آج کل کنو اور مالٹے وغیرہ کے پیڑ سفیدسفید پھولوں سے لدے ہو ئے ہیں اور پو ری فضا بھینی بھینی کھٹی میٹھی خوشبو سے مہک رہی ہے۔اب آپ ہمارا مذاق نہ اڑاناکیونکہ ہمیں ان پھو لوں اور اس موسم سے کو روناکا حملہ یاد آ گیا ہے۔ یہی تو موسم تھا جب اس موذی اور منحوس مرض کے وائرس کا ہماری پر امن دنیا پر حملہ ہوا تھا۔ پھولوں اور کورونا کا تعلق دریافت کرنے کوہمارے ادبی نقاد تلازمۂ خیال کہتے ہیں۔ یعنی ایک خیال سے دوسرا خیال آجانا۔اگرچہ ہمیں ابتدا میں ہی خبر دار کر دیا گیا تھاکہ یہ منحوس مرض آسانی سے جا نے والا نہیں ہے اور ہمیں یاد دلایا گیا تھا وہ وقت جب دنیا بھر میں طاعون کی وبا پھیلی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے آدھی دنیا ہڑپ کر گئی تھی۔ لیک اس بار ہمیں یہ بھی یقین دلایا جا رہا تھاکہ سال ڈیڑھ سال میں اس وبا کے خلاف ویکسین بھی آ جا ئے گی؛ چنانچہ وہ ویکسین بھی آ گئی۔اور یہ ویکسین کسی ایک ملک نے نہیں بنائی بلکہ کئی ملکوں نے بنالی حتی کہ ہمارے حریف پڑوسی ہندوستان نے بھی یہ کام کر ڈالا۔اب آپ یہ نہ کہیے گا کہ یہ کام ہم سے کیوں نہیں ہو سکا؟تو ہم ایسے کام کرنے میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ہمیں تو یہی فکر لاحق رہتی ہے کہ اپنے سکو لوں میں عربی کیسے پڑھا ئی جائے اور یہاں کشور ناہید کے بقول یہ حقیقت بھی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اگر یہ عربی ہم عرب ملکوں میں نو کریاں تلاش کر نے کیلئے پڑھا رہے ہیں تو خاطر جمع رکھیئے کہ ان ملکوں میں بھی انگریزی کا رواج زیادہ ہو تا جا رہا ہے لیکن کشور کی بات اتنی بھی صحیح نہیں ہے کہ ان تمام ملکوں کی عربی مختلف ہے۔یہ تو صحیح ہے کہ ان تمام ملکوں میں لہجے اور تلفظ کا فرق ہے لیکن بنیادی عربی ایک ہی ہے۔ہم اس سے دھو کہ کھا گئے کہ مصر میں جیم کو گاف پڑھا جا تا ہے۔جیسے جمال عبدالناصر کو گمال عبدالناصر۔عرب کے مغربی ملکوں جیسے مراکش اور الجزائر وغیرہ میں یہ تلفظ کچھ اور ہی بن جا تے ہیں۔
آئیے اس سلسلے میں ہم اپنا ذاتی تجربہ بھی بیان کر دیں۔ہم قاہرہ گئے ہو ئے تھے اور وہاں کی مشہور تاریخی مسجد جامع محمد علی جا نا چا ہتے تھے۔راستے میں ہم نے ایک لڑکے سے پو چھا ''جامع محمد علی کہاں ہے ؟‘‘ پہلے تو وہ حیرت سے ہمارا منہ دیکھنے لگا کہ یہ آدمی کیا کہہ رہا ہے ‘پھر تھوڑا غور کرنے کے ایک دم اچھل پڑا۔''او ہو‘ گاما محمد علی ؟ـ‘‘ ہم چو نکہ گمال عبدالنا صر سنتے رہتے تھے اس لئے ہم نے فوراً ہی ''ہاں ہاں ‘‘کر دیا۔ وہ لڑ کا اتنا شریف تھا کہ اس نے فورا ًہمارا ہاتھ پکڑا اور ساتھ گزرتی ہو ئی ایک بس پر چڑھ گیا۔ہمیں راستہ دکھانے کیلئے بس پر چڑھانا تو اور بات تھی اس نے ہمارا ٹکٹ بھی لے لیا۔ہم بہت ناں ناں کرتے رہے مگر وہ شریف زادہ بالکل نہ مانا۔ہمیں جامع محمد علی پہنچا کر ہی دم لیا۔اور قبل اس کے ہم اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتے وہ ہاتھ ہلاتا وہاں سے روانہ ہو گیا۔
چلئے ‘یہاں ایک لڑ کے کی شرافت اور فراخ دلی کا ذکر آ یا ہے تو اسی شہر اور اسی ملک کی بد لحاظی کا قصہ بھی پڑھ لیجے۔ہم دریا ئے نیل کے کنارے گھومتے گھومتے ایک بہت بڑے ہو ٹل پہنچ گئے۔تھک بہت گئے تھے اس لئے وہاں صحن میں پڑی ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔ قاہرہ میں ہم ایک غریب سے ہو ٹل میں ٹھہرے تھے۔ہم چا ہتے تھے کہ کسی سے اس کا پتہ معلوم کر کے متعلقہ بس کی تلاش میں روانہ ہو جا ئیں۔ایک صاحب ہو ٹل کے اندر سے نکلے‘ ہم نے موقع سے فائدہ اٹھا کر ان صاحب کو سلام کیا اور اس بازار کا پتہ پو چھاجہاں ہمارا ہو ٹل تھا۔وہ صاحب کہنے لگے'' میری گاڑی میں آجائو‘ میں ادھر ہی جا رہا ہوں ‘‘ ہم نے سوچا اس شہر کے لوگ کتنے مہربان ہیں کہ ایک اجنبی کو اس کی منزل پر پہنچا رہے ہیں۔خیر‘راستے میں باتیں شروع ہو گئیں۔ انہوں نے پہلے تو ہمارے سفر کا حال پو چھا۔پھر پوچھنے لگے ''آپ کا شغل کیاہے؟‘‘ ہم نے بتایا کہ پاکستان کے ایک غریب صحافی ہیں‘یہ سننا تھا کہ ایک دم ان کے چہرے کا رنگ ہی بدل گیا اور اگلی ہی سڑک پر انہوں نے اپنی گاڑی کھڑی کر دی۔ '' یہاں سے قریب بس سٹاپ ہے۔آپ کو وہاں بس مل جا ئے گی ‘‘۔ یہ کہہ کر ہمیں اپنی گاڑی سے اتار دیا۔ہم نے بھی اترتے ہوئے انہیں سلام تک نہیں کیا البتہ گاڑی سے اترتے ہو ئے یہ سوچا کہ ہمارے ساتھ یہ کیا واردات ہو گئی؟ خیال آیا کہ مہمان نوازی ہماری نہیں تھی بلکہ ہمارے سوٹ اور شاید ہماری شکل کی بھی تھی۔ ایک تو ہم نے ٹھیک ٹھاک سوٹ پہن رکھا تھا‘ صورت بھی کچھ ایسی بُری نہیں تھی۔ اوپر سے ہم قاہرہ کے سب سے بڑے ہو ٹل میں گھوم رہے تھے۔وہ صاحب سمجھے ہوں گے کہ کوئی بہت بڑی اسامی ہے‘ کوئی بہت ہی بڑا کاروباری آدمی اور ہمیں اپنی گاڑی میں بٹھا لیا۔ اب معلوم ہوا کہ یہ تو ایک پھٹیچر آدمی ہے جس نے اچھا سا سوٹ پہن رکھا ہے تو انہوں نے بیک بینی دو گوش گاڑی سے نکال دیا۔
اب اسی تلازمۂ خیال میں ہمیں سینیٹ کے الیکشن اور اس میں ہو نے والے تماشوں کی طرف بھی چلا جا نا چا ہیے تھالیکن اس دلدل میں پائوں پھنسانا ہمیں اچھا نہیں لگا۔اس الیکشن میں کیا کچھ ہوا؟یہ تو آپ نے اخباروں اور ٹیلی وژن چینلوں سے دیکھ لیا ہوگالیکن یہ سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوا ہے۔عمران خاں کے اعتماد میں لینے کے ووٹ کو تو جانے دیجے ‘ہمارے وزیر اعظم نے بار بار یہ کہہ کر الیکشن کمیشن کو ناراض کر لیا کہ اس نے اوپن بیلٹ کیلئے ان کی بات نہ مان کر جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے۔اس دعوے کیلئے ان کے پاس کوئی آئینی اور قانونی دلیل نہیں ہے۔ادھر الیکشن کمیشن کے پاس پاکستان کا آئین ہے۔الیکشن کمیشن صحیح تو کہتا ہے کہ پہلے آئین میں ترمیم کرائو۔
لیجے ہم کہاں سے چلے تھے یعنی ‘ پہلے کنو مالٹے کے پھو لوں اور فضا میں پھیلی ہو ئی ان کی بھینی بھینی مہک سے۔اس کے بعد کورونا وائرس سے اور کہاں قاہرہ پہنچ گئے۔ہمارے ادیب شاید اسی کو تو تلازمۂ خیال کہتے ہیں۔ بہر حال اس داستان میں یہ فراموش نہ کر دیجے کہ یہ موذی اور منحوس وبا ابھی کہیں نہیں گئی ہے۔ہمارے سروں پر ہی منڈلا رہی ہے۔اب یہی دیکھ لیجے کہ ہم نے اس حقیقت کو فراموش کیا۔اور کر کٹ کے اچھے خا صے میچ ملتوی کر ابیٹھے۔ پہلے ہم نے یہ احتیاط کی تھی کہ ان میچوں کے در میان تما شائیوں کو دور رکھا تھالیکن یہ کہاں تک ہو سکتا تھا؟ایک تو تماشائیوں کا اصرارایسا کہ ہمیں ان سے کیوں محروم رکھا جا رہا ہے۔دوسرے یہ لالچ بھی کہ کچھ پیسہ بھی آ جائے گااور اسی تگ دو میں مارے گئے۔میچ ملتوی ہو گئے۔ سب اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ اور اب یہ یقین بھی نہیں ہے کہ کب ہمیں یہ مو قع ملے گا۔ آخر میں پھر وہی عرض ہے کہ اس منحوس وبا سے محفو ظ رہنے کی ہر تدبیر کیجے اور اس کے ساتھ ہی جہاں بھی موقع ملے اس بہار کا استقبال کیجے جس نے ہمیں کنو مالٹے کے پھولوں کے علاوہ رنگا رنگ پھولوں کا تحفہ دیا ہے۔ ہم نے ''سوہنا لاہور‘‘ والوں کو بتایا تھا کہ شہر کو خوبصورت اور دلکش بنانے کیلئے شہر بھر میں بجلی کے کھمبوں پر پھو لوں کے گملے لٹکا دیجے‘ پھر دیکھئے یہ شہر کتنا سوہنا لگتا ہے۔ اس کیلئے کتنا پیسہ خرچ ہو گا؟ ہمارا خیال کچھ زیادہ نہیں ہوگا‘ البتہ ان گملوں کو ہر روز پانی دینا پڑے گا۔ اور یہ کام پہلے ہی ہو رہا ہے۔ جو پانی پارکوں اور چھوٹے سبزہ زار کو دیا جا تا ہے وہ ان گملوں کو بھی مل سکتا ہے۔