پاک طالبان مذاکرات: امکانات‘ رکاوٹیں

وزیراعظم کی طرف سے مذاکراتی ٹیم کا اعلان اور کراچی میں رینجرز چوکی پر حملہ‘ کم و بیش ساتھ ساتھ ہوئے۔رینجرز پر حملے کی ذمہ داری حسب روایت طالبان کے ترجمان نے قبول کر لی۔طالبان اور حکومت پاکستان میں مذاکرات کی تجویز خفیہ طور پر مختلف ذرائع سے زیر بحث تھی۔ دونوں طرف سے باہمی اعتماد پیدا کرنے کی خاطر دونوںفریقوں نے میڈیا کے ذریعے کچھ ''اشارے‘‘ کرنے پر اتفاق رائے کیا تھا لیکن طالبان کی طرف سے آخری دن تک کوئی اشارہ نہیں آیا اور جو آیا اسے مذاکرات کا اشارہ سمجھنا کسی بھی طرح ممکن نہیں تھا کیونکہ وہ پہلے ہمارے فوجیوں اورشہریوں پر حملہ کرتے تھے اور اس کے بعد مذاکرات کی پیش کش کر دیتے تھے اورساتھ یہ مشورہ دیا جاتا کہ پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی پیش کش ‘سنجیدگی سے نہیں ہو رہی اور اسے اپنے بااختیار ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان اور حکومت پاکستان کے درمیان اگر کچھ رابطے موجود بھی تھے تو ان میں باہمی اعتماد پیدا ہونے کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا تھا۔متعدد شہریوں اور فوجیوں کا خون بہانے کے بعد‘ جب طالبان کا ترجمان مذاکرات کی پیش کش کرتا تو عوام میں اسے ایک تکلیف دہ طنز تصور کیا جاتا تھا۔ وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان مذاکرات کا آغاز کرنے کے لئے درپردہ کوششیں کرتے رہے لیکن حکیم اللہ محسود‘ ڈرون کا نشانہ بنے تو چوہدری نثار کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا ۔انہوں نے انتہائی تلخی بھرے لہجے میں قوم کو بتایا کہ یہ حملہ مذاکرات کی کوششوں کو تباہ کرنے کے لئے کیا گیا۔پاکستانی رائے عامہ بجا طور پر یہ سمجھ رہی تھی کہ ڈرون حملہ‘ درحقیقت مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی غرض سے کیا گیا ہے۔مذاکرات کی کوششیں معطل ہونے پر محسوس کیا جانے لگا کہ امن کی کوششوں کو بہت بڑا دھچکا پہنچا ہے۔ ہو سکتا ہے پاکستان دہشت گردی کے پھیلتے ہوئے دائرے کو دیکھ کر‘ امن کی کوششوں سے مایوس ہو جائے اور حکومت پر عوامی دبائو میں اضافہ ہونے لگے کہ وہ مذاکرات کا خیال چھوڑ کر‘ طالبان سے میدان جنگ میں نمٹنے کا فیصلہ کرے۔جب حکومت پر آپریشن کے لئے شدید دبائو آیا تو سرکاری ذرائع سے خبر آگئی کہ وزیراعظم ایک دو روز میں پارلیمنٹ کے اندر آکر حتمی فیصلے کا اعلان کریں گے۔ اس سے قبل کہ وزیراعظم ایوان میں آتے‘ حکمران پارٹی کا اجلاس ہوا اور شام کو خبریں آنے لگیںکہ وزیراعظم بھر پور کارروائی کا اعلان کرنے والے ہیں۔ ان خبروں میں یہ بھی بتایا گیا کہ اراکین اسمبلی دہشت گردی کی پے در پے کارروائیوں کے پس منظر میں‘ وزیراعظم پر فوری 
اور بھر پور فوجی کارروائی کے لئے زور ڈالتے رہے۔حسب توقع وزیراعظم اس روز بھی ایوان میں نہیں آئے ۔29جنوری کی شام اچانک اعلان ہو گیا کہ وزیراعظم نے طالبان سے مذاکرات کے لئے ایک کمیٹی قائم کر دی ہے۔کمیٹی کے اراکین میں معروف کالم نویس عرفان صدیقی‘ میجر(ر) عامر‘رستم شاہ مہمند اوررحیم اللہ یوسف زئی شامل ہیں۔ذرائع کے مطابق کمیٹی کے ارکان کی نامزدگی سے پہلے حکومت نے اپنے ذرائع سے طالبان کی رائے حاصل کر لی تھی۔پاکستان کی رائے عامہ نے تو ناموں کا اعلان ہوتے ہی کمیٹی کے نامزد اراکین کے ناموں پر اظہار اطمینان کیا لیکن طالبان کا 
ردعمل غیر متوقع تھا۔ان کی طرف سے دہشت گردی کے واقعات بلا ناغہ ہونے لگے اور ان کی شدت میں اضافہ ہوتا رہا۔ ظاہر ہے پاکستانی عوام میں دہشت گردی کی شدید اور مسلسل کارروائیوں پر غصہ بھی تھا اور اشتعال بھی۔نوے فیصد منتخب عوامی نمائندوں کی طرف سے شدید جذباتی انداز میںوزیراعظم سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ بلاتاخیر آپریشن کا فیصلہ کریں۔ایسی فضا میں اچانک مذاکراتی کمیٹی کے قیام اور پھر طالبان کی طرف سے چاروں ممبران کے نام قبول کرنے کا اعلان سن کر امید افزا فضا پیدا ہو گئی۔لوگ بڑے آپریشن کے اعلان کے منتظر تھے کہ 29جنوری کو اچانک مذاکراتی ٹیم کا اعلان ہوگیا۔ فوری طور سے طالبان کی طرف سے رضا مندی کا اظہار ہوا۔ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ دونوں طرف سے مذاکرات کے حق میں بیانات آنے پر‘ فوری آپریشن کے مطالبے میں نرمی آگئی ہے لیکن جہاں تک سیاسی مبصروں اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے‘ وہ انتہائی محتاط انداز میں اظہار رائے کر رہے ہیں۔دونوں فریق انتہائوں پر کھڑے ہیں‘ طالبان کے مطالبات ریاست پاکستان کے وجود سے انکارکا تاثر دیتے ہیں جبکہ وزیراعظم پاکستان نے واضح طور سے کہہ دیا ہے کہ مذاکرات میں پاکستان کی سالمیت اور آئین پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔طالبان کے کسی ترجمان نے باضابطہ طور پر تو اعلان نہیں کیا لیکن ان کے اندرونی حلقوں سے آنے والی خبروں میںیہی بتایا جا رہا ہے کہ وہ نفاذشریعت کے سوال پر کسی لچک کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان کے مذہبی سیاست دانوں اور علمائے کرام کی اکثریت نے اچانک طالبان کے موقف کی طرف جھکائو کا مظاہرہ شروع کر دیا ہے۔ جو علمائے کرام اور مذہبی سیاست دان‘ مصلحت یا احتیاط کی وجہ سے غیر جانبداری کا مظاہرہ کر رہے تھے‘ اچانک ان کی ہمدردیاں طالبان کی طرف نظر آنے لگیں اور پہلی مرتبہ پاکستان کی حکومت اور رائے عامہ دونوں میں یہ امید پیدا ہو گئی کہ مفاہمت کی خواہش‘ کسی باہمی معاہدے پر منتج ہو سکتی ہے۔ اس امید کے لئے‘ زمینی حقائق زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ ہر گوریلا جنگ میں ایک ہی طرح کی جنگی حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے‘ تحفظ اور سکیورٹی کی خاطر جنگجوئوں کو چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے اور ہر گروپ تنظیمی طور پر اپنے اپنے محدود دائرے میں رہ کر جنگ میں حصہ لیتا ہے جس کی وجہ سے کسی ایک گروپ کے رکن کا سراغ یا گرفتاری باقی گروپوں کی رازداری پر اثر نہیں ڈالتی۔ صرف وہی ایک سیل سامنے آتا ہے‘ جس کے کسی رکن یا ٹھکانے کا دشمن کو پتہ چل جائے لیکن یہ جنگی ضرورت سیاسی اعتبار سے مشکلات کا باعث بنتی ہے مثلاً جب حریف کے ساتھ بات چیت یا سمجھوتے کامرحلہ آجائے تو مذاکراتی ٹیم کی تشکیل حد درجہ مشکل ہوتی ہے۔ اس مشکل کا اندازہ آپ یوں کر سکتے ہیں کہ پانچ دن گزرنے کے بعد بھی طالبان اپنا مذاکراتی وفد تشکیل نہیں دے پائے‘ اس کا ایک سبب ان کا مختلف مقامات پربکھرے ہونا ہے۔مختلف کمانڈروں کی باہمی دوریاں‘ باہمی مشاورت کے عمل میں رکاوٹیں پیدا کرتی ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ جنگ میں شریک گروپ کسی ایک جنگی حکمت عملی پر کار بندنہیں ہوتے اور اپنی جدو جہدکے نتیجے میں جو کچھ انہیں حاصل کرنا ہوتا ہے ‘اس پر بھی اتفاق رائے کا حصول کافی پیچیدہ ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے وفد میں ایسے کسی لیڈر کو شامل نہیں کر رہے جو میدان جنگ میں برسرپیکار ہو اور نہ ہی کسی گروپ کے سربراہ کو مذاکراتی وفد کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔طالبان کی طرف سے اپنی تنظیم کے باہر کے لوگوں کو مذاکراتی ٹیم میں شامل کرنے کی کوششیں اسی مشکل کا پتہ دیتی ہیں مثلاً ان کی طرف سے عمران خان کا نام تجویز ہوا۔ پہلے تو تحریک انصاف کے لوگوں نے اسے خوش آئند سمجھا‘ پارٹی کے اندر یہ بحث بھی ہوئی کہ خان صاحب کی بجائے‘ ان کے کسی رفیق کار کو وفد میں شامل ہونے کے لئے نامزد کر دیا جائے اور گزشتہ روز عمران خان صاحب کا بیان آگیا کہ''حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لئے طالبان اپنے لوگوں میں سے ہی نمائندے چنیں‘‘ ۔عمران خان کے علاوہ جن دیگر شخصیتوں کے نام طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے لئے سامنے آئے‘ ان میں جمعیت علمائے اسلام(س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق‘ جماعت اسلامی خیبر پختونخواکے امیر پروفیسر محمدابراہیم‘ جمعیت علمائے اسلام(ف) کے مفتی کفایت اللہ اور اسلام آباد کی لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز شامل ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے نو منتخب امیر ملا فضل اللہ نے مندرجہ بالا ناموں پر اتفاق کیا ہے لیکن تاخیر سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں کامل اتفاق رائے کے ساتھ مذاکراتی وفد کے لئے نامزدگیوں میں دشواری پیش آرہی ہے۔یہ ایک فطری عمل ہے‘ جب مختلف مقاصد اور اہداف رکھنے والے گروہوں کو بنیادی فیصلے کرنا پڑیں تو یہ ان کے لئے کڑا امتحان ہوتا ہے۔طالبان کی مخصوص صورت حال میں براہ راست جنگ میں شریک ساتھیوں کی یک جائی ہی مسئلہ نہیں ‘ انہیں پاکستان سے باہر بیٹھے عناصرسے بھی مشورے کرنا ہوں گے۔سب سے پہلے تو ملا عمر کے خیالات کو دیکھنا ہو گا‘ ملافضل اللہ نے ان کے ہاتھ پر بیعت کر رکھی ہے‘ دیگر پاکستانی طالبان بھی بطو رامیر انہیں تسلیم کرتے ہیں۔ ملا فضل اللہ افغانستان میں پناہ گزین ہیں‘ یقینی طو ر پر انہیں حامد کرزئی کے مشوروں پر توجہ دینا ہو گی۔طالبان کی صفوں میں 
بیرونی ایجنٹوں کی بھی کمی نہیں‘ اگر مذاکرات کے نتیجے میں کوئی معاہدہ امن ہوتا ہے تو پھر بھی پوری طرح سے امن قائم ہونایقینی نہیں۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کتنے گروہ اپنے اپنے زیر اثر علاقوں میں کیسی کارروائیاں شروع کردیں گے؟پاکستان کے عوام دہشت گردی سے تنگ آئے ہوئے ہیں‘ وہ امن اور معمول کی زندگی بحال کرنے کے لئے بے تاب ہیں مگر یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ابھی باقاعدہ مذاکرات شروع نہیں ہوئے‘ ان ابتدائی میٹنگوں سے جس فوری نتیجے کی امید کی جا سکتی ہے‘ وہ ہے فائر بندی۔اسی سے پتہ چل جائے گا کہ مفاہمت کاکوئی معاہدہ ہواتو وہ کتنا موثر ہو گا؟اس کا جواب فائر بندی کے دوران مل جائے گا۔طالبا ن میں سے کتنے لوگ فائر بندی کے فیصلے کی پابندی کرتے ہیں اور کتنے نہیں کرتے؟آنے والے دور کی جھلک تو فائر بندی کے فیصلے پر عملدرآمد کی صورت حال میں ہی نظر آجائے گی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں