیکن اس دن کے حوالے سے ایک ایسا چبھتا ہوا سوال ہمیشہ ہمیں پریشان کرتا رہتا ہے جس میں ہم آپ کو بھی شریک کرنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ 26 جون کو ہم نے جو سنا وہ سچ تھا یا پانچ جولائی کو جو ہوا وہ سچ تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے مخالفوں کے درمیان بات چیت چل رہی تھی۔ ضیاء الحق چیف آف آرمی سٹاف تھے اور ٹکا خاں بھٹو کے وزیر دفاع۔ احمد فراز نے مشرقی پاکستان کے حوالے سے ایک نظم لکھی تھی۔ فراز کی دوسری نظموں کی طرح اس نظم میں بھی ایسی باتیں کی گئی تھیں جو ہمارے مقتدر حلقوں کو پسند نہیں تھیں۔ فراز کو گرفتار کرکے جیل کی کو ٹھری میں ڈال دیا گیاتھا۔ ان دنوں ہم ملتان میں روزنامہ امروز کی ادارت کر رہے تھے۔ کشور ناہید کا فون آیا کہ کسی طرح بھی ہو فراز کو بچائو۔ ضیاء الحق ملتان میں ہی کرنل سے ترقی کرتے کرتے چیف آف سٹاف کے عہدے تک پہنچے تھے۔ (بیچ میں وہ اردن بھی چلے گئے تھے) ملتان میں ان کے ساتھ ہمارے تعلقات تو تھے ہی لیکن چونکہ محترمہ عفت زکی کی ضیافتوں میں ملتان کے تمام سول اور فوجی افسر پابندی سے شریک ہوتے تھے، اور چونکہ وہ خود بھی اعلیٰ سول اور افسروں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، اس لئے ضیاء الحق سے ان کے قریبی تعلقات تھے۔ اب فراز کو کون نہیں جانتا تھا۔ وہ ملتان آتا تو عفت زکی کی میزبانی سے بھی مستفیض ہوتا۔ کشور نے ہمیں فون کیا تو ہم نے عفت زکی کی مدد طلب کی۔ عفت فوراً راولپنڈی چلنے کو تیار ہو گئیں۔ ہم دونوں پنڈی پہنچ گئے۔ تیسرے پہر ہم چیف آف سٹاف ہائوس پہنچے۔ ضیاء الحق حسب عادت نہایت اخلاق سے ملے۔ ہم نے فراز کی بپتا سنائی تو ہنس دیئے اور کہا کہ کل صبح سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ٹکا خاں بہت ناراض ہیں۔ کل دیکھا جائے گا اور پھر دوسری صبح فراز صاحب جیل کی کوٹھری سے باہر آ چکے تھے۔ وہ کس طرح باہر آئے؟ یہ الگ قصہ ہے، لیکن ہمارا مشن کامیاب ہو گیا تھا۔
یہ تو احمد فراز کا قصہ ہے لیکن ہمیں آج تک جو سوال پریشان کرتا رہتا ہے‘ وہ ضیاء الحق کی وہ باتیں ہیں جو اس سہ پہر انہوں نے عفت زکی کے سامنے ہم سے کیں۔ باتوں باتوں میں ان مذاکرات کا ذکر بھی آ گیا جو بھٹو کے ساتھ ان کے مخالف کر رہے تھے۔ ہم نے یونہی سوال کر لیا کہ آپ کے خیال میں اب کیا ہو گا؟ اس پر انہوں نے بڑے وثوق کے ساتھ کہا ''ہم دوبارہ الیکشن کرا دیں گے‘‘۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ انہوں نے ''ہم‘ کہا تھا۔ ظاہر ہے اس وقت ان کی مراد بھٹو حکومت ہی ہو گی۔ پھر کہیں ائیر مارشل اصغر خاں کا ذکر آ گیا۔ ضیاء الحق ان سے خوش نہیں تھے۔ کہنے لگے ''میں جب ایک ٹریبونل کی صدارت کر رہا تھا تو وہاں مجھے ائیر مارشل بھی بیٹھے نظر آئے۔ میں نے انہیں دعوت دی کہ میرے ساتھ چائے پی لیجئے لیکن انہوں نے میری دعوت قبول نہیں کی۔ بہرحال دوسرے دن ہماری فراز سے ملاقات ہوئی‘ جیل کی کوٹھری سے باہر۔
اب ہمارے دل میں جو سوال نکیلے کانٹے کی طرح چبھتا رہتا ہے وہ یہ ہے کہ 26 جون کو ملنے والے ضیاء الحق سچے تھے یا 5 جولائی کو مارشل لا لگانے والے ضیاء الحق؟ وہ ضیاء الحق جنہوں نے پاکستان کی تاریخ ہی بدل ڈالی۔ وہ ضیاء الحق جنہوں نے اپنے دور میں وہ نسل پیدا کی جو آج تک مستقبل کی طرف دیکھنے کے بجائے ماضی کی اسیر ہو کر رہ گئی ہے۔ اور ہمیں آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا ہے۔ ہم اپنے اس دکھ کا ذکر نہیں کرتے جو ضیاء الحق کے ہاتھوں ہمیں پہنچا۔ پوری قوم کے دکھ کے سامنے ہمارے اس دکھ کی حیثیت ہی کیا ہے۔ ہمیں پہلے ملتان سے نکالا گیا‘ اور پھر 1983 میں اس لئے امروز کی ملازمت سے نکال دیا گیا کہ ہم نے امروز، پاکستان ٹائمز اور مشرق کے بارہ صحافیوں کے ساتھ ایک یادداشت پر دستخط کئے تھے کہ ملک سے مارشل لا ختم کر دیا جائے۔ آخر بینظیر کی حکومت آنے کے بعد ہم لوگوں کی ملازمت بحال ہوئی تھی۔ اس وقت جاوید جبار وزیر مملکت تھے۔ آخر میں ہم ایک بات اور یاد دلا دیں کہ ضیاء الحق جب ملتان میں کرنل تھے اس وقت بھی انہیں ملتان کے بڑے لوگوں سے ملنے ملانے کا بہت شوق تھا۔ جب وہ چیف آف سٹاف بنے تھے تو ہم نے پریس کلب میں انہیں دعوت دی تھی۔ اور یہ بھی بتا دیں کہ جب بڑا کھانا ہوتا تھا تو وہاں وعظ کے لئے ہم ہی کسی مولوی صاحب کو لے کر وہاں جاتے تھے۔ یہ اس وقت کے ضیاء الحق نے ہی ہماری ڈیوٹی لگائی تھی۔ ہم بڑوں میں شمار نہیں ہوتے تھے‘ پھر بھی ان سے ہماری یاد اللہ تھی۔ یہ سب ہمارے بھی دکھ ہیں اور ہماری قوم کے دکھ بھی۔ اور ایک بار پھر ہم مثنوی زہر عشق کا وہ شعر دہرانا چاہتے ہیں جو ہمارے لے حرز جان بن گیا ہے:
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج تم کل ہماری باری ہے