آج کل ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں، ان میں پنکج ملک بہت یاد آتے ہیں‘ پنکج ملک اور اس کے گائے ہوئے نیو تھیٹر کے گیت۔ اب بات آ گے بڑھانے سے پہلے ہم یہ بھی عرض کردیں کہ یہ جو پنکج ملک کے نام میں ''ملک‘‘ کا لفظ ہے، یہ ہمارے اردو‘ فارسی کا ملک نہیں ہے بلکہ یہ سنسکرت کا ''مل لک‘‘ ہے‘ جس کا مطلب ہے خوشبو دار۔ پنکج پھول ہے اور مل لک خوشبو دار‘ گویا پنکج ملک کا مطلب ہوا خوشبو دار پھول‘ اور یہ جو ملکا شراوت ہے، وہ بھی''مل لکا‘‘ ہے، ملکہ نہیں ہے (آپ اس کا نام پڑھ کر ضرور خوش ہو گئے ہوں گے؟) بہرحال پنکج ملک اپنے گیتوں کی وجہ سے ہی ہمیں یاد آ رہے ہیں۔ ان کا ایک گیت ہے ''میں روتا ہوں‘ مت منع کرو‘‘ اس میں گیت کے جوبول کابوس کی طرح ہمارے سینے پر سوار ہیں‘ وہ بول ہیں ''میں ٹوٹا پھوٹا گھر اچھا‘ تم مت اس کی دیوار بنو‘‘۔ اسی خیال کوہمارے شاعر اسلم انصاری نے اس طرح باندھا ہے:
دیوارِ خستگی ہوں، مجھے ہاتھ مت لگا
میں گر پڑوں گا دیکھ، مجھے آسرا نہ دے
خیال ایک ہی ہے‘ مگر اسے پیش کرنے کا انداز مختلف ہے۔ آپ یہ تو جانتے ہی ہوں گے کہ کلکتے کے نیو تھیٹر کی فلموں کے اکثر گیت آرزو لکھنوی نے لکھے۔ یقینا یہ گیت بھی انہیں کا ہوگا۔ پنکج ملک کاگایا ہوا یہ گیت اور اسلم انصاری کا شعر انسانی زندگی میں مایوسی کی انتہا کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ توکیا ہم اس صورتحال تک پہنچ گئے ہیں؟ یہ نہایت ہی ہولناک سوال ہے جو ہمارے سامنے منہ پھاڑے کھڑا ہے۔
اور یہی سوال ہے جو ہمیں پریشان کرتا رہتا ہے۔ ایک اندھیرا ہے چاروں طرف۔ کہیں بھی روشنی کی کرن نظر نہیں آ رہی ہے۔ ابھی کورونا کا عذاب ہی سہہ رہے تھے کہ اندھا دھند بارشوں نے ہمیں آلیا۔ پاکستان کا سب سے بڑا شہر پانی میں ڈوب گیا۔ اب ہم ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہیں کہ یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا۔ وزیر اعظم اور ان کی حکومت کوتو موقع چاہئے تھا۔ وہ اور ان کے ساتھی سندھ کی حکومت کے پیچھے پڑگئے کہ یہ سب تمہاری غلطیوں اور تمہاری نااہلی کا نتیجہ ہے‘ حالانکہ ان دنوں کراچی میں جو غیرمعمولی بارشیں ہوئیں، وہ اس شہر کی تاریخ میں شاید پہلے کبھی نہ ہوئی ہوں۔ کہتے ہیں‘ تیس پینتیس سال پہلے وہاں ایسی ہی بارشیں ہوئی تھیں‘ لیکن اس شہر کے پرانے باشندوں کو ایسی بے پناہ اور تباہ کن بارشیں یاد نہیں۔ ایسی بارشیں جنہوں نے اس شہرکی سڑکوں اور گلی کوچوں کو دریا بنا دیا ہو اور پورے شہر کی زندگی مفلوج ہوگئی ہو۔ اب یہ دیکھ لیجئے کہ وہاں کے شہری بارشوں کے کئی دن بعد بھی اپنے گھروں کے اندراور باہر سے پانی نکالنے کی کوشش کررہے ہیں۔
یہ نہیں کہا جا سکتاکہ اس تباہی میں سندھ کی صوبائی حکومت یا کراچی کی شہری حکومت کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہاں توایسا لگتا ہے جیسے اس شہر کا کوئی والی وارث ہی نہ ہو۔ جس شخص کا جہاں جی چاہا وہاں اس نے اپنی عمارت بنالی۔ یہ بھی نہیں دیکھا کہ وہ برساتی نالہ ہے یا دوسرے علاقوں تک جانے کا راستہ۔ سوال یہی ہے کہ اس وقت صوبائی اور شہری حکومتیں کہاں تھیں‘ جب یہ ناجائز گھر یا عمارتیں کھڑی کی جا رہی تھیں۔ انہیں کسی نے کیوں نہیں روکا؟ اب بھگت رہے ہیں اپنی غلطیاں۔
معاف کیجئے، کراچی کے حالات پر ہم نے جو کچھ لکھا ہے‘ وہ آپ کیلئے نئی بات نہیں ہو گی۔ یہ سب باتیں کئی ہفتے سے لکھی جا رہی ہیں۔ ہم نے تو صرف یہ عرض کرنے کیلئے لکھا ہے کہ کراچی کے حالات نے بھی ہماری مایوسی میں اضافہ کیا ہے اور پنکج ملک کے گائے ہوئے گیت ہمیں یاد دلا دیئے ہیں۔ اب اس شہرپر جو تباہی نازل ہوچکی ہے، اس پر کون قابو پائے گا؟ اصل سوال یہ ہے۔ صوبائی حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ اس شہر کوکم سے کم اسی صورت پرہی واپس لا سکے جو بارشوں سے پہلے تھی۔ وفاق زبانی جمع خرچ تو بہت کررہا ہے لیکن عمران خاں کے وزیر اطلاعات شبلی فراز نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ سندھ کی حکومت نے ہم سے جو کئی ارب روپے مانگے ہیں، ہم ان کا ایک پیسہ بھی نہیں دے سکتے۔ اس کے بعد کیا صوبائی حکومت اپنے وسائل سے اس شہر کے مسائل حل کرسکے گی؟ ہمیں تو شک ہے۔ ادھر شہر کے بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہوچکی ہے۔ اب ان کے نئے الیکشن ہوں گے۔ اس کے بعد حالات سدھریں گے نہیں بلکہ صوبائی حکومت اور بلدیاتی اداروں کے درمیان کشمکش اسی طرح جاری رہے گی۔ عمران خاں نے حکومت سنبھالنے سے پہلے وعدہ کیا تھاکہ وہ شہری حکو توں کو مضبوط بنائیں گے‘ لیکن ابھی تک اس بارے میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آئی۔ جب تک شہری حکومتیں مالی طورپر آزاد اور مضبوط نہیں ہوں گی اس وقت تک کسی بھی شہر کی حالت بہتر نہیں ہو سکتی‘ اورہمیں مستقبل قریب میں تو ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ بھلا اسمبلیوں کے ارکان اپنے ترقیاتی فنڈ کیسے چھوڑیں گے؟ وہ اپنے فنڈ نہیں چھوڑیں گے اور شہری حکومتیں یونہی ہاتھ پائوں مارتی رہیں گی۔ ہم صرف کراچی کو ہی کیوں دیکھ رہے ہیں‘ بارشوں نے تو پورے ملک کو ہی ایک عذاب میں مبتلا کردیا ہے۔ یہ بھی تو دیکھیں۔
اب ہم کراچی سے ہٹ کر پورے ملک کی سیاسی صورتحال پرنظر ڈالتے ہیں تو ہماری مایوسی میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ پچھلے دو سال میں ہمیں جو حکومت ملی ہے، اس کی گھن گرج تو بہت ہے لیکن حاصل وصول کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ اپنے اردگرد نظر دوڑا لیجئے‘ کیا کسی شعبے میں بھی آپ کو کوئی تبدیلی یا ترقی نظر آرہی ہے؟ اگر کوئی تبدیلی نظر آئی ہے تو وہ ہے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری۔ آپ نے کبھی حساب لگایا کہ پچھلے دو سال میں کس کس شعبے میں کتنی بیروزگاری پھیلی ہے؟ یہ جو پناہ گاہیں اور غریبوں کے دسترخوان ہیں ان سے آج تک تو غریبوں کی اشک شوئی نہیں ہوئی۔ اس سے آگے بھی کوئی امید نہیں ہے۔ آج کل کی بارشوں کے بعد یہی موقع تھاکہ وزیراعظم احتساب احتساب کی رٹ لگانے کے بجائے اپنی مخالف جماعتوں کو بھی اکٹھا کرتے اور اس بدنصیب ملک کے مسائل کے حل کیلئے مل جل کرکام کرتے‘ مگر ایسا ہوتا بھی نظرنہیں آتا۔ انا اتنی مضبوط اور طاقتور ہے کہ اپنے سامنے کسی کو بھی لائق اعتنا نہیں سمجھتے۔ شاید اسی نے تو اس ملک کو یہاں تک پہنچایا ہے‘ مگر اپوزیشن کی جماعتیں بھی تو متحد ہوتی نظر نہیں آتیں۔ ان کے بھی اپنے مسائل ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتاکہ یہ جماعتیں کسی اور سے خوف زدہ ہیں یا اپوزیشن کی دوسری جماعتوں سے؟ اسی لئے ہمیں اپنے سامنے اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دے رہا ہے۔
لیکن یہاں پھر ہمیں پنکج ملک یاد آتے ہیں۔ ان کا گایا ہوا ایک گیت ہے جس میں گھپ اندھیرے کو اپنی انتہا تک پہنچا دیا گیا ہے۔ گیت کے بول ہیں ''بجھے دیے، اندھیری رات‘ آنکھوں پر دونوں ہاتھ‘ کیسے کٹے کٹھن باٹ ؟‘‘ یہاں تک تو وہ سوال کرتے ہیں‘ لیکن اس کے بعد وہ سمجھاتے ہیں '' چل کے آزمانا‘‘ یعنی آپ چل کے ہی آزما سکتے ہیں کہ مشکل اور کٹھن راستہ کیسے کاٹا جا سکتا ہے‘ مگر ہم توایک عرصے سے یہ کٹھن راستہ چل کر ہی آزما رہے ہیں اور جتنا بھی ہم آ گے چلتے ہیں اتنا ہی ہماری مایوسیوں میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
چلیے، اب آپ شیخ رشید صاحب کی کتاب پڑھ لیجئے۔ یہ کتاب حال ہی میں چھپی ہے‘ اور اس میں بہت سے انکشافات کئے گئے ہیں۔ یہ کتاب شیخ صاحب کے اپنے بارے میں اور پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ کے بارے میں آپ کی معلومات میں اضافہ کرے گی۔