اب چونکہ پرانی یادیں ہی اس کالم کا موضوع بن گئی ہیں، تو چند یادیں اور بھی پیش خدمت ہیں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ملک میں تازہ تازہ مارشل لا لگا تھا اور جنرل ضیاالحق ایک خبر کی بنا پر ہم سے ناراض نہیں ہوئے تھے۔ حکو مت سنبھالتے ہی انہوں نے اخبارات کے ایڈیٹروں کو اسلام آباد بلایا۔ ان میں ہم بھی شامل تھے۔ اس اجلاس میں ضیاالحق نے ہم سب کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ مارشل لا عارضی ہے اور جلد ہی الیکشن کرا دیئے جائیں گے۔ جب ان کی تقریر ختم ہوئی اور سوالات کی باری آئی تو ایک مشہور و معروف صحافی نے کھڑے ہو کر پیاز کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی طرف جنرل صاحب کی توجہ دلائی۔ انہوں نے کہا ''جنرل صاحب، میں جب گھر سے آ رہا تھا تو میری بیوی نے کہا تھاکہ پیاز بہت مہنگے ہو گئے ہیں‘ یہ جنرل صاحب کو ضرور بتانا‘‘۔ گویا انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں تھی کہ ملک سے جمہوریت کا خاتمہ کر دیا گیاہے اور مارشل لا لگ گیا ہے۔ بھلا جنرل صاحب اس کا کیا جواب دیتے؛ چنانچہ ان صاحب کا سوال ہنسی اور قہقہوں کی نذر ہو گیا۔ باقی اس اجلاس میں اور کیا سوال کئے گئے‘ یہ ہمیں یاد نہیں‘ لیکن اجلاس کے بعد جب دوسرے ہال میں ہم سب چائے پینے گئے تو وہاں جو واقعہ پیش آیا وہ ہمیں اچھی طرح یاد ہے۔ اس وقت تک ضیاالحق صاحب کو حکمرانی کی چاٹ نہیں لگی تھی اور کسی نہ کسی طرح ان کی کسر نفسی برقرار تھی۔ چند دن پہلے ہی انہوں نے سائیکل کی سواری کی تھی اور اخباروں نے انہیں خوش کرنے کے لئے اس کی بڑی بڑی خبریں بنانے کی کوشش کی تھی‘ لیکن جنرل صاحب نے اس کا زیادہ ذکر کرنے سے اخباروں کو روک دیا تھا۔ اب ہم چائے سے فارغ ہو کر جنرل ضیاالحق کو گھیرے کھڑے تھے اور ادھر ادھر کی باتیں ہو رہی تھیں۔ وہاں جنرل صاحب کی سائیکل سواری کا ذکر بھی آ گیا۔ اسی وقت ایک بہت بڑے اخبار کے بہت بڑے مالک ایڈیٹر نے جنرل ضیاالحق سے شکایت بھرے لہجے میں کہا ''جنرل صاحب، آپ نے تو عوام کو خوش کرنے کے لئے سائیکل چلائی تھی‘ اخباروں کو اس کی زیادہ خبریں لگانے سے آپ نے کیوں روک دیا تھا؟ اب جنرل صاحب نے اس کا کیا جواب دیا‘ یہ تو ہمیں یاد نہیں؛ البتہ ہمیں وہ بات خوب یاد ہے جو ان ایڈیٹر صاحب کے بھائی نے اس موقع پر کی تھی۔ ہم ضیاالحق اور ان ایڈیٹر صاحب سے تھوڑے فاصلے پر کھڑے تھے۔ ایڈیٹر صاحب کے بھائی نے، جو انگریزی میں کالم لکھا کرتے تھے، اپنے بڑے بھائی کی یہ بات سنی تو ہنستے ہوئے منہ پھیر کر کہا ''بھائی صاحب نے یہی بات ایوب خاں سے بھی کی تھی‘ اور جنرل یحییٰ خاں سے بھی کی تھی‘‘۔ ہم نے گھبرا کر ضیاالحق اور بڑے ایڈیٹر صاحب کی طرف دیکھا۔ شکرہے یہ بات ان تک نہیں پہنچی تھی۔ ہم نے سکھ کا سانس لیا‘ اور پھر دوسری باتیں شروع ہو گئیں۔ اب آپ ہی بتائیے‘ یہ جو ہمارے ملک میں غیر جمہوری حکومتیں آتی رہی ہیں، انہیں مضبوط بنانے میں کیا ہمارا اپنا ہاتھ بھی نہیں ہے؟
شام کو جنرل ضیاالحق کے دفتر میں ان سے ملاقات ہوئی۔ اس کیلئے ہم نے ہی درخواست کی تھی۔ ہم اپنے اخبار کے بارے میں بات کرنا چاہتے تھے لیکن وہاں جو باتیں ہوئیں ان سے اندازہ ہوا کہ جنرل صاحب اخباروں اور ایڈیٹروں سے خوش نہیں ہیں۔ ملتان کا واقعہ تو بہت بعد کی بات ہے اس سے پہلے وہ کچھ فیصلے کر چکے تھے؛ چنانچہ دوسرے ہی دن معلوم ہوا کہ امروز کے چیف ایڈیٹر ظہیر بابر اور پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر خواجہ آصف کی چھٹی کردی گئی ہے اور ایک اردو کے کالم نگار کو ان اخباروں کے ادارے کا چیف ایگزیکٹیو لگا دیا گیا ہے۔ اس کے بعد ہمارے اخباروں کے ایڈیٹر بدلتے رہے۔ ہم 'حکم حاکم مرگ مفاجات‘ کے طور پر یہ تماشہ دیکھتے رہے۔
ہم نے ایک کارخانے میں مزدوروں پر گولی چلانے اور اپنے ملتان بدر کئے جانے کا قصہ تو لکھ دیا تھا لیکن اس کی تفصیل بیان نہیں کی تھی۔ چلئے، اب یہ بھی پڑھ لیجئے۔ ہمارے اخبار میں وہ خبر چھپی تو مارشل لا کے ایک بہت بڑے افسر کے سامنے ہماری پیشی ہوئی۔ وہ افسر صاحب سادہ کپڑوں میں چپل پہنے بیٹھے تھے۔ وہ ہم سے یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ یہ خبر ہمارے کس رپورٹر نے دی تھی۔ ہم نے نہایت ادب کے ساتھ عرض کیا کہ اخبار میں جو کچھ بھی چھپتا ہے، اس کی ایک ایک سطر کا ذمہ دار ایڈیٹر ہوتا ہے‘ اس لئے ہمارے اخبار میں جو کچھ چھپا ہے اس کے ذمہ دار ہم ہیں‘ لیکن یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ہم نے جان چھڑانے کیلئے جھوٹ بولا کہ ہمیں علم نہیں‘ کس رپورٹر نے یہ خبر دی ہے‘ اور عرض کیا کہ اگر آپ واقعی رپورٹر کا نام جاننا چاہتے ہیں تو ہم اخبار کے نیوز ایڈیٹر سے معلوم کر کے آپ کو بتا دیں گے۔ ہم یہ سوچ کر وہاں سے اٹھے کہ چلو جان چھوٹ گئی‘ اب نہ وہ رپورٹر کا نام معلوم کرنے کے لئے ہمیں طلب کریں گے اور نہ ہمیں مزید جھوٹ بو لنا پڑیں گے‘ مگر ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ہم خود اس تلوار کی زد میں آ گئے ہیں؛ چنانچہ ہمیں ملتان بدر کر دیا گیا۔
یہاں ایک اور واقعہ بھی آپ کی نذر کر دیں۔ ملتان بدری کے زمانے میں خدا جانے کیسے ہمارے ادارے کے کالم نگار چیف ایگزیکٹیو کو ہم پر رحم آ گیا۔ ایک دن انہوں نے ہمیں اپنے دفتر بلایا۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ہمیں کیوں بلایا گیا ہے۔ ہم وہاں پہنچے تو ہمیں ''برادرانہ مشورہ‘‘ دیا گیا کہ تم معافی مانگ لو‘ تمہاری نوکری بحال کر دی جائے گی۔ ہم خاموشی سے اٹھ کر واپس آ گئے۔ ہم کہہ بھی کیا سکتے تھے۔ ہم نے یہ عرصہ لاہور میں ہی گزارا‘ اور پھر مارشل لا کے خلاف ایک بیان پر دستخط کرنے کی پاداش میں تین سال بیروزگاری کے بھی کاٹے۔ آخر جب بہاولپور میں طیارے کا حادثہ ہوا ‘ الیکشن ہوئے اور بے نظیر کی حکومت آئی تو ہمیں اپنی ملازمت واپس ملی۔ ہمیں ملازمت پر بحال کرنے والے اس حکومت کے اطلاعات و نشریات کے وزیر مملکت جاوید جبار تھے۔ انہوں نے ہمیں ملازمت پر بحال کرنے کی خوشخبری بھی سنائی اور دوپہر کا کھانا بھی کھلایا۔
لیجئے، آج کل طوفانی بارش نے کراچی اور اس کے ارد گرد تباہی مچائی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے بھی ہمیں ایک بات یاد آ گئی ہے۔ یہ بھی پڑھ لیجئے۔ یہ 1951 کا ذکر ہے۔ ہم کھوکھرا پار کے راستے پا کستان میں داخل ہوئے تھے اور لاہور آنے سے پہلے ایک دن کے لئے کراچی ٹھہرے تھے۔ ان دنوں ہمارے دوست احمد علی سید فیڈرل بی ایریا میں اپنی بہن کے گھر رہتے تھے۔ وہ گھر ابھی زیر تعمیر ہی تھا۔ ایک کمرہ بن گیا تھا۔ دوسرے کمرے کی ابھی دیواریں ہی کھڑی کی گئی تھیں۔ رات کو ہم بغیر چھت والے کمرے میں سوئے۔ ہم سو رہے تھے کہ اچانک بارش آ گئی۔ اب ہم کہاں جاتے۔ اپنے دوست کی طرح ہم نے بھی اپنے اوپر چادر تان لی۔ زیادہ تیز بارش نہیں تھی اور وہ جلدی ہی بند بھی ہو گئی۔ اسی طرح بھیگے بھیگے ہم سو گئے۔ صبح ہمیں بتایا گیا کہ کراچی میں کبھی بارش ہوتی ہی نہیں ہے۔ یہ اتفاق ہی ہے کہ یہاں بارش ہو گئی ہے۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ یہاں کے اصل باشندے کہتے ہیں کہ یہ بارش مہاجر اپنے ساتھ لائے ہیں۔ اس سے پہلے بارش کہاں ہوتی تھی۔ اب آج کل وہاں جو بارشیں ہو رہی ہیں، معلوم نہیں وہاں کے پرانے باشندے ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ لیجئے‘ ہم ضیاالحق اور ان کے مارشل لا سے چلے تھے اور کراچی پہنچ گئے۔ ان یادوں کا یہی معاملہ تو ہے کہ جب وہ آنا شروع ہوتی ہیں تو کسی ایک جگہ نہیں ٹھہرتیں۔ ادھر ادھر گھمائے پھرتی ہیں۔