ہم کو ئی نہایت ہی احمقانہ بات کرتے ‘یاہماری سمجھ میں کو ئی بات نہیں آتی تو ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے '' اگر عقل بازار میں ملتی تو اسے دکان سے خرید لا تے‘‘۔ہم یہاں عقل اور اس کے ساتھ جمالیاتی حس کا بھی اضافہ کئے دیتے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ عقل کے ساتھ جمالیاتی حس بھی اگر بازار میں ملتی تو دکان سے خرید لاتے ۔یہ بات ہمیں اپنے شہر لاہور کو ''سوہنا لاہور‘‘ بنانے کے منصوبے سے یاد آئی ہے۔ مہینہ ڈیڑ ھ مہینہ پہلے ہم لبرٹی چوک سے گزرے توحیران رہ گئے کہ وہاں کی سڑکیں عجیب سے پیلے پیلے‘ہرے ہرے اور پھیکے پھیکے گلابی رنگوں سے رنگی ہو ئی ہیں۔ پہلے تو خیال آیا کہ شاید ان رنگوں سے بھری ہو ئی کوئی گاڑی یا گاڑیاں ادھر سے گزری ہوں تو ان سے یہ رنگ سڑک پر گر گئے ہوں۔بعد میں پتہ چلا کہ شہر لاہور کو خوبصورت بنانے کیلئے لبرٹی چوک کے آس پاس کی سڑکوں کو ان رنگوں سے رنگا گیا ہے۔ہم نے سو چا یہ کون بزر جمہر ہیں جنہوں نے یہ بھدے رنگ ان سڑکوں پر بکھیر کر انہیں بد نما کر دیا ہے؟کسی بھی عقل مند آدمی کے سان و گمان میں بھی نہیں آ سکتا کہ ایسے بھدے رنگ بکھیر کر کسی شہر یا کسی شہر کے کسی علاقے کو خوبصورت بنایا جا سکتا ہے اور اسے سوہنا لاہور کہا جا سکتا ہے ۔یہ بھی معلوم ہوا کہ لبرٹی چوک کا نام تبدیل کر کے اسے ''رین بو چوک ‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔رین بو یعنی دھنک۔آخر‘یہ چوک جو سالہا سال سے لبرٹی چوک کہلاتا چلاآرہا ہے‘اسے نیا نام دینے کی کیاضرورت ہے؟ اور وہ بھی رین بو یعنی دھنک۔ایک صاحب نے ہماری معلومات میں اضافہ کیا کہ دھنک توتیسری جنس یعنی خواجہ سر ائوں کی علامت مانی جا تی ہے ۔ حالانکہ یہ چوک تو بڑے بڑے جی دار اور بلند آہنگ انقلابیوں کا گڑھ ہے ۔ ہمارے اپنے شہر‘اپنے ملک یا دنیا بھر میں کسی جگہ بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو اس شہر کے نو جوان لڑکے اور لڑکیاں ہر شام اس چو ک پر اکٹھے ہو کر موم بتیاں جلاتے ہیں اور نعرے لگا تے ہیں۔
ہمیں تو اپنے بزرگ دوست اکرام الحق صاحب یاد آ رہے ہیں۔پکے پاکستانی اور اپنے وطن کیلئے ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے ہر وقت تیار۔تعلق تو ان کا ہمارے پنجاب سے ہی تھالیکن پاکستان سے پہلے بھوپال میں زندگی گزاری تھی ۔ پاکستان میں وہ کئی بڑے بڑے اداروں کے سر براہ رہے اور اب ریٹائر منٹ کی زندگی گزار رہے تھے ۔ پاکستان کے حالات پر ہر دم کڑھتے رہتے تھے ۔ جب بھی ملتے انہیں یہی پریشانی لاحق ہو تی کہ یہ اس ملک کو کیاہو گیاہے۔ یہ ہم کئی سال پہلے کی بات کر رہے ہیں جب وہ حیات تھے۔ ان کو قلق تھا کہ یہ قائد اعظم کا پاکستان نہیں ہے ۔ اور پھر ہم نے ایک شام دیکھا کہ وہ لبرٹی چوک پر کپڑے کا ایک بینر لئے کھڑے ہیں ۔اس بینر پر لکھا ہے ''قائد اعظم کا پاکستان واپس لا ئو‘‘ ۔ جب تک ان کی صحت نے اجازت دی اس وقت تک ہر شام تن تنہا اس چوک پر وہ بینر لئے کھڑے ہوتے ۔ہم نے انہیں پاکستان کیلئے روتے دیکھا۔ہم تو یہ عرض کر رہے ہیں کہ لاہور کا یہ لبرٹی چوک اس اعتبار سے تاریخی حیثیت رکھتا ہے کہ جب بھی ہمارے ہاں کسی بھی حکومت کی طرف سے انسانی حقوق پامال کئے جا تے ہیں تونو جوان اور بزرگ انقلابیوں کے جتھے کے جتھے ہر شام اس چوک پر اکٹھے ہو جا تے ہیں۔ انقلابی بینر لہراتے ہیں اور موم بتیاں روشن کرتے ہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ اس چوک کا نام بدلنے کی ضروت ہی کیوں پیش آ ئی ہے؟اور پھر اس کی سڑکوں پر سستی اور گھٹیا پیسٹریوں والے بھدے رنگ پھیلا کر بد ذوقی کا مظاہرہ کیوں کیا جا رہا ہے؟لاہور شہر کو ''سوہنا‘‘ بنانے کے اور کئی طریقے ہیں۔کیا اس شہر کے سارے مشہور و معروف آرٹسٹ کہیں چلے گئے ہیں کہ ان سے مشورہ نہیں کیا جا تا؟
اب آجائیے اس انڈر پاس کی طرف جس نے ہمیں چار پانچ مہینے پریشان رکھا۔ یہ ہے فردوس مارکیٹ کا انڈر پاس۔یہ اتنا لمبا چوڑا انڈر پاس تو نہیں ہے کہ اس پر چار پانچ مہینے لگ جا تے ۔ ہماری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ اس عرصے میں اس سڑک کے ارد گرد رہنے والوں اور وہاں کے دکانداروں پر کیا گزری ہو گی ۔ ایک دن اسی علاقے کے ایک صاحب نے جل کر کہا تھا''اگر شہباز شریف ہو تا تو اب تک ایسے دو چار انڈر پاس بن چکے ہو تے ‘‘۔ ہمارے اپنے وزیر اعلیٰ کو اور کچھ نہیں سوجھا تو اپنے اختیارات جتانے کیلئے چیف انجینئر کو معطل کر دیا تھاحالانکہ اس غریب کا کوئی قصور نہیں تھا‘ساری ذمہ داری ٹھیکیدار کی تھی ۔آخر کارخدا خدا کر کے یہ انڈر پاس بن گیا۔ اب یہاں پھر بد ذوقی کا مظاہرہ کیا گیا۔ سنٹر پوائنٹ کی طرف ایک بہت ہی لمبا چوڑا بورڈ لگایا گیا ہے جس پر اردو اور انگریزی میں لکھا ہے''خوش آمدید لعل شہباز قلندر انڈر پاس ‘‘۔یہاں ایسے ویلکم کیا جا رہا ہے جیسے لاہور شہر میں پہلا انڈر پاس بنایا گیا ہو۔ بھائی صاحب‘اس شہر میں توپہلے ہی کئی انڈر پاس بنے ہوئے ہیں۔ یہاں خوش آمدید اور ویلکم کی کیا ضرورت تھی ‘لیکن پھر وہی بات کہ اگر جمالیاتی حس بازار میں ملتی توکسی دکان سے خرید نہ لی جا تی ۔
اب لاہور شہر کا ذکر ہو رہا ہے تو ہمیں محمد حسن معراج کی کتاب ''ریل کی سیٹی ‘‘ یاد آ گئی ہے ۔ یہ کتاب ہمارے پاس ایک سال سے رکھی تھی‘ لیکن اس کے نام ''ریل کی سیٹی‘‘ کی وجہ سے ہم نے اسے پڑھنے کی ضروت نہیں سمجھی ۔ سوچتے تھے کہ یہ کوئی سیر و سیاحت کی قسم کی کتاب ہو گی ۔ آخر ایک دن یو نہی اسے اٹھا کر پڑھنا شروع کیا تو جب تک اسے ختم نہیں کر لیا اس وقت تک آنکھ نہیں جھپکی ۔ ارے‘یہ تو اپنے شہروں اور اپنے ہی علاقوں کی بالکل ہی مختلف انداز کی تاریخ ہے ۔یہ تاریخ ہے جو کہانیوں کی شکل میں لکھی گئی ہے۔ مصنف کی ریل گاڑی راولپنڈی سے چلتی ہے اور بہاول پور ‘بلکہ چنن پیر تک پہنچ جاتی ہے۔ اسے آپ عوامی تاریخ کہہ سکتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ تاریخ نے اپنے علاقے اور اپنے شہر کے لو گوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔لکھنے والے کی ریل گاڑی اسے جہاں جہاں بھی لے جا تی ہے وہاں کی قدیم اور جدید تاریخ اس کے قدم پکڑ لیتی ہے۔قدیم زمانے میں وہاں کیا ہوا؟ اور جدید زمانے میں‘یعنی بر صغیر کی تقسیم کے وقت اس سر زمین اور اس سرزمین کے باسیوں پر کیا گزری۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اس سر زمین کے باسی کون تھے؟ان میں ہمارے زمانے کی مشہور و معروف شخصیتیں بھی شامل ہیں ‘اور وہ گمنام لوگ بھی جن کا تاریخ میں کبھی نام نہیں آ ئے گا۔ ان کے بارے میں فیض کی زبان میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ''یہ خون خاک نشیناں تھا رزق ِخاک ہوا‘‘۔ محمد حسن معراج نے یہ تاریخ لکھ کر ہمیں جھنجھوڑا ہے کہ ان نامور اور گمنام لوگوں کو فراموش نہ کرو جنہیں تاریخ نے اپنے پیروں تلے روند ڈالا۔ لیکن اس کتاب میں صرف رونے دھو نے کی باتیں ہی تو نہیں ہیں بلکہ ہمارے دل و دماغ کو تسکین پہنچانے والے واقعات کا تذکرہ بھی ہے۔یوں کہہ لیجے کہ یہ عوامی تاریخ ایک لبرل اور روشن خیال قلم سے لکھی گئی ہے۔ہم نے یہ کتاب ختم کی تو خیال آیا کہ محمد حسن معراج راولپنڈی سے شیخو پورہ ‘ بلکہ شاہدرہ تک تو آئے لیکن لاہور کو بھول گئے ۔تو کیا ان کی ریل گاڑی کبھی لاہور‘قصور اور ساہیوال (منٹگمری) کا راستہ بھی اختیار کرے گی؟یہ سوال ہم معراج صاحب سے ہی کر نا چا ہتے ہیں ۔لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کتاب میں کہیں بھی مصنف کا تعارف نہیں کرایاگیا ہے ۔ اب ہم سوال کریں تو کس سے کریں؟ہمارے نقاد اور افسانہ نگار ناصر عباس نیر نے بھی کتاب کے بارے میں تو لکھا ہے‘مگر یہ نہیں بتایا کہ یہ معراج صاحب کون ہیں؟