ہمیں اب تک یقین نہیں آ رہا ہے کہ سرکار دربار میں ہماری بھی سنی گئی ہے اور فردوس مارکیٹ انڈر پاس کا نام وہی رکھ دیا گیا ہے جس کے لئے ہم نے گزارش کی تھی۔ ہم تو یہی کہیں گے کہ لیجئے صاحب، یہ تو کرشمہ ہو گیا۔ کہیں نہ کہیں تو ہماری بھی سنی گئی۔ آج تک تو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے سرکار سے کوئی گزارش کی ہو، کوئی تجویز پیش کی ہو اور وہ منظور بھی ہو گئی ہو۔ ہم نے عرض کیا تھا کہ اگر اس سڑک کا نام علی زیب رکھا جا سکتا ہے تو وہاں بنائے گئے انڈر پاس کا نام فردوس انڈر پاس کیوں نہیں رکھا جا سکتا؟ فردوس بھی تو اپنے زمانے کی اردو اور پنجابی فلموں کی نہایت ہی مقبول فن کارہ تھی۔ ہم نے یہ کئی ہفتے پہلے لکھا تھا‘ اور بھول گئے تھے کہ بھلا ہماری کون سنے گا اور کوئی سنے گا بھی تو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دے گا‘ لیکن کل ایک اخبار میں یہ خبر پڑھی تو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا کہ اس انڈر پاس کا نام واقعی بدل دیا گیا ہے‘ اور اب وہ فردوس انڈر پاس ہو گیا ہے۔ اس پر اپنی پیٹھ ٹھونکنے کو جی چاہا کہ کبھی کبھی یا کہیں نہ کہیں ہماری گزارش پر کان دھر لئے جاتے ہیں۔ ہم خوش ہمارا خدا خوش۔ پھر یہ خیال آیا کہ شاید یہ تجویز کسی اور صاحب نے بھی پیش کی ہو، اور ان کی تجویز یا سفارش پر یہ عمل درآمد کیا گیا ہو؟ خیر، کچھ بھی ہو ہم تو اسے اپنی کامیابی ہی تسلیم کریں گے۔ اب رہے ہمارے وزیر اعلیٰ تو تاریخ کے اوراق میں اپنا نام محفوظ کرانے لئے انہوں نے اس انڈر پاس کے قریب ہی چار پانچ فٹ اونچا سیاہ پتھر کا ستون نصب کرا لیا ہے‘ اور اس سیاہ ستون پر نہایت ہی خوبصورت سنہری الفاظ میں اپنا نام کندہ کرایا ہے۔ کسی نے ہمیں یاد دلایا کہ شہباز شریف نے بھی تو ایک انڈر پاس کے ساتھ اسی طرح اپنا نام کندہ کرایا ہوا ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ بے شک ان کا نام بھی کندہ کیا ہوا ہے بلکہ ہمارے ہاں تو یہی ہوتا آ رہا ہے کہ اگر کسی نے کوئی گلی یا سڑک بھی بنوا دی تو اس کے کنارے بھی اپنے نام کا پتھر لگوانا نہیں بھولے‘ لیکن جس شاہانہ انداز میں ہمارے نئے وزیر اعلیٰ نے ایک چمک دار سیاہ ستون پر اپنا نام کندہ کرایا ہے اس کی شان ہی اور ہے۔ ہم نے تو یہ عرض کیا تھا یہ پہلا انڈر پاس ہے جس کے داخلے پر اردو اور انگریزی میں خوش آمدید بھی لکھا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے پورے لاہور میں یہی ایک انڈر پاس ہو۔ بہرحال وہ پنجاب جیسے اتنے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں‘ اب یہ ان کی مرضی ہے‘ وہاں جو بھی لکھوائیں۔ ہمیں تو خوشی اس بات کی ہے کہ اس انڈر پاس کو اس کا اصل نام مل گیا ہے۔ یاد رہے کہ اداکارہ فردوس کا انتقال بھی اس انڈر پاس کی تعمیر کے دوران میں ہی ہوا تھا۔
خیر، پانچ چھ مہینے میں یہ انڈر پاس بن گیا۔ اس طرح ان علاقوں کی ٹریفک کسی رکاوٹ کے بغیر رواں دواں ہو گئی ہے۔ اب وزیر اعلیٰ نے جہاں یہ کام کر دیا ہے وہاں لگے ہاتھوں ایک کام اور بھی کر لیں تو اچھا ہو گا۔ لاہور شہر میں جتنے بھی انڈر پاس ہیں‘ ان کے داخلی اور خارجی راستوں پر ہماری تاریخی، ادبی اور سیاسی شخصیتوں کے نام لکھے ہیں‘ لیکن یہ کہیں نہیں لکھا کہ یہ انڈر پاس ہمیں کہاں لے جائے گا۔ یہ ہم پہلے بھی کئی بار لکھ چکے ہیں کہ ہر انڈر پاس کے دونوں راستوں پر داخل ہونے سے پہلے واضح طور پر یہ ضرور لکھا جائے کہ ان انڈر پاس سے نکل کر ہم کہاں پہنچیں گے۔ ناموں کے اس چکر میں ہم کئی بار بھٹک چکے ہیں۔ ایک بار ہم مسلم ٹائون سے چلے تو گارڈن ٹائون کے بجائے نیو کیمپس پر جا پہنچے ہمارا خیال ہے کہ راستوں کے نام لکھنے میں کچھ زیادہ خرچ بھی نہیں آئے گا۔ کیا خیال ہے؟ جب یہ کام ہو ہی رہا ہے تو کیوں نہ یہ بھی ہو جائے۔
اور ابھی ابھی یاد آیا کہ ہم نے لبرٹی چوک کی سڑکوں پر بھدے بھدے نیلے نیلے‘ پیلے پیلے اور اودے اودے رنگ دیکھ کر احتجاج کیا تھا کہ لاہور جیسے فنی اور ثقافتی شہر کے ساتھ یہ کیا مذاق کیا جا رہا ہے؟ یہ رنگ ایسے بکھیر دیئے گئے ہیں جیسے رنگوں والی کوئی گاڑی انہیں پھینکتی چلی گئی ہو۔ اب تو کچھ پہلے یہ دیکھ کر تو واقعی غشی کے دورے پڑنے لگے کہ لاہور کی یہ وبا کراچی بھی پہنچ گئی ہے‘ بلکہ کراچی والے تو ہم سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے۔ انہوں نے تو ایسے ایسے نمونے پیش کئے ہیں کہ داد دیئے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ اب ہم اسے بد مذاقی کہیں یا کچھ اور کہ ایک ہی محلے اور ایک ہی علاقے کی عمارتوں کے مکانوں کو اودے اودے‘ نیلے نیلے اور پیلے پیلے رنگوں میں نہا دیا گیا ہے اور یہ عمارتیں ایک دوسرے کے ساتھ کاندھے سے کاندھا جوڑے کھڑی ہیں۔ ہم نے تو یہ منظر ٹیلی وژن پر دیکھا ہے‘ خدا جانے سامنے دیکھنے سے یہ کیسا مسخرہ پن نظر آتا ہو گا؟ ہم کراچی میں کسی اور کو تو جانتے نہیں ہیں۔ ایک احمد شاہ ہیں جن کے علمی، فنی اور ادبی ذوق کے ہم برسوں سے شیدائی ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ انہوں نے بھی اپنے شہر کی یہ درگت بنتے دیکھ کر ایک لفظ تک نہیں کہا۔ ٹھیک ہے ہر محلے اور علاقے کا اپنا رنگ متعین کرنا اس کا حق ہے‘ لیکن یہاں تو تماشہ یہ ہے کہ ایک عمارت کا اگر سبز ہے تو اس کے ساتھ والی عمارت اودے رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا تھا کہ اس شہر کے آرٹسٹوں سے مشورہ کر لیا جاتا۔ شاہد رسام کراچی کے نامور آرٹسٹ ہیں۔ وہ دنیا جہاں میں گھومتے رہے، صرف انہی سے مشورہ کر لیا جاتا۔
یہاں ہمیں کینیڈا کی ریاست برٹش کولمبیا کا دارالحکومت یاد آ گیا ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے۔ اس کا نام ہے وکٹوریہ۔ یہ ملکہ وکٹوریہ کے نام پررکھا گیا ہے۔ آپ فیری سے اترتے ہیں تو بھینی بھینی خوشبو آپ کا استقبال کرتی ہے۔ غالب نے جو کہا تھا کہ سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی تو بن گیا روئے آب پر کائی۔ یہاں ہر جانب رنگ برنگے پھول ہی پھول ہیں۔ سڑکوں پر کھڑے کھمبوں پر پھولوں کے گملے اپنا اپنا رنگ دکھا رہے ہیں۔ جن روشوں پر آپ چل رہے ہیں اس کے آس پاس سر سبز گھاس ہے یا رنگ برنگے پھول۔ معاف کیجئے یہ ہم چالیس پچاس سال پرانی بات کر رہے ہیں‘ مگر ہمیں یقین ہے وہاں اب بھی یہ عالم ہو گا۔ اس زمانے میں وہاں تو مشہور یہ تھا کہ انگلستان کے ریٹائرڈ سرکاری افسر اپنی آخری عمر یہیں گزارا کرتے تھے۔ اور ہاں یہاں کا بوچارڈ گارڈن بھی تو مشہور ہے۔ سینکڑوں ایکڑ پر پھیلا ہوا یہ باغ دنیا کے ہر ملک کے باغ کی نمائندگی کر رہا ہے۔ آپ گھومتے رہئے اور دنیا بھر کے باغوں کی سیر کرتے رہئے۔
ابھی ہم نے یہاں تک ہی لکھا تھا کہ جیسے ہماری آنکھ کھل گئی۔ ہم نے ادھر ادھر دیکھا۔ یہاں گھاس ہے تو سوکھی ہوئی۔ پھول ہیں تو وہ کسی کسی سڑک پر۔ یہ ہم ان علاقوں کا ذکر نہیں کر رہے جو پوش علاقے کہلاتے ہیں۔ ہم عام گلی محلوں کی بات کر رہے ہیں۔ ہم سے شکایت کی جاتی ہے کہ ہمارے اندر سوک سینس یا شہریت کا شعور نہیں ہے۔ تو صاحب یہ شعور کون پیدا کرے گا؟ یہ کام ہمارے باشعور طبقے کا ہے۔ یہ باشعور طبقہ سیاست داں بن گیا ہے اور اس مطمح نظر کچھ اور ہی ہو گیا ہے۔ یہ کام بلدیاتی ادارے بھی کر سکتے ہیں‘ لیکن بلدیاتی اداروں کا دور دور پتہ نہیں۔ ہم اپنی زبانِ دراز پر خوش ہیں۔