"MAC" (space) message & send to 7575

کہاں تک سنو گے، کہاں تک سنائیں

موٹروے کے واقعہ کے بعد آج کل پولیس کا بہت ذکر آرہا ہے۔ ہمارا بھی واسطہ پولیس سے پڑ چکا ہے اور کئی بار پڑ چکا ہے، اس لئے سوچا کہ ہم بھی اپنے تجربے آپ تک پہنچا دیں۔ پہلا تجربہ ہمارا اس وقت کا ہے جسے آج کی نسل صدیوں پہلے کا واقعہ کہہ سکتی ہے۔ یہ1955-56 کی بات ہے۔ ہماری نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ ہم اسلامیہ پارک کی ایک گلی میں رہتے تھے۔ وہ نہایت ہی شریفوں کا محلہ تھا۔ سب ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔ ہماری بیگم اپنے میکے حیدر آباد گئی ہوئی تھیں۔ ہم حسب معمول اپنے دروازے کو قفل لگا کر اطمینان سے رات کی ڈیوٹی پر روزنامہ امروز چلے گئے تھے۔ رات کے کوئی بارہ بجے ہمارے ایک محلے دار کا فون آیا کہ تمہارے گھر چوری ہو گئی ہے۔ ہم بھاگے بھاگے گھر پہنچے تو دیکھا کہ قفل ٹوٹا ہے اور ہمارے پڑوسی ہمارے دروازے پر پہرہ دے رہے ہیں۔ وہ اتفاق سے رات گئے باہر سے اپنے گھر آئے تو انہوں نے ہمارا قفل ٹوٹا ہوا دیکھا‘ اس لئے انہوں نے ہمارے دفتر فون کر دیا تھا۔ چند اور پڑوسی بھی وہاں پہنچ گئے تھے مگر وہ گھر کے اندر نہیں گئے تھے۔ گھر کے اندر گئے تو ہماری سمجھ میں نہ آیا کہ کیا چوری ہوئی ہے۔ ہمیں یاد ہی نہیں تھا کہ ہمارے گھر میں کتنے سوٹ کیس یا بکس ہیں۔ ہم نے اپنے پڑوسیوں کو تسلی دی، اور خود بھی آرام سے سو گئے۔ صبح فجر کے وقت ہمارے ایک پڑوسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ ہم آنکھیں ملتے اٹھے تو انہوں نے بتایا کہ مسجد کے غسل خانے میں ایک بکس کھلا پڑا ہے اور اس پر نل کا پانی گر رہا ہے۔ ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ غسل خانے کے نل کا پانی ہمارے بکس پر گر رہا ہے۔ ہم نے وہ بکس اٹھایا اور گھر لے آئے۔ یہ جانتے تھے کہ ہماری بیگم اپنے زیور وغیرہ اپنے ساتھ ہی لے گئی ہیں اس لئے ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ بکس میں کپڑے اسی طرح موجود تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ہماری بیگم نے اپنے کپڑوں پر سے جو سُچا گوٹا کناری اتار کر اس بکس میں رکھی تھی، وہ غائب تھی۔
اپنے پڑوسی شیخ صاحب کے کہنے پر ہم تھانے گئے اور اس چوری کی رپورٹ لکھوا دی۔ اول تو وہاں ہمارا تماشا بنا۔ پولیس والے نے، وہ ریڈر تھا یا کوئی اور، ہمارے لکھی ہوئی رپورٹ دیکھ کر ہنسنا شروع کر دیا۔ اس کی ہنسی ہماری سمجھ میں نہ آئی تو اس نے زور کا قہقہہ لگایا اور فرمایا ''یہ آپ نے چوری کی رپورٹ لکھی ہے یا کوئی کہانی لکھ دی ہے۔ اس کی بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی تو اس نے ہمیں تسلی دی کہ اب موقع پر جا کر تفتیش کی جائے گی۔
اب ہمارا امتحان شروع ہوا۔ ہر روز صبح صبح دو پو لیس والے ہمارے گھر آ جاتے‘ آرام سے کرسیوں پر بیٹھتے اور سوال کرنا شروع کر دیتے کہ آپ کو اپنی گلی میں کس پر شبہ ہے؟ قسمیں کھائیں کہ ہمیں کسی پر شبہ نہیں ہے‘ یہاں سب شریف لوگ رہتے ہیں‘ یہ کسی باہر والے کی کارستانی معلوم ہوتی ہے‘ لیکن وہ کہاں مطمئن ہونے والے تھے۔ پھر انہوں نے گلی سے گزرتے ہر شخص کو پریشان کرنا شروع کر دیا۔ ''آپ کون ہیں؟ کس گھر میں رہتے ہیں؟ آپ کیا کرتے ہیں؟ آپ کو اس بارے میں کیا پتہ ہے، وغیرہ وغیرہ‘‘۔ تین چار دن تو ہم نے یہ برداشت کیا لیکن جب احساس ہوا کہ اس طرح گلی کے شریف لوگوں سے ہمارے تعلقات خراب ہو جائیں گے تو ہاتھ جوڑ کر پولیس والوں کے آگے کھڑے ہو گئے اور کہا ''ہم سے غلطی ہوئی کہ رپورٹ کرا دی‘ ہمیں معاف کر دیجئے اور بھول جائیے کہ ہمارے گھر کوئی چوری بھی ہوئی تھی‘‘۔ اس طرح ہم نے اپنے جان چھڑائی۔
بہت دن بعد دور درشن پر ایک چھوٹا سا ڈرامہ دیکھا۔ اس میں ایک نہایت ہی غریب آدمی کے گھر چوری ہو جاتی ہے۔ اس کے ساتھ بھی وہی ہوتا ہے جو ہمارے ساتھ ہوا تھا۔ پولیس آتی ہے اور وہی سوال شروع ہو جاتے ہیں کہ تمہارا شبہ کس پر ہے۔ وہ غریب آدمی بار بار کہتا ہے کہ میرا شبہ کسی بھی جاننے والے پر نہیں ہے۔ آخر وہ بہت تنگ کرتے ہیں تو وہ کہتا ہے ''مجھے اپنی بیوی پر شبہ ہے‘ وہ میری جیب سے پیسے نکال لیتی ہے‘‘۔
اب آپ دوسری واردات کا بھی پڑھ لیجئے۔ یہ بہت عرصے کے بعد کی بات ہے۔ ایک اتوار کی صبح، جب وہاں کوئی چوکیدار بھی نہیں تھا، ہمارے دفتر کا تالا توڑا گیا اور تین کمپیوٹر اڑا لئے گئے۔ ہماری اوپری منزل میں جو ایک انشورنس کمپنی کا دفتر تھا اس کا سیف توڑ کر بہت کچھ چوری کر لیا گیا۔ اب ہماری شامت جو آئی تو ہم نے پولیس میں رپورٹ کر دی۔ بس پھر کیا تھا‘ ہمارے دفتر میں پولیس والوں کا آنا جانا شروع ہو گیا۔ جو بھی ان کے سامنے آتا اس کے ساتھ نہایت بدتمیزی سے پیش آتے اور سوال کرکر کے اس کا ناک میں دم کر دیتے۔ ہمیں شدید طیش تو اس وقت آیا جب ہماری عمارت کے انجینئر کے ساتھ پولیس والوں نے انتہائی نامناسب سلوک کیا۔ اب اس وقت ان انجینئر صاحب کا نام یاد نہیں آ رہا ہے۔ نہایت ہی شریف آدمی تھے۔ اتفاق سے جب پولیس والے آئے تو وہ بھی وہاں موجود تھے۔ ایک نوجوان پولیس والے نے، جس کی عمر مشکل سے پچیس تیس سال ہو گی، چھوٹتے ہی ان انجینئر صاحب پر ایسے چڑھائی کر دی جیسے سارا قصور انہی کا ہو۔ جس زبان میں وہ ان سے بات کر رہا تھا اور جو مغلظات وہ بک رہاتھا، اس پر ہمیں اتنا غصہ آیا کہ جی چاہا، بڑھ کر اس کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ رسید کر دیں‘ لیکن ان انجینئر صاحب نے ہمیں روک لیا۔ اس نوجوان کے ساتھ جو دوسرا پولیس والا آیا تھا‘ اس نے اس کا کاندھا پکڑا اور اسے لے کر باہر چلا گیا۔ اس وقت ہمیں معلوم ہوا کہ یہ ہے پولیس والوں کی زبان۔ ان کے نزدیک شریف اور بدمعاش سب برابر ہیں۔ اب تفتیش شروع ہوئی تو کبھی ہماری پیشی ایک دفتر میں اور کبھی دوسرے دفتر میں۔ ایک بار لوئر مال کے جس کمرے میں ہمیں بٹھایا گیا‘ اس کے ساتھ والے کمرے سے کسی آدمی کی نہایت ہی درد ناک چیخوں کی آواز آ رہی تھی۔ پہلے اسے مارنے کی آواز آتی پھر اس کی چیخیں شروع ہو جاتیں۔ ہم اپنے کان دبائے یہ چیخیں سنتے رہے۔ اسی جگہ ہمیں ہمارے تین کمپیوٹر دکھائے گئے کہ پہچانو یہی ہیں تمہارے کمپیوٹر؟ ہم نے انہیں دیکھا تو منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکل سکا۔ وہ کمپیوٹر نہیں تھے صرف کھوکھے تھے۔ ان کے اندر کا سب کچھ نکال لیا گیا تھا۔ ہم احتجاج بھی نہیں کر سکتے تھے۔ برابر کے کمرے کی چیخوں نے ہمارے اوسان خطا کر دیئے تھے۔
اب ہمیں عدالت میں بلایا گیا۔ چور کی شناخت کرنے کیلئے۔ وہاں جو منظر ہم نے دیکھا وہ آج تک ہمارے حافظے میں محفوظ ہے۔ ایک ادھیڑ عمر کے غریب آدمی کو ہمارے سامنے لایا گیا اور ہم سے سوال کیا گیا ''یہی چور ہے نا؟‘‘ ہم نے خاتون مجسٹریٹ کی طرف دیکھا اور عرض کیا کہ جب ہمارے دفتر میں چوری ہوئی‘ اتوار کا دن تھا۔ ہم اپنے گھر پر تھے۔ ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کون چور تھا اور اس کی شکل کیسی تھی؟ لیکن قانون کو تو اپنا کام کرنا تھا۔ ہمیں ایک اور تاریخ دے دی گئی کہ اب فلاں تاریخ کو عدالت میں پیش ہوں۔ ابھی یہ مقدمہ چلے گا۔ اب پیشیوں پر پیشیاں شروع ہو گئیں‘ اور ہم عدالت کے چکر لگا لگا کر تھک گئے۔ آخر ہم نے ایک دردناک درخواست پیش کی کہ ہم یہ مقدمہ واپس لیتے ہیں یعنی ہم مانے لیتے ہیں کہ ہمارے دفتر میں کوئی چوری ہی نہیں ہوئی۔ اب یہ مجسٹریٹ صاحبہ کی ذرہ نوازی ہے کہ انہوں نے ہماری یہ درخواست قبول کر لی۔ کمپیوٹر جائیں بھاڑ میں ہم روز روز کی پیشیوں سے تو بچ گئے‘ اور وہ غریب صورت آدمی بھی آزاد ہو گیا جسے پولیس والے چور بنانے پر تلے ہوئے تھے۔ تو صاحب، یہ ہے ہماری داستان‘ اور پولیس اور عدالت سے ہمارا واسطہ۔ اب ہم کیا کہہ سکتے ہیں کیسے کیسے شریف لوگ ان چکروں میں پھنس جاتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں