ہماری اولاد نے ہمارے گاڑی چلانے پر پا بندی لگا دی ہے‘ اس لئے ہم پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہیں۔ ہم ایک نجی کمپنی کی گاڑی پر دفتر جاتے ہیں اور اسی کی گاڑی پر واپس گھر آتے ہیں۔ ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ یہ گاڑیاں زیادہ تر اچھے‘ پڑھے لکھے اور معقول گھرانوں کے نوجوان اور ادھیڑ عمر کے لوگ چلا رہے ہیں۔ ایک دن یوں ہوا کہ ایک صاحب حسب معمول ہمیں گاڑی میں لئے جا رہے تھے کہ اچانک انہوں نے سیدھے راستے چلتے چلتے ایک اور سڑک کی طرف گاڑی موڑ لی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب فردوس مارکیٹ کا انڈر پاس ابھی مکمل نہیں ہوا تھا۔ ہم نے ان سے کہا بھی کہ آپ غلط راستے پر جا رہے ہیں مگر وہ نہ مانے‘گلبرگ کی ایک گلی کی طرف چل دئیے اور پھر اس گلی میں چلتے ہوئے انہوں نے ایک مکان کی طرف اشارہ کیا ''یہ میرا گھر ہے‘‘۔ گویا وہ ہمیں یہ جتانا چاہ رہے تھے کہ مجھے ایسا ویسا ڈرائیور نہ سمجھنا‘ میں گلبرگ جیسے مہنگے علاقے کے اتنے بڑے مکان کا مالک ہوں۔ اب ہم کیا کہہ سکتے تھے۔ مرعوب ہو گئے۔ اسی طرح ایک اچھی شکل اور اچھی صحت کا نوجوان ڈرائیور ہمیں ملا۔ ہمارے گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے سوال کر ڈالا کہ میں اپنے بچوں کی تر بیت کس طرح کروں؟ انہیں کیسی تعلیم دلائوں؟ وہ شاید ہمیں کوئی عالم فاضل قسم کا استاد سمجھ رہا تھا۔ خیر، ہم سے جو بھی ہو سکا اس کا جواب دے دیا۔ اب وہ ہمارے جواب سے مطمئن ہوا یا نہیں؟ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ پھر ادھیڑ عمر کے ایک صاحب ہمیں ایسے بھی ملے جنہیں دیکھ کر ہی ہم ان سے مرعوب ہو گئے تھے‘ لیکن اس سفر میں ہمیں اپنے کام سے کام رکھنے والے ڈرائیور بھی ملتے ہیں۔
سب سے زیادہ ہمیں حیرت اور خوشی اس وقت ہوئی جب ہم ایک گاڑی میں بیٹھے تو دیکھا کہ وہ گاڑی ایک خاتون چلا رہی تھیں۔ ہم نے خواتین کو موٹر سائیکلیں اور رکشا چلاتے تو دیکھا تھا‘ اور ہم خوش ہوتے تھے کہ اب ہماری خواتین ہر کام کر رہی ہیں‘ لیکن یہ پہلی بار تھی کہ ہم نے کسی خاتون کو گاڑی یا ٹیکسی چلاتے دیکھا۔ یہاں ہم نے عورت نہیں کہا بلکہ خاتون کہا ہے۔ ہمارے لئے ہر عورت خاتون ہی ہوتی ہے‘ چاہے وہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتی ہو۔ ہم نے ان خاتون کی شکل تو نہیں دیکھی کہ کورونا کی منحوس وبا کی وجہ سے ہماری طرح انہوں نے بھی منہ پر ماسک کا ڈھاٹا لگایا ہوا تھا‘ لیکن جب بات ہوئی تو ان کے لہجے سے معلوم ہوا وہ کسی اچھے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں‘ اور خاصی پڑھی لکھی ہیں۔ ہم گاڑی میں کسی سے بات نہیں کرتے۔ خاص طور سے کسی اجنبی عورت سے اس طرح بات کرنا خاصا معیوب معلوم ہوتا ہے لیکن ان خاتون کے لہجے نے ہمیں ان سے یہ پوچھنے پر مجبور کر دیا کہ آپ کب سے گاڑی چلا رہی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا ''ایک مہینے سے‘‘۔ اس پر ہم نے انہیں شاباش دی اور کہا کہ یہ بہت اچھی بات ہے۔ ہم سب کو کام کرنا چاہئے‘ کام کوئی برا نہیں ہوتا۔ یہاں ہم نے اپنی حیرت اور خوشی‘ دونوں کا ذکر کیا ہے۔ حیرت تو واقعی اس لئے ہوئی کہ ایک خاتون ٹیکسی چلا رہی ہیں‘ اور خوشی بھی اسی وجہ سے ہوئی کہ ایک خاتون ٹیکسی چلا رہی ہیں۔ ہم نے یہ واقعہ اپنے دفتر میں سنایا تو وہی جواب سننے کو ملا جس کی توقع تھی کہ اس عورت کو ڈر نہیں لگتا؟ ہم اپنے ارد گرد جو واقعات سنتے اور پڑھتے رہے ہیں‘ اس کے بعد بھی اس عورت میں اتنی ہمت ہے کہ ٹیکسی چلا رہی ہے؟ ہم نے کہا ''ان خاتون کی یہ ہمت اور یہ بہادری ہی تو ہے جس پر ہم نے انہیں شاباش دی تھی‘‘۔
یہاں ہمیں مبشر زیدی یاد آ گئے۔ وہی 'ایک سو لفظوں کی کہانیاں‘ والے۔ بیس پچیس سال انہوں نے پاکستان کے اخباروں میں کام کیا۔ یہاں صحافت سے بیزار ہوئے تو امریکہ چلے گئے۔ وہاں انہیں کوئی اور کام نہ ملا تو واشنگٹن میں ایک نجی کمپنی کی ٹیکسی چلانا شروع کردی۔ اب ٹیکسی کے اس سفر میں انہیں وہاں جو کہانیاں مل رہی ہیں، وہ فیس بک کے ذریعے ہمیں بھی سنا رہے ہیں یا پڑھا رہے ہیں۔ یہ کہانیاں انہیں ان لوگوں کے ذریعے ملتی ہیں جو ان کی ٹیکسی میں سفر کرتے ہیں۔ یہ گورے ہوتے ہیں اور کالے بھی‘ اور شاید امریکہ میں لوگوں کو باتیں کرنے کا بھی بہت شوق ہے کہ گاڑی میں بیٹھتے ہی باتیں شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح مبشر کو کوئی نہ کوئی کہانی مل جاتی ہے۔ اب چونکہ وہ افسانہ نگار ہیں، اور کہانی کہنے کا سلیقہ جانتے ہیں تو ان کی بیان کی ہوئی ایسی ایسی کہانیاں ہمیں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ جی چاہتا ہے انہیں ادبی جریدوں کی زینت بنا دیا جائے‘ اور ہمیں یقین ہے کہ وہ یہ کہانیاں قلم بند کریں گے اور وہ دلچسپ بھی ہوں گی۔ امریکہ کے جدید فکشن میں کیرواک کا ناول On the Road بہت مشہور ہوا تھا‘ بلکہ اس ناول کو امریکی ادب کے جدید کلاسیک میں شمار کیا جاتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ مبشر بھی اپنے تجربات پر مبنی ایسا ہی ناول لکھیں گے۔
اب آجائیے پھر پاکستان کی طرف بلکہ لاہور کی طرف۔ ہم نے فردوس مارکیٹ کے ساتھ بننے والے انڈر پاس کا اتنا ذکر کیا ہے کہ ہمارے کئی پڑھنے والے اس ذکر سے بیزار ہو گئے ہوں گے‘ لیکن ان سب سے معذرت کے ساتھ ہم ایک بار پھر اسی انڈر پاس کا ذکر کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی پچھلے دنوں اس خاتون فن کار کا انتقال ہوا‘ جس کے نام پر یہ علاقہ مشہور ہے۔ یہ تھیں ہماری پاکستانی فلموں کی ہر دلعزیز ہیروئن فردوس۔ انہوں نے اردو‘ پنجابی اور پشتو کی ڈیڑھ سو سے زیادہ فلموں میں کام کیا۔ ان کی فلم ''ہیر رانجھا‘‘ تو اتنی مقبول ہوئی تھی کہ فلموں سے دلچسپی رکھنے والے عام لوگ انہیں ہیر ہی کہنے لگے تھے۔ ہم یہاں صرف یہ سوال کرنے کی جرأت کر رہے ہیں کہ اس علاقے میں جو انڈر پاس بنا ہے کیا اسے فردوس کے نام سے منسوب نہیں کیا جا سکتا تھا؟ ہم یہاں اپنی کوتاہی کا اعتراف بھی کئے لیتے ہیں کہ یہ تجویز ہمیں اس وقت پیش کرنا چاہئے تھی جب یہ انڈر پاس بن رہا تھا‘ لیکن یہ انڈر پاس بنانے والے تو یہ جانتے تھے کہ یہ پورا علاقہ کس نام سے مشہور ہے؟ اور کیوں مشہور ہے؟ اور یہ بھی آپ جانتے ہوں گے کہ اس علاقے سے جو سڑک گزر رہی ہے اس کا نام ''علی زیب روڈ‘‘ ہے۔ یہ نام ہماری فلموں کے پسندیدہ ہیرو محمد علی اور مشہور ہیروئین زیبا کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس لئے کہ یہاں ان کا مکان ہے۔ اگر فلمی فنکاروں کے نام پر اس سڑک کا نام رکھا جا سکتا ہے تو اس علاقے کے انڈر پاس کا نام بھی ایک اور فلمی ہیروئن کے نام پر رکھا جا سکتا تھا۔ اب یہ جو ہمارے وزیر اعلیٰ ہیں وہ تونسہ شریف اور ملتان شریف کو تو جانتے ہوں گے لیکن لاہور شہر سے ان کی واقفیت بس سننے سنانے اور پڑھنے پڑھانے تک ہی ہو گی۔ تونسہ تو ان کا اپنا شہر ہے‘ اور ملتان سے ان کا تعلق اپنی تعلیم کی وجہ سے ہے۔ وہ اس انڈر پاس کا نام رکھنے کیلئے سندھ پہنچ گئے، اور لعل شہباز قلندرکا نام یہاں لے آئے۔ بلا شبہ لعل شہباز قلندر بہت ہی بڑے بزرگ ہیں۔ ان کے عقیدت مندوں کی تعداد لاکھوں ہی نہیں بلکہ کروڑوں تک پہنچتی ہے۔ وہ تو اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ ایک انڈر پاس تو ان کی بزرگی سے کہیں کم تر ہے۔ یہ سعادت اگر فردوس جیسی فلمی ہیروئین کو حاصل ہو جاتی تو کیا حرج تھا؟ اب آپ کہہ سکتے ہیں کہ جو ہونا تھا وہ ہو چکا‘ اب کیا کیا جا سکتا ہے؟ بلکہ ہمارے وزیر اعلیٰ نے اس انڈر پاس کے ایک سرے پر پانچ چھ فٹ اونچا ایک ستون بھی بنوایا ہے جس پر نہایت ہی جلی حروف میں اپنا نام کندہ کرایا ہے۔ آپ نے پورے لاہور میں کسی بھی انڈر پاس پر ایسا جگمگاتا ہوا ستون نہیں دیکھا ہو گا۔ چلئے، فردوس بھی اپنی مارکیٹ کی وجہ سے زندہ ہی رہے گی۔