نام تو ان کا تھا یوسف لودھی‘ مگر وائی ایل کے نام سے کارٹون بنایا کرتے تھے۔ ان کے کارٹون کیا ہوتے تھے، چند لکیریں ہی ہوتی تھیں؛ البتہ ان کارٹونوں کا کیپشن ایسا زوردار ہوتا تھا کہ پورا ملک ہلا کر رکھ دیتا تھا۔ یہ انہی دنوں کی بات ہے جن دنوں کا ذکر ہم نے بیگم ولی خاں کے حوالے سے اپنے پچھلے کالم میں کیا تھا۔ ان دنوں بھی بڑی فراخ دلی کے ساتھ غداری اور حبِ وطن کے تمغے بانٹے جا رہے تھے۔ ایک سیاست داں آج غدار ہے تو کل وہ محب وطن بھی بنا دیا جاتا تھا۔ شرط یہ تھی کہ وہ آپ کے ساتھ ہے یا نہیں۔ وہی وقت تھا جب وائی ایل نے چند لکیروں کا ایک کارٹون بنایا تھا۔ اس کارٹون کا کیپشن ایک سرکاری فرمان تھا:
'' تا حکم ثانی آپ کو محب وطن قرار دیا جاتا ہے‘‘
آپ ذرا اس کیپشن کے طنز کی شدت ملاحظہ فرمائیے۔ اب آپ اسے آج کے حالات پر منطبق کر کے دیکھئے۔ صرف فرق یہ ہے کہ یہاں قریب قریب آدھے ملک پر بغاوت اور غداری کے مقدمے بنائے جا رہے ہیں‘ حتیٰ کہ آزاد کشمیر کو بھی نہ چھوڑا اور اس کے وزیر اعظم پر بھی یہی الزام عائد کر دیا۔ یہاں تو یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی کہ پوری دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچ رہی ہو گی؟ یہی نا کہ اس ملک میں چند لوگوں کے سوا کوئی بھی محب وطن نہیں ہے۔ سب کے سب ملک دشمن اور غدار ہیں‘ اور جو چند لوگ محب وطن ہیں ان کا تعلق کسی نہ کسی طرح سرکار دربار سے ہے۔ یہاں تو بھارت کو ایک ہوّا بنا دیا گیا ہے‘ جس سے وقتاً فوقتاً ہمیں ڈرایا جاتا ہے۔ کل فلاں ہمارا مخالف سیاست داں بھارت کے فلاں آدمی سے ملا تھا‘ اور پرسوں فلاں سیاست داں بھارت کے فلاں شخص کے ساتھ بند کمرے میں بات چیت کرتا پایا گیا تھا۔ ہمارا تین بار وزیر اعظم رہنے والا شخص اس لئے غدار ہو جاتا ہے کہ وہ ہندوستان کے چند لوگوں سے ملا تھا۔ کب ملا تھا؟ کیوں ملا تھا؟ اس کی تحقیق کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی کیونکہ ہم سب ملک دشمن ہیں، غدار ہیں حتیٰ کہ ایک غیر معروف آدمی اٹھتا ہے اور سیاست دانوں کی پوری کھیپ کی کھیپ کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرا دیتا ہے۔ اب عمران خاں اور ان کے حواری کہہ رہے ہیں کہ ان کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ ان کے وزیر با تدبیر سید شبلی فراز صاحب تو یہاں تک فرما رہے ہیں کہ عمران خاں ایسے معاملات میں ہاتھ ہی نہیں ڈالتے۔ وہ جانتے ہی نہیں، یہ سب کیسے ہوا ہے‘ لیکن سوال کرنے والے سوال کر رہے ہیں کہ اگر عمران خاں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے‘ بلکہ وہ اس پر ناخوش ہیں، تو پھر انہوں نے آج تک اپنے پسندیدہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ یہ مقدمہ کیسے درج ہو گیا؟ اور اب وہ اس بارے میں کیا کر رہے ہیں؟ وہ تو ایسے خاموش ہیں جیسے ان کی مرضی کا کام ہو گیا ہے۔
اصل میں یہ سارا جھگڑا میاں نواز شریف کی اس تقریر سے شروع ہوا ہے جس میں پہلی بار وہ کھل کر سامنے آئے ہیں۔ اس طرح انہوں نے ان لوگوں کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا ہے جو ان کی سیاست سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے ایک تقریر کی اور بھڑوں کا چھتہ چھڑ گیا۔ وہ تو اکیلے ہی بو لے تھے لیکن اس کے بعد تو سارا غول بیابانی اپنے بلوں سے نکل کر باہر آ گیا ہے۔ انہوں نے یہی تو کہا تھا کہ ہر ادارے کو پاکستان کے آئین اور قانون کی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہئے۔ کیا یہ آئینی اور قانونی بات نہیں ہے؟ عام لوگوں کو تو اس میں کوئی متنازعہ بات نظر نہیں آئی۔ لوگوں نے وہ تقریر سنی اور خاموش ہو گئے۔ اسے متنازعہ بنانے والے تو وہ لوگ ہیں جو اپنی دانست میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس پر ہمیں فیصل آباد کے شاعر مقصود وفا کا یہ شعر یاد آ گیا ہے؎
مجھے تخریب بھی نہیں آتی
توڑتا کچھ ہوں، ٹوٹتا کچھ ہے
آپ کے حواریوں نے توڑنا کچھ اور چاہا لیکن ٹوٹ کچھ اور رہا ہے۔ آپ اپنی دانست میں جنہیں فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں، آپ کی ان حرکتوں کی وجہ سے وہ خواہ مخواہ متنازعہ بنتے جا رہے ہیں۔ ہم نے یہی تو لکھا تھا کہ ساری دنیا کو اپنا دشمن بنا لینا اچھا نہیں ہوتا۔ آخر کار وہ عناصر بھی اکٹھے ہو جاتے ہیں جو نظریاتی طور پر ایک طرح سے بعدالمشرقین ہوتے ہیں۔ یہ جو تمام جماعتیں اکٹھی ہوئی ہیں اس کی وجہ آپ کی پالیسی اور آپ کے وہ ساتھی ہیں جو ہر روز بلا ناغہ کچھ نہ کچھ بولتے رہنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ لگتا ہے‘ جب تک وہ بولتے نہیں ان کا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ انہوں نے مخالف جماعتوں کو اتنا دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے کہ وہ سب اکٹھے ہونے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اب آپ کے حواری اور آپ کے ساتھی کتنا ہی دبانے کی کوشش کریں، میدان تو سج گیا ہے اور جب ایسے میدان سج جاتے ہیں تو کچھ نہ کچھ ہو کر ہی رہتا ہے۔
لیکن یہاں ہم ایک خطرے کی نشان دہی بھی کرنا چاہتے ہیں۔ جوں جوں اپوزیشن کی تحریک طاقت حاصل کرے گی ہمارے عام انسانی حقوق مزید پامال ہوتے چلے جائیں گے۔ پہلے ہی ہم دیکھ رہے ہیں کہ اظہار رائے کی آزادی پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں حتیٰ کہ نواز شریف کی تقریر پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی۔ وہ تو ہماری عدالت نے اس پابندی کے خلاف فیصلہ دے دیا ہے، ورنہ اگر آج نواز شریف اس کی زد میں آئے تھے تو کل دوسرے اپوزیشن رہنما بھی اس کی زد میں آ چکے ہوتے‘ اور ہاں یہ تماشہ بھی تو دیکھئے کہ رات کی تاریکی میں کھلی سڑک پر ایک خاتون کی جو بے حرمتی کی گئی اس بانت خبروں پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس سے ہماری اپنی پولیس کی کارکردگی کی پول کھل رہی تھی۔ گویا ہمارے ہاں پولیس کا حکم چلتا ہے۔ ہم تو ڈر رہے ہیں کہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو عدالت کے فیصلے کے باوجود ہم سب پر یہ پابندیاں بڑھتی ہی جائیں گی۔ اسی لئے تو ہم نے اپنے کالم کا یہ عنوان رکھا ہے:راستے بند ہیں سب، کوچۂ قاتل کے سوا۔
ایسا لگتا ہے کہ ایک طرف تحریک کا میدان سجے گا، اور دوسری طرف ہم چاروں طرف سے پابندیوں کے گھیرے میں آ جائیں گے۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ واقعی ہمارے برے دن آنے والے ہیں۔ یوں بھی فرانس کی ایک ایجنسی نے ہمارے ملک میں جو سروے کیا ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے پانچ آدمیوں میں سے ہر چوتھا آدمی کہہ رہا ہے کہ ہمارا ملک غلط راستے پر چل رہا ہے۔ یہ لوگ اپنے دل کی بات ہی تو کر رہے ہیں۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں ایک غیر ملکی ادارہ کہہ رہا ہے۔ اب آپ ان غیر ملکی اداروں کو کتنا ہی برا بھلا کہیں ان کے سروے حقیقت پسندانہ ہی ہوتے ہیں۔ بھلا انہیں ہمارے ساتھ کیا عداوت ہو سکتی ہے کہ وہ ہمارے خلاف بات کریں؟
اصل میں یہ سارا جھگڑا میاں نواز شریف کی اس تقریر سے شروع ہوا ہے جس میں پہلی بار وہ کھل کر سامنے آئے ہیں۔ اس طرح انہوں نے ان لوگوں کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا ہے جو ان کی سیاست سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے ایک تقریر کی اور بھڑوں کا چھتہ چھڑ گیا۔