ہم تو یہ سوچ کر نیشنل سیونگ سنٹر پہنچے تھے کہ وہاں کچھ دیرہی اپنی باری کا انتظار کر نا پڑے گا۔اس کے بعدہمارا کام ہو جا ئے گا۔لیکن وہاں تو ایک تماشہ لگا ہوا تھا۔سنٹر کا لوہے کا دروازہ بند تھا‘بلکہ اس دروازے کو ایک گارڈ نے سختی سے بند کر رکھا تھااور باہر لوگوں کا ایک ہجوم تھا جو اندر جانے کیلئے بے چین تھا ۔باہر چند صوفے نما کر سیاں بچھادی گئی تھیں۔ان کر سیوں پر خواتین بیٹھی تھیں اور آپ جانتے ہی ہوں گے کہ جہاں خواتین اکٹھی ہو جائیں وہاں گپ شپ بھی شروع ہو جا تی ہے ۔ایسا لگتا تھا جیسے انہیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ‘ البتہ مرد حضرات بہت پریشان اور بہت ہی بے چین نظر آ تے تھے ۔ان میں کچھ تو فولادی دروازے پر کھڑے گارڈ سے بحث کر رہے تھے اور کچھ اپنی قسمت کو رو رہے تھے کہ اپنی بچت کا منافع حاصل کر نے کیلئے کہاں آ کر پھنس گئے ہیں ۔اور پھر ایک تو انتظار اوپر سے گرمی ۔سب کا برا حال تھا۔سب پسینے پسینے ہو رہے تھے ۔وہ کورونا پر اپنا غصہ نکالنے کے بجائے وہاں کھڑے گارڈ پر غصہ نکال رہے تھے ۔باری باری ایک ایک اور دد دوکر کے لو گوں کو اندر بلایا جاتاتھا۔یہ سب اس منحوس و مردود کورونا کی وجہ سے ہو رہا تھا جس نے ساری دنیا کو الٹ پلٹ کر دیا ہے ۔سنٹر والے بھی اپنی جگہ سچے تھے ۔بچت کے ان مرکزوں میں عمر رسیدہ لوگ ہی جا تے ہیں ۔خاص طور سے وہ ریٹائرڈ لوگ جنہوں نے اپنی بچت کی رقم وہاں لگا ئی ہو تی ہے۔چو نکہ وہاں بہت لوگ اکٹھے ہو جا تے ہیں اس لئے وہاں کورونا کا خطرہ زیادہ ہو تا ہے اور یہ خطرہ سنٹر کے عملے کیلئے بھی ہو تا ہے ۔
یہ تو نیشنل سیونگ سنٹر کا حال ہے ۔اب آپ کسی بینک چلے جا ئیے ‘وہاں بھی سب کو پہلے باہربٹھا دیا جا تا ہے‘اور باری باری ایک ایک کو اندر بلایا جا جا تا ہے یہاں چند بینکوں نے دھوپ سے بچنے کیلئے شامیانے لگا دئے ہیں اور ان شامیانوں کے نیچے کر سیاں بچھا دی ہیں ‘لیکن تمام بینکوں میں ایسا نہیں ہے ۔ شروع شروع میں تو لو گوں کو یہ انتظام اچھا نہیں لگا تھا‘لیکن بعد میں انہوں نے اسے قبول کر لیا۔گویا کورونا کے اس عذاب نے ہمارے لو گوں میں صبر کی استطاعت پیدا کر دی ہے ۔لیکن یہی صبر بعض سر کاری دفتروں میں ایک عذاب بھی بن گیا ہے ۔ جو لائی موٹر کار کے ٹوکن کا گریس پیریڈ ہوتا ہے ۔لوگ حسبِ معمول ٹیکسیشن کے دفتر میں جا کر سالانہ ٹیکس جمع کراتے ہیں اور ٹوکن حا صل کرتے ہیں‘ لیکن اس بار یہ ہوا کہ ٹیکس کے دفتر پہنچے تو حکم ملا کہ پہلے آپ کو ان سے وقت لینا چا ہیے تھا۔ اس کے بعد آپ کو دفتر میں داخل ہو نے کی اجازت ملے گی ۔اب کیا کیا جائے؟ ٹیکس تو بہر حال ادا کر نا تھا۔ اب آسان راستہ یہ بتایا گیا کہ یہ جو انٹر نیٹ کی سر وسز ہیں ان کے ذریعے آپ ٹیکس جمع کرا دیں ۔بس مصیبت یہ ہے کہ وہاں آپ کو زیادہ روپے خرچ کر نا پڑتے ہیں ۔وہ جو کہتے ہیں کہ مرتا کیا نہ کر تا۔ آخر زیادہ رقم خرچ کر کے ٹیکس ادا کر دیا گیا۔کیا ان ٹیکس ادا کر نے والوں کیلئے کو ئی اور طریقہ اختیار نہیں کیا جا سکتا ؟
اس موذی کورونا نے ہم سب کیلئے یہی مشکلیں پیدا نہیں کی ہیں‘بلکہ اس نے لو گوں کے کارو بار تباہ کر دئے ہیں ۔ اس کے نام پر ضروری چیزوں کی قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں۔ حکومت سے جب اس کی شکایت کی جا تی ہے تو وہ بھی کورونا کا ہی بہانہ بنا دیتی ہے ۔تاجروں کو اور بھی اچھا موقع مل گیا ہے قیمتیں بڑھا نے کا۔ لو گوں نے عمران خاں اور ان کی حکومت کا مذاق بنا لیا ہے ۔کہا جا تا ہے کہ عمران خاں جن چیزوں کا بھی نو ٹس لینے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کی قیمتیں بڑھ جا تی ہیں ۔عمران خاں نے چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا نو ٹس لیا اور چینی کے نرخ پہلے سے بھی زیادہ بڑ ھ گئے ۔یہی حال آٹے کا ہوا ہے ۔اس کی بھی قیمت ہے کہ بڑھتی ہی چلی جا تی ہے۔
اب اخباروں نے خبر دی ہے کہ چین اور بر طانیہ میں آکسفرڈ یو نیورسٹی نے اس منحوس مرض سے بچانے والی ویکسین کا کا میاب تجربہ کیاہے اور خیال ہے کہ کچھ عرصے بعد یہ ویکسین تمام ملکوں میں دستیاب ہو گی ۔چلئے ہم اس کا بھی انتظار کئے لیتے ہیں ۔ ہم نے پچھلی مرتبہ عمران خاں کے اس اعلان کا ذکر کیا تھا جس کے تحت غریبوں کو گھر بنانے کی سہولت فراہم کی جائے گی ۔ اس کیلئے تمام بینکوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اس کیلئے صرف پانچ فیصد منافع پر غریب لو گوں کو قرضہ دیں اور ہم نے سوال کیا تھا کہ گھر بنانے کیلئے بینک جو قرضے دیں گے وہ کس ضمانت پر دیں گے ؟یو نہی اٹھا کر یہ قرضہ تو نہیں دے دیں گے۔ قرضہ حاصل کر نے والے کو کوئی توپیشگی ضمانت دینا پڑے گی ۔ اس ضمانت کیلئے پیشگی رقم وہ کہاں سے لائے گا؟ اب ہمیں یہ خوش خبریاں تو سنا ئی جا رہی ہیں کہ پاکستان کے بہت سے سر مایہ دار اس سکیم میں حصہ لینے کو تیار ہو گئے ہیں حتیٰ کہ یہ خوش خبری بھی دی گئی ہے ہمارا دوست چین بھی پاکستان میں غریبوں کیلئے گھر بنانے پر تیار ہو گیا ہے ‘لیکن ہمارا سوال پھر بھی وہی ہے کہ غریب پیشگی رقم کہاں سے ادا کرے گا؟اس کا جواب ہمیں کہیں سے بھی نہیں مل رہا ہے۔ مغربی ملکوں میں جو آدمی اپنا مکان بنانا چا ہتا ہے وہ اپنی وہی زمین حکومت یا کسی ادارے کے پاس رہن رکھتا ہے ‘البتہ اس کے بعد بھی کچھ پیشگی رقم اسے دینا پڑتی ہے ۔ اس کے بعد وہ باقی رقم کی قسطیں ادا کرتا رہتا ہے ۔وہاں اتنی سہولت دی جا تی ہے کہ آپ بیس پچیس سال تک وہ قسطیں ادا کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں رہن رکھنے کا رواج ہی نہیں ہے اور پھر غریب آ دمی اس طرح یہ رہن رکھنے کی سکت بھی نہیں رکھتا۔چلئے اب دیکھتے ہیں کہ عمران خان اپنی اس سکیم کے تحت غریبوں کو سر چھپانے کیلئے یہ گھر کیسے مہیا کریں گے؟ آپ کو یاد ہو گا کہ اس سے پہلے بھی کئی حکومتوں نے کچی آ بادیاں ختم کر نے کے بعد سستے گھر بنانا شروع کئے تھے ‘لیکن ان کا حشر بھی کچھ اچھا نہیں ہوا۔
اب آ خر میں ہم فیض کی ایک نظم آ پ کو یاد دلانا چا ہتے ہیں ۔یہ نظم ہمیں سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد یاد آ ئی ہے جس میں عدالت نے خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق کی ضمانت منظور کی ہے ۔اس نظم کا عنوان ہے ''بول...‘‘۔ نظم یہ ہے:
بول ‘کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول‘ زباں اب تک تیری ہے
تیرا ستواں جسم ہے تیرا
بول‘ کہ جاں اب تک تیری ہے
دیکھ کہ آہن گر کی دکاں میں
تند ہیں شعلے سرخ ہے آہن
کھلنے لگے قفلوں کے دہانے
پھیلا ہر اک زنجیر کا دامن
بول‘یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم وہ زباں کی موت سے پہلے
بول‘کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
اب آپ سو چ لیجے کہ کیا اس کے بعد بھی کچھ کہنے کو رہ گیا ہے ؟ ہماری سپریم کورٹ نے جیسے قفلوں کے دہانے کھول دیے ہیں‘اس نے ہمیں بولنے کی طاقت عطا کی ہے ۔یہ فیصلہ آپ پڑھئے۔اور اپنی عدالتوں کی آزادی اور انصاف پسندی کی داد دیجے ۔اس فیصلے کے بعد نیب کے قانون میں ترمیم ہو تی ہے یا نہیں‘ہم کچھ نہیں کہہ سکتے ‘البتہ ہم نے انصاف کی آواز سن لی ہے ۔اور یہ آواز مزیدآوازوں کا راستہ کھو لے گی۔ ہمارا خیال تو یہی ہے ۔اب آ گے دیکھئے کیا ہو تا ہے ۔