شاعر نے کہاتھا ع
کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد
اور ہمارے وزیر اعظم عمران خاں نے نیا لاہور بسانے کا اعلان کر کے اپنے آپ کو اہلِ نظراصحاب کے قبیلے میں شامل ہو نے کیلئے راستہ ہموار کر لیا ہے۔اس نئے شہر کیلئے یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ ع
یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں
کیو نکہ یہ شہر ہمارے پرانے لاہور کے پڑوس میں ہی ہو گا۔ عمران خاں نے ایک بھاری بھرکم تقریب میں بڑی دھوم دھام کے ساتھ اعلان کیا کہ یہ نیا لاہور اس راوی کے کنارے بسایا جا ئے گا جس کا پانی ہندوستان لے گیا ہے ۔ اس بہانے اس سو کھے دریا کو ایک بار پھر پانی مل جا ئے گا ۔ یہ پانی پرانے شہر کاوہ گندہ پانی ہو گا جو برسہا برس سے اس دریا میں ڈالا جا رہا ہے ۔ اس گندے پا نی کواس دریا کیلئے ہی دو بارہ پاک صاف کیا جا ئے گا۔اس کیلئے ایک ڈیم بھی بنایا جا ئے گا۔اب جہاں تک اس نئے شہر کی تعمیر پر آنے والے خرچ کا تعلق ہے اس کیلئے کروڑوں اور اربوں نہیں بلکہ کھر بوں رو پیہ خرچ کر نے کا مژدہ سنایا گیا ہے ۔کہا گیا ہے کہ یہ ایک مثالی شہر ہو گا۔اس شہر میں وہ تمام سہولتیں مو جود ہوں گی جو دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں پائی جا تی ہیں ۔ اس شہر کی تعمیر میں جو لوگ حصہ لیں گے ان کیلئے سر کاری خزانے کا منہ کھول دیا گیا ہے۔ بھلا اس صورت میں کون ایسا عقل سے کورا ہو گا جو اس شہر پر اپنا پیسہ خرچ نہیں کرے گا؟
ہم بہت خوش ہیں کہ ہمارے شہرکے پڑوس میں ہی ایک اور شہر بسایا جا رہا ہے۔ایسا شہر جو دنیا کے ترقی یافتہ شہروںکا مقابلہ کرے گا۔اور ہمیں اس پر خوش ہو نا بھی چا ہیے۔لیکن بر ا ہو ان بد گمانیوں کا جو ہمارے دل و دماغ میں ہر وقت کلبلا تی رہتی ہیں ۔یہ بد گما نیاں ادھر ادھر کے لوگ ہمارے دماغ میں ڈالتے رہتے ہیں۔ یہی لوگ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہمارے انہی وزیر اعظم نے اس سے پہلے کروڑوں بے روز گاروں کو نو کریاں دلانے‘ اور لاکھوں بے گھر لو گوں کو سستے گھر دینے کا وعدہ بھی کیا تھا۔وہ کہتے ہیں کہ اس وعدے کا کیا ہوا؟ہمیں تو اس جانب ذرا سی پیش قدمی نظر نہیں آ ئی؟ وہ یاد دلاتے ہیں کہ ان غریب بے گھر لو گوں کو ان کے اپنے گھر تو کیا ملتے‘ان کیلئے پناہ گاہیں بنا کر انہیں ٹرخا دیا گیا ہے۔ان کا سوال ہے کہ آخر کتنے لو گ ان پناہ گاہوں میں پناہ لیں گے ؟ اور کب تک پناہ لیتے رہیں گے؟یہ پناہ گاہیں اپنے گھر کا بدل تو نہیں ہو سکتیں۔یہ لوگ یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ عمران خاں نے وزیر اعظم ہائوس کو یو نیورسٹی بنا نے کا وعدہ بھی تو کیا گیا تھا۔وہ سوال کرتے ہیں کہ اس حکومت کو آئے ہو ئے دوسال ہو گئے ہیں ‘کیا آپ کو ان میں سے ایک بھی وعدہ پورا ہو تا نظر آ یا ؟وہ کہتے ہیں‘ہماری طرح آپ بھی اپنے شہر کے ان علاقوں میں گئے ہوں گے جہاںصبح سے شام تک ان مزدوروں کی بھیڑ لگی ہو تی ہے جو کام کی تلاش میں منہ اندھیرے گھروں سے نکل کھڑے ہو تے ہیں۔ ہم نے ان کی تعداد میں کمی نہیں دیکھی بلکہ اس میں اضافہ ہی ہو تے دیکھا ہے۔ اور ان کا سوال ہو تا ہے کہ کیا اس فلمی گیت کا اعتبار کر لیا جائے کہ قسمیں‘ وعدے پیار وفا‘ سب باتیں ہیں‘ باتوں کا کیا؟
لیکن ابھی ابھی کسی نے ہمارے کان میں کہا کہ اور کچھ ہو نہ ہو ‘ لاہور شہر کے ساتھ بسایا جا نے والا نیا شہر ضرور بن جا ئے گا۔اور ایسا ہی بنے گا جیسے عمران خاں نے بتایا ہے ۔ بھائی صاحب‘ علیم خاں وزیر اعظم کے ساتھ یونہی تو نہیں ہیں۔ ان سے زیادہ اور کون جانتا ہو گا کہ نئے ٹائون اور نئی کالونیاں کیسے بنائی جا تی ہیں۔ اور ان کیلئے زمین کیسے حاصل کی جا تی ہے۔یہ سب ہمارے سامنے کی باتیں ہیں ۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اس شہر میں غریبوں کو سر چھپانے کی جگہ تو نہیں ملے گی۔ بلکہ ان لو گوں کوایک اور موقع مل جا ئے گا جو اپنا کا لادھن کسی نہ کسی طرح سفید کر نے کی فکر میں لگے رہتے ہیں ۔ عمارتوں کی تعمیر ہی ایک ایسا شعبہ ہے جہاں دولت کے انبار لگا ئے جا سکتے ہیں۔ہمارا وہ طبقہ جو بلڈرز کہلاتا ہے ہمیشہ فائدے میں ہی رہتا ہے ۔اس طبقے کیلئے عمران خاں نے ایک اور دروازہ کھول دیا ہے ۔آپ ان صاحب کو توجانتے ہوں گے جنہوں نے ہر شہر کے اندر نئے شہر بنائے ہیں۔کچھ لوگوں نے ان پر یہ بھی الزام لگایا کہ انہوں نے فلاں مقام پر غیر قانونی طو ر پر اپنے ٹائون بنا لئے ہیں ۔ لیکن یہ الزام محض الزام کی حد تک ہی رہا۔اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔زیادہ سے زیادہ کچھ رقم متعلقہ اداروں کے حوالے کر دی گئی ۔ ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔عمران خاں بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں۔ اس لئے انہوں نے ایک ایسے منصوبے کا اعلان کیا ہے جس میں اس طبقے کو خوب کھل کھیلنے کا موقع ملے گا۔اور عمران خاں کی واہ واہ بھی ہو جائے گی ۔چلئے‘ہمیں اس سے کیا۔ کسی بہانے ہمارے ملک اور اس ملک کے کسی بھی طبقے کوفائدہ اٹھانے کا موقع تو مل جائے گا۔ اور ہاں‘اس شہر کیلئے جو زمین حاصل کی جا ئے گی ‘ظاہر ہے وہ کاشت کاروں کی زمین ہی ہو گی ۔اس طرح وہ کاشت کار بھی پیسہ بنالیں گے جو ز‘مین کاشت کر کے اتنا پیسہ نہیں بنا سکتے ۔یہ تو ہمارے سامنے کی بات ہے کہ ایل ڈی اے اور ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی نے جہاں بھی اپنے تعمیراتی منصوبے بنائے وہاں زمین کے مالکوں نے خوب فا ئدہ اٹھایا۔ کچھ لوگوں نے زور اور زبر دستی زمین حاصل کر نے کا الزام بھی لگایا ہے ۔لیکن ہمارے ایک دوست تو کہتے ہیں کہ کاشت کاروں نے زمین بیچ کر موٹر کاریں خرید لیں ۔یہ اور بات ہے کہ ہمارے ملک میں زرعی زمین کم ہو تی چلی گئی۔اورہماری فصلوں کیلئے قابل ِکاشت رقبہ کم سے کم ہو تا چلا گیا۔خیر‘اگر ایسا ہوا تو ہوا کرے ۔اس کی کسے فکر ہے۔ہم نے پہلے ہی گندم در آمد کر نے سلسلہ شروع کر دیا ہے۔اسی لئے ہم عمران خاں کے پہلے وعدوں کے بر خلاف اس منصوبے میں کامیابی کی توقع رکھتے ہیں ۔ کاشت رقبہ کم ہو تا چلا گیا۔گندم درآمد کر نے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
اب یہاں دوسری بات بھی ہو جا ئے ۔ہم نے اپنے پچھلے کالم میں ناصر کاظمی کا ایک شعر نقل کیا تھا۔اس کاپہلا مصرع ہم نے اس طرح لکھا تھاع‘
ہم اور آپ تو زمیں کا بوجھ ہیں
سید قاسم جعفری نے ہماری غلطی کی نشان دہی کی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ اصل مصرع اس طرح ہے ۔یہ آپ ہم تو بو جھ ہیں زمین کا۔ توگویا یہ شعر اس طرح ہوا ؎
یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے
شکر ہے کہ ہم نے شعر کا وزن بر قرار رکھا تھا۔خدا نخواستہ اگر شعر بے وزن ہو جا تا تو ہم ظفر اقبال کی پکڑ میں ضرور آ جا تے ۔ ظفر اقبال اور سب کچھ برداشت کر لیتے ہیں لیکن وزن سے گرا ہوا شعر برداشت نہیں کرتے ۔آج کل وہ غالب کے شعروں کی اصلاح کر رہے ہیں۔ ہم بڑی توجہ اور بڑے غور سے ان کی اصلاح دیکھ رہے ہیں۔ یہ اصلاح دیکھ کر ہم بالآخر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگرآج غالبؔ زندہ ہو تا تو یقینا ظفر اقبال کی شا گردی قبول کر لیتا۔