بدترین جنگ

ہر جنگ دو محاذوں پر لڑی جاتی ہے۔ ایک بیرونی دشمن کے خلاف اور ایک داخلی۔ دونوں میں سب سے مشکل محاذ‘ داخلی ہوتا ہے۔ انفرادی حیثیت میں دیکھیں‘ تو بیرونی دشمن سے بچنا اور آگے بڑھ کر اس کا مقابلہ کرنا‘ دونوں بہت آسان ہیں۔ اس کے حملے کھلے بھی ہوتے ہیں۔ اچانک اور غیر متوقع بھی۔ ان دونوں سے بچائو کی آزمودہ تدبیریں اور کامیاب تجربات کے ذخیرے وافر تعداد میں دستیاب ہیں۔ان سے مدد اور راہنمائی لینے کی گنجائشیں بھی موجود رہتی ہیں اور اپنے مخصوص حالات کی روشنی میں نئے دائو پیچ آزمانے کی آزادی بھی دستیاب ہوتی ہے۔ اندرونی محاذ ہر فرد اور ہر قوم کے لئے ایک نیا اور مشکل امتحان ہوتا ہے۔ شخصی طور پر اندرونی جنگ کی اقسام ‘ اتنی ہی ہیں‘ جتنے کہ کرہ ارض پر موجودافراد ہوتے ہیں۔ہر فرد کو اپنی داخلی جنگ‘ اکیلے ہی لڑنا پڑتی ہے۔ کوئی پرانا تجربہ ‘ کوئی تیار شدہ حکمت عملی ‘ کوئی پرانا سبق اور کسی استاد کی راہنمائی‘ اس جنگ میں کام نہیں آتی۔ کوئی ایک شخص جس نے یہ جنگ لڑی ہو‘ اس کے تجربات سے کوئی دوسرا استفادہ نہیں کر سکتا۔ اہل تصوف سے لے کر ماہرین نفسیات تک‘ ہزاروں صوفیوں اور ماہرین نے بے شمار کتابیں لکھی ہیں۔ یہ کتابیں پڑھنے اور ماہرانہ رہنمائی لینے کے بعد بھی یہ جنگ لڑنے کے طور طریقے خود ہی ایجاد کرنا پڑتے ہیں۔اپنی ذات سے باہر کی جنگ لڑنا اتنا پیچیدہ اور دشوار نہیں ہوتا۔ یہ ایک سماجی تجربہ ہوتا ہے‘ جس میں ان گنت تجربات رہنمائی اور سبق حاصل کرنے کے لئے دستیاب ہوتے ہیں۔ یہ جنگ لڑنے کے لئے آپ ‘ اپنوں‘ دوسروں اور ساتھیوں سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قوموں کو بیرونی دشمنوں کے خلاف لڑتے ہوئے ‘اتنے ان دیکھے اور غیرمتوقع خطرات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا‘ جتنا کہ داخلی جنگ میں۔ 
برصغیر کے معاملات دنیا کے دوسرے ملکوں سے مختلف نہیں۔ بیشتر قوموں کو اندرونی جنگیں لڑنا پڑی ہیں۔ صرف چند قومیں ہی اتنی خوش قسمت ہیں کہ وہ داخلی جنگوں میں فتح یاب ہو کر‘ پرامن زندگی حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ دورِحاضر میں سوئٹزرلینڈ‘ سویڈن‘ ناروے‘ ڈنمارک اور مزید چند ملک ایسے ہیں‘ جہاں کے عوام کو قابلِ اعتماد امن حاصل کرنے میں کامیابی نصیب ہوئی۔ ہم برصغیر کے لوگ اتنے خوش قسمت نہیں۔ برصغیر کے جغرافیے نے اسے بیرونی خطروں سے ہمیشہ محفوظ رکھا۔ اس کے ایک طرف بلند و بالا پہاڑوںکی فصیل تھی تو دوسری طرف دور تک پھیلے ہوئے گہرے سمندر۔ ماضی بعید میں جب دنیا بھر کے ملک اور علاقے‘ جنگوں کی تباہ کاریوںسے گزر رہے تھے‘ تو برصغیر کے عوام کئی صدیوں تک بیرونی حملوں سے محفوظ رہے۔ البتہ ماضی بعید میں ہونے والی اندرونی جنگوں کے تذکرے کہانیوں اور کتابوں میں موجود ہیں۔ جن میں ''رامائن‘‘ کو ہندو دھرم میں کتاب مقدس کا درجہ حاصل ہے۔ جب تک فطرت کاعطا کردہ دفاعی نظام موثر رہا‘ برصغیر دنیا کا خوشحال ترین خطہ تھا۔ یہاں کے مال و دولت‘ عیش و عشرت‘ ہیرے جواہرات ‘ انجینئرنگ اور ملبوسات کی کہانیاں دنیا بھر میں پھیلی ہوئی تھیں۔ شمالی حملہ آوروں کی مسلسل لوٹ ماراور پھران کے یہیں پر قیام کر لینے کے بعد بھی‘ یہ خطہ باقی دنیا کی نسبت زیادہ خوشحال اور ترقی یافتہ تھا۔ یہی خوشحالی یہاں کے باشندوں کی بدنصیبی بن گئی۔ یورپ کی قومیں وسائل کی تلاش میں سمندری بیڑے تیار کر کے‘ دوسرے علاقوں پر قبضوں کے لئے نکل کھڑی ہوئیں لیکن برصغیر کے باشندوں کو اپنی ہی سرزمین پر اتنا کچھ آسانی سے دستیاب تھا کہ انہوں نے بیرونی علاقوں میں جا کر لوٹ مار کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ مغل سلطنت کے آخری زمانے میں بھی یورپ کی ملکائیں اور شہزادیاں‘ بنگال کی کالی سلک کی پوشاک کے خواب دیکھا کرتی تھیں۔ موضوع کی مناسبت سے ‘ مختصر مضمون میں اس سے زیادہ تاریخی حوالوں کی ضرورت نہیں۔ بعد کی تاریخ قارئین خود جانتے ہیںکہ کس طرح اندرونی لڑائیوں نے برصغیرکو بیرونی حملہ آوروں کے لئے لقمہ تر بنایا؟شمال کے حملہ آوروں کی قدیم سلطنت کا خاتمہ ہوا۔ کیسے انگریزوں‘ ولندیزیوں ‘ پرتگالیوںاور فرانسیسیوں نے برصغیر میں قدم جمانے کی کوششیں کیں۔ جن میں انگریز زیادہ کامیاب رہے اور پھر برصغیر کی اندرونی لڑائیوں کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے یہاں قریباً 200سال تک حکومت کر گئے۔ 
ہندومسلم تنازعہ بھی برصغیر کا داخلی جھگڑا تھا‘ جو بڑھتے بڑھتے برصغیر کی تقسیم پر منتج ہوا۔ پاکستان اور بھارت دونوں نے ماضی کی تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی بجائے‘ اسے فراموش کرتے ہوئے ‘باہمی محاذ آرائی شروع کر دی اور ہم نے اپنے مشرقی اور مغربی بازو میںہزار میل کے فاصلے کو نظرانداز کرتے ہوئے قومی یکجہتی پر توجہ نہیں دی اور اسی داخلی جھگڑے نے پھر پاکستان کو تقسیم کر دیا۔ ہمارے لئے تاریخ کا سبق یہ تھا کہ ہم روزاول ہی سے اپنی ساری توجہ داخلی محاذ پر مرکوز کرتے۔ ہم نے اپنا ملک بھی برصغیر کے داخلی تنازعوں کے نتیجے میں ہونے والی تقسیم کے ذریعے حاصل کیا تھا۔ہماری ضرورت یہ تھی کہ اپنے خطے کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے پہلی توجہ داخلی یکجہتی پر دیتے۔ ہم نے اس کی پروا نہیں کی۔ لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعدتو داخلی یکجہتی پر توجہ نہ دینا‘ بدترین قومی جرم تھا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مشرقی پاکستان کے سانحہ سے گزرنے کے بعد بھی ہم نے کوئی سبق نہ سیکھا۔ سارے حکمران اقتدار کی جنگ بے رحمی‘ سفاکی اور عاقبت نااندیشی سے لڑتے رہے۔ کسی نے بھی یہ نہیں سوچا کہ جس سرزمین کو ہم اپنا میدان جنگ بنا کر ‘ اقتدار کے فیصلے کر رہے ہیں‘ اس کا انجام کیا ہو رہا ہے؟ علاقے علاقوں سے دور ہو رہے ہیں۔ فرقے فرقوں سے دست و گریباں ہیں۔ مختلف لسانی اور نسلی گروہ پورے ملک میں پھیل کر اپنی علیحدہ علیحدہ بستیاں بسا رہے ہیں۔ افغانستان کی جنگ نے خود اپنے اور پاکستان کے پختون علاقوں میں وہ ابتری اور بدامنی پھیلائی کہ مقامی پختون بھی اندرون ملک ہجرت پرمجبور ہو گئے۔ انہوں نے پختون روایات کے مطابق پاکستان کے مختلف شہروں میں آباد ہو کر‘ ہمارے شہروں کے ڈھانچے ہی بدل ڈالے۔ کراچی ایک زمانے میں تمام لسانی اور تہذیبی کمیونٹیز کا ملا جلا شہر تھا۔ صرف پاکستانی پختون اپنے مخصوص مزاج کے باعث دو تین بستیوں میں اکثریت سے تھے۔ مگر اس کا سبب روایتی عادات کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ اسی طرح لیاری میں زیادہ تر پرانے سندھی آباد تھے۔ جس کی وجہ شہر کی معاشی ضروریات تھیں‘ لیاری کی پرانی آبادی مکرانیوں‘ بلوچوں اور قدیم سندھیوں پر مشتمل تھی اور ان کے روزگار کا انحصار کسی نہ کسی اعتبار سے سمندر پر تھا۔ مگر جنگ کے نتیجے میں پاکستانی اور افغان پختونوں کی داخلی ہجرت کے ساتھ جو نئے قافلے آئے‘ ان میں دہشت گرد‘ انتہاپسند اور سماج دشمن عناصر شامل تھے۔ جب انہوں نے اپنی علیحدہ آبادیاں بنائیں‘ تو شہر کا مزاج ہی بدل گیا۔ کالونیاں‘ کالونیوں سے الگ ہو گئیں۔ محلے ‘ محلوں سے الگ ہو گئے۔ جگہ جگہ نوگو ایریاز قائم ہوئے۔ حکمرانوں کو پتہ بھی نہ چل سکا کہ پاکستان کا معاشی دارالحکومت کیسی خوفناک تقسیم کی طرف جا رہا ہے؟ ایسی آبادیاں اسلام آباد اور لاہور میں بھی قائم ہو گئی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کی محاذآرائی کی وجہ سے بیرونی عناصر اپنے اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے اس خطے کی طرف متوجہ ہوئے۔ افغانستان کے اندر بیرونی کھلاڑیوں کی جو کش مکش ہو رہی تھی‘ ہم بھی اس کی لپیٹ میں آ گئے۔ بیرونی طاقتوں نے علاقے کی مخصوص صورتحال کو دیکھ کر اسلام کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ خصوصاً امریکیوں اور ان کے مسلمان اتحادیوں نے۔ امریکہ چونکہ شرق اوسط میں بھی نسلی‘ لسانی اور فرقہ ورانہ تقسیم کا پورا پورا فائدہ اٹھا رہا تھا‘ اس نے افغانستان میں بھی یہی ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کی‘ مگر وہاں ایک ہی فرقے کی فیصلہ کن اکثریت ہونے کی بنا پر یہ پالیسی کام نہیں آئی۔ چنانچہ وہاں نسلی تفریق کا استعمال ہوا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں فرقوں کا تناسب فیصلہ کن نہیں۔ حنفی مسلک کے ماننے والے تعداد میں زیادہ ہیں‘ تو شیعہ بھی کروڑوں میں ہیں اور ان دونوں سے زیادہ بریلوی ہیں۔ اہل حدیث کی آبادی بھی کافی زیادہ ہے۔ ہماری قیادت نے انتہاپسندوں سے مذاکرات کا دروازہ کھول کے ‘ فرقہ واریت کو اقتدار کی کش مکش کا حصہ بنا دیا ہے۔ ایک زمانے میں ہمارے دفاعی ماہرین‘ افغانستان کو پاکستان کی اسٹریٹجک گہرائی کہا کرتے تھے۔ آج اسی ملک کے ایک لیڈر ملا عمر‘ پاکستان کو اپنی امارت یا سلطنت کی گہرائی تصور کرتے ہیں۔ امریکہ کی قیادت میں جن مغربی اتحادیوں پر ہم نے انحصار کیا تھا‘ ہمارے لئے بیگانہ ہو چکے ہیں۔ جس اسلامی امہ کو ہم اپنی برادری سمجھتے تھے‘ اس میں ہمارے لئے کوئی جگہ نہیں۔ چین ہمارا دوست ہے مگر نئے حالات میں وہ ہماری مدد نہیں کر سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی بیرونی ملک ہماری مدد نہیں کر سکتا۔ ہم داخلی جنگ کی لپیٹ میں ہیں۔ ہر فرد اور ہر ملک کو یہ جنگ اکیلے ہی لڑنا پڑتی ہے۔ہماری زمین کے چپے چپے پر دہشت کھمبیوں کی طرح پھوٹ پڑی ہے۔ شاید ہمیں اسم اعظم کی ضرورت ہے جو بکھری ہوئی پاکستانی قوم کو یکجہتی کی لڑی میں پرو دے۔ مگر اسم اعظم ہے کس کے پاس؟

 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں