صبح فیس بک کھولی تو جلی لفظوں میں لکھا نظر آیا ''ہمارے دادا اس دنیا میں نہیں رہے‘‘ لیکن یہ پیغام ان کی اپنی ہی فیس بک پر لکھا ہوا تھا۔ سمجھ میں نہ آیا کہ کس کے بارے میں یہ خبر دی گئی ہے۔ ذرا غور کیا تو احساس ہوا کہ یہ تو ان کے اپنے رخصت ہو جانے کی اطلاع ہے۔ ایک جھٹکا سا لگا ''اچھا؟!۔ تو یہ بھی گئے؟ اب ہم کس کس کو روئیں گے؟ آصف فرخی گئے، قاضی جاوید گئے، سلیم عاصمی گئے اور ملتان میں حیدر عباس گردیزی چلے گئے۔ یہ ہمارے چھوٹے سے آزاد خیال اور روشن فکر حلقے کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ اشفاق سلیم مرزا سے تو ایک دن پہلے ہی ملاقات ہوئی تھی۔ یہ ملاقات ہر صبح فیس بک پر ہوتی تھی۔ وہ اسلام آباد میں تھے اور ہم لاہور میں‘ لیکن ایسا لگتا تھا جیسے ہم سامنے بیٹھے باتیں کررہے ہوں۔ صبح ہی صبح فیس بک کھولتے تو مرزا صاحب موجود ہوتے۔ کسی علمی یا سیاسی مسئلے پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے یا ہمارے جانے انجانے اصحاب کے ساتھ کسی تصویر میں بیٹھے ہوئے یا پھر اپنی کسی نظم کے ساتھ موجود ہوتے۔ اس نظم کے ساتھ لکھا ہوتا ''اختتام ہفتہ کی نظم‘‘ اور ہاں‘ ایک بہت ہی خوبصورت تصویر بھی وہاں چسپاں ہوتی۔ ایسے خوش شکل لوگوں کی یہ تصویریں وہ کہاں سے تلاش کرکے لاتے تھے؟ یہ ہمیں نہیں معلوم۔ ایک بار ہم نے ان سے یہ پوچھا بھی۔ ان کا جواب تھا 'کیوں آپ کو یہ اچھا نہیں لگتا؟‘ اب ہم کیا کہہ سکتے تھے۔ فلسفہ‘ تاریخ اور سیاست کے ساتھ ادب بھی ان کا پسندیدہ موضوع تھا اور یہ جمالیاتی حس انہیں ادب سے ہی ملی تھی۔ فلسفے اور تاریخ پر کتابیں لکھتے لکھتے انہوں نے شاعری بھی شروع کر دی تھی۔ ایک مرتبہ لاہور آئے تو ان کے ساتھ ان کی نظموں کا مجموعہ بھی تھا۔ ہم نے کہا‘ بس یہی ایک صنف آپ کیلئے باقی رہ گئی تھی۔ آپ نے اس میں بھی قدم رکھ دیا۔ فلسفے، تاریخ اور نظری سیاست پر ان کی اتنی کتابیں ہیں کہ اس وقت ہم ان کی گنتی نہیں کر سکتے۔ وہ عملی طور پر بھی سیاست میں حصہ لیتے رہے تھے۔ مزدور کسان پارٹی سے ان کا تعلق رہا۔ کچھ عرصے نیشنل عوامی پارٹی کیلئے بھی کام کیا‘ لیکن ان کا اصل کام ان کی کتابیں ہی ہیں۔ انہوں نے تخلیقی اور تعمیری کام اتنا کیا کہ SDPI جیسے ادارے نے انہیں Living Legend قرار دے دیا۔ لِونگ لیجنڈ یعنی ''زندہ اسطورہ‘‘ یا زندہ روایت‘ یہ اعزاز کسی کسی کو ہی نصیب ہوتا ہے‘ یعنی وہ ہستی جو اپنی زندگی میں ہی ایک اسطورہ یا ایک زندہ روایت بن جائے۔ اس موقع پر SDPI نے ایک بھرپور تقریب بھی منعقد کی تھی۔ اس تقریب میں اسلام آباد کے تمام ہی ادیبوں اور دانشوروں نے حصہ لیا تھا‘ اور اشفاق سلیم مرزا کی تخلیقات کے ساتھ ان کی عملی زندگی کا تجزیہ بھی کیا تھا۔
اب ہم یہاں اپنے معاشرے اور اس معاشرے میں رہنے اور بسنے والے اپنے جیسے لوگوں کے بارے میں کچھ نہیں کہیں گے۔ اشفاق سلیم مرزا کا انتقال ہوا تو کیا کسی اخبار یا کسی ٹی وی چینل نے اس کی خبردی؟ جس شخص نے علمی میدان میں اتنا کام کیا ہو کیا اس کا حق نہیں تھا؟ یہ سوال ہم اپنے آپ سے کررہے ہیں۔ جس معاشرے میں پڑھنے پڑھانے کا رواج ہی نہ ہو اس سے یہ سوال کیسے کیا جا سکتا ہے۔ یوں بھی ہمارے معاشرے میں روشن فکر اور ترقی پسند طبقہ سکڑتے سکڑتے اتنا چھوٹا رہ گیا ہے کہ اس کا ہونا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ جب ہماری نامور افسانہ نگار زاہدہ حنا اپنی تحریروں میں ان جی دار لوگوں کا ذکر کرتی ہیں جو اس ذہنی اور فکری تنگ نظری کے دور میں بھی آزاد خیالی کی شمع روشن کئے ہوئے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی اور ہی ملک، کسی اور ہی معاشرے کی بات کررہی ہیں۔ آپ اپنے سیاسی منظرنامے کو ہی دیکھ لیجئے۔ دیکھ لیجئے، یہاں لاکھوں کا مجمع کہاں ہوتا ہے؟ کس کیلئے ہوتا ہے؟ ذرا سوچئے، ہم اپنی آزادی کے بعد لڑھکتے لڑھکتے کس مقام پر پہنچ گئے ہیں؟ آج کا نوجوان طبقہ جس زبان میں بات کرتا ہے اور وہ جن خیالات کا اسیر ہو چکا ہے، اسی سے اندازہ لگا لیجئے کہ ہم کس قعر مذلت میں گرچکے ہیں‘ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ ابھی ہم اتنے تہی دامن بھی نہیں ہیں۔ اشفاق سلیم مرزا جیسی نابغہ روزگار شخصیتیں اگر ایک دو بھی ہمارے درمیان موجود رہیں گی تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابھی سورج مشرق سے ہی نکل رہا ہے۔
اشفاق سلیم مرزا اوورسیز پاکستان فائونڈیشن کے ڈائریکٹر رہے۔ وہ پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس میں بھی کام کرتے رہے۔ شاید فائونڈیشن کے سلسلے میں ہی وہ ملتان بھی آتے تھے۔ ملتان میں ہی انہوں نے شادی کی اور پھر اپنے اور اس خاتون کے بچوں کی جس طرح پرورش کی، ان کیلئے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم کا بندوبست کیا اور ان کی زندگی بنائی اس پر ان کی جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہے۔ ہم تو یہ سوچ سوچ کر ہی حیران ہوتے رہے کہ ہمارے درمیان اشفاق سلیم مرزا جیسی ہستیاں بھی ہیں۔
اب ملتان کا ذکر آیا ہے تو اس نوجوان کو بھی یاد کر لیں جس کا نام حیدر رضا گردیزی تھا۔ نوجوان ہم نے اس لئے کہاکہ ہمارا تعلق ان کے والد سید حسن رضا گردیزی سے رہا تھا۔ کیا خوب بزرگ تھے وہ بھی۔ سرائیکی میں شاعری کرتے تھے۔ ان کے ایک عزیز نے ان کی شاعری کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا ہے۔ اردو شاعری میں جسے ہجو یا ہجو ملیح کہتے ہیں، سید حسن رضا گردیزی نے سرائیکی شاعری میں اسے کمال تک پہنچا دیا تھا۔ ان کی حسِ مزاح بھی کمال کی تھی۔ ہمارے جاننے والوں میں ایسا خوش مزاج شخص کوئی اور نہیں تھا۔ جب ضیاالحق نے ہمیں ملتان بدر کیا تو لاہور ان کا خط آیا۔ لکھا تھا ''اب ثابت ہواکہ تم نجیب الطرفین ہو۔ مصائب کا نزول نجیب الطرفین لوگوں پر ہی ہوتا ہے‘‘۔ یہ تو تھے سید حسن رضا گردیزی۔ ان کے صاحبزادے سید حیدر عباس گردیزی نے اپنے عزیز اور پاکستان کی ترقی پسند سیاست کے بہت بڑے نام، سید قسور گردیزی کی روشن خیال، اور خرد افروز روایت کو آگے بڑھایا۔ وہ ملتان کے نوجوانوں میں اپنی سیاسی بصیرت کے حوالے سے الگ ہی پہچانے جاتے تھے۔ سید قسور گردیزی کے بعد یہ ان کا ہی گھر تھا جہاں باہر سے آنے والے ترقی پسند دانشوروں اور سیاستدانوں کی پذیرائی کی جاتی تھی۔ سید قسور گردیزی نے آخری عمر تک نیشنل عوامی پارٹی سے اپنا تعلق قائم رکھا اور ہم جیسے لوگوں کے اصرار کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی سے اپنا رشتہ نہیں جو ڑا‘ لیکن سید حیدر عباس گردیزی پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے۔ اس جماعت کیلئے انہوں نے بہت کام کیا‘ لیکن پیپلزپارٹی نے ان کی طرف کبھی توجہ نہیں کی۔ آخرمیں وہ اس جماعت سے بددل ہوگئے تھے۔ ملتان میں پیپلز پارٹی کو بھی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے متوقع امیدوار ہی راس آتے تھے اور حیدر عباس ان میں سے نہیں تھے‘ لیکن سید قسور گردیزی کے بعد ان کا دم ہی غنیمت تھاکہ انہوں نے اس روایت کو زندہ رکھا۔ ہمیں ان کے انتقال کا سن کر جہاں بہت ہی افسوس ہوا، وہاں حیرت بھی ہوئی کہ ان کی ایسی عمرتو نہیں تھی کہ وہ یہ دنیا چھوڑ جاتے۔ ہمیں ملتان چھوڑے کافی عرصہ ہو گیا ہے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس علاقے کی سیاست میں قسور گردیزی کی روایت کو زندہ رکھنے والا کوئی اور بھی ہے یا نہیں۔ قسور گردیزی کے صاحبزادے سید زاہد حسین گردیزی فیس بک پر تو بہت سرگرم نظر آتے ہیں لیکن انہوں نے یا ان کے دوسرے بھائیوں میں سے کسی نے بھی سیاسی میدان میں قدم نہیں رکھا۔ تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حیدر عباس گردیزی کے بعد اس خاندان سے سیاسی روایت ہی رخصت ہوگئی؟ اب اگر وہاں کسی نے ترقی پسند اور روشن خیال روایت کو زندہ رکھا ہوا ہے تو وہ اس علاقے کے ادیب و شاعر ہیں۔