مذاکرات پر تنازعات

اس طرح کی سیاسی بحث شاید ہی کسی ملک میں ہوتی ہو‘ جو ان دنوں ہمارے ہاں دیکھنے میں آ رہی ہے۔ سوال تھا طالبان کے ساتھ مذاکرات کا۔اس سلسلے میں خو د وزیراعظم کی ہدایت پر دوسرے فریق سے رابطے شروع کئے گئے۔طالبان کی طرف سے امیدا فزاجواب آنے پرباقاعدہ مذاکرات شروع کرانے کے لئے ایک کمیٹی بنائی گئی۔جواب میں طالبان نے بھی ایک کمیٹی نامزد کر دی۔ دونوں کمیٹیوں میں صرف وزیراعظم کے ایڈوائزر عرفان صدیقی سرکاری نمائندے کی حیثیت میں شامل تھے۔باقی تمام اراکین میں نہ کوئی طالبان میں سے تھا اور نہ اراکین حکومت میں سے۔اس طرح کے معاملات میں رابطوں کے دوران ہونے والی باتیں میڈیا میں نہیں لائی جاتیں۔وجہ صاف ہے۔ابتدائی مراحل میں کسی کو علم نہیں ہوتا کہ بیل منڈھے بھی چڑھے گی یا نہیں؟اس مرحلے پر یہی جائزہ لینا مقصود ہوتا ہے کہ کیا فریقین‘ کسی ایسے خیال پر بات چیت کر سکتے ہیں؟جس میں دونوں کی دلچسپی ہو؟اگر دلچسپی ہے تو کون سے موضوعات پر بات کرنا ممکن ہو گی۔ کیا یہ امکان موجود ہے کہ باضابطہ مذاکرات میں کوئی ایجنڈا تیار کیا جا سکے؟ان میں سے کوئی بھی معاملہ طے شدہ نہیں ہوتا۔یقینی بھی نہیں ہوتا۔ ہر وقت یہ امکان موجود رہتا ہے کہ فریقین ایک دوسرے کے ساتھ ملاقات پر ہی تیار نہ ہوں۔آمادگی اور عدم آمادگی کی درمیانی کوششیں ‘ہمیشہ منظر عام پر نہیں لائی جاتیں کیونکہ ان میں کچھ ہو ہی نہیںرہا ہوتا۔محض کچھ کرنے کی کوششیں ہوتی ہیں۔ان کوششوں کو قدم بقدم میڈیا پر لانے کی صورت میں خبریں بنائی جائیں یا تبصرے کئے جائیں تو ان پر ہر کوئی اپنی اپنی خیال آرائی کرتا ہے۔نتیجے میں تاثر یہ پیدا ہوتا ہے جیسے واقعی تبادلہ خیال جاری ہو۔جب فریقین کسی نتیجے پر نہیں پہنچتے تو اس پر خبریں آتی ہیں کہ مذاکرات ٹوٹ گئے۔ تعطل پیدا ہو گیا۔مذاکرات ختم ہو گئے۔ اس طرح کی ساری قیاس آرائیاں پہلے سے کشیدہ فضا کو مزید خراب کر دیتی ہیں اور فریقین کے مابین مذاکرات کے امکان کو آزمانے کی جو خواہش پیدا ہوئی ہوتی ہے‘ اس کی جگہ مزید کشیدگی لے لیتی ہے اور دوبارہ مذاکرات کا خیال ظاہر کرنا فریقین کے لئے مشکل ہو جاتا ہے۔پاکستان خود بہت بڑے پیمانے پر ‘ایسے ہی تجربے سے گزر چکا ہے۔
1969ء تک چین اور امریکہ ایک دوسرے کے دشمن تھے۔د ونوں میں سفارتی تعلقات تک نہیںتھے اور نہ ہی کوئی تیسرا ملک ان کے درمیان‘ رابطہ کاری کے لئے موجو د تھا۔دونوں ملکوں کی قیادت نے70ء کے عشرے کے آغازمیں محسوس کیا کہ انہیں آپس میں باہمی تعلقات کے امکانات کا جائزہ لینا چاہئے۔دونوں چاہتے تھے کہ یہ کوشش منظر عام پر نہ آئے۔ایسا ہونے کی صورت میں ناکامی کی خبریں شائع ہونا تھیں اور میڈیا جو تبصرے اور تجزئیے کرتا ‘ان سے باہمی تعلقات کے حق میں پیدا ہونے والا خیال حرکت میں آنے سے پہلے دم توڑ دیتا اوردونوں کی خواہشات کے برعکس باہمی کشیدگی زیادہ بڑھ جاتی۔چنانچہ چین اور امریکہ کے کھلاڑیوں کو پنگ پونگ کا میچ کھیلنے کے لئے جاپان بھیجا گیا۔یہ امریکہ اور چین کے شہریوں کا پہلا کھلا رابطہ تھا۔ان کھلاڑیوں کے ذریعے‘ جس پہلے پیغام کا تبادلہ ہو‘اوہ آج تک صیغہ را ز میں ہے۔صرف بعد کے واقعات سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اس میں اعلیٰ سطح کی خفیہ ملاقات پر آمادگی کا اظہار تھا۔ اسی کے نتیجے میںامریکی سیکرٹری خارجہ ہنری کسنجر پاکستان کے دورے پر آئے۔یہ پاکستان کا سرکاری دورہ تھا۔ چین کا دور دور تک ذکر نہیں آیا۔ کسنجر نے پاکستانی حکام سے باقاعدہ سرکاری ملاقاتیں کیں‘ تمام سرگرمیوں کا شیڈول بنایا گیا جیسا کہ سرکاری دوروں میں بنتا ہے۔ کسنجر نے شیڈول کے مطابق ملاقاتیں کیں۔ایک دن اچانک خبر آئی کہ ہنری کسنجر کی طبیعت خراب ہو گئی ہے‘ انہوں نے آرا م اور علاج کے لئے اپنی سرگرمیاں معطل کر دی ہیں۔ دو دن‘ دنیا میں کسی کو خبر نہیں تھی کہ کسنجر کہاں ہیں؟ اچانک ان کی صحت مندی کی خبر آئی ۔وہ اپنے دورے کے آخری حصے کو مکمل کر کے معمول کے مطابق واپس چلے گئے۔ اس راز کا انکشاف اس وقت ہوا جب واشنگٹن اور بیجنگ دونوں سے بیک وقت صدر نکسن کے دورہ چین کا اعلان ہو گیا۔ یہ خبر دنیا بھر میں بم شیل ثابت ہوئی۔عالمی سیاست کی جو بساط بچھی ہوئی تھی‘ وہ الٹ گئی‘ جو فوجی بلاک ایک دوسرے کے خلاف صف آرا تھے‘ ان کی پوزیشنیں مختلف ہو گئیں۔چین ‘سوویت بلاک کے سوا اور کسی کے ساتھ رابطے نہیں تھا۔ اس کے لئے ساری دنیا کے راستے کھلنے لگے اور دنیا پر چین کے راستے کھل گئے۔ امریکی اور سوویت جتھے بندیوں میں جو سرد جنگ ہو رہی تھی‘ اس میں چین نے سوویت مخالف بلاک کے ساتھ رابطے قائم کر کے‘ طاقتوں کا توازن بدل دیا۔یہ صرف اس وجہ سے ممکن ہو سکا کہ چین اور امریکہ میں پہلے باہمی خفیہ رابطے کی خبر ‘منظر عام پر نہیں آئی تھی۔ ایسا ہو جاتا تو عین ممکن تھا کہ سوویت قیادت بروقت چین سے ہنگامی رابطہ کر کے‘ اس کی شکایات دور کر دیتی ۔چین امریکہ کے ساتھ رابطے کے پروگرام کو معطل کر دیتا اور سرد جنگ کے عرصے میں اضافہ ہو جاتا۔اس دوران ایسے واقعات ہو سکتے تھے جن کی وجہ سے امریکہ اور چین کے باہمی رابطوں کی بحالی کے لئے پہلی ڈیل میں تبدیلی کر کے نئی ڈیل کرنا پڑتی۔جو نجانے کیا ہوتی؟
یہ ساری دنیا پر اثر انداز ہونے والی دو طاقتوں کا معاملہ تھا۔ باہمی کشیدگی اور عدم اعتمادی کے اعتبار سے پاکستان اور طالبان کا باہمی معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ طالبان پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور دفاعی مراکز پر حملے کر رہے ہیں‘ ہمارے بے گناہ عوام کا قتل عام کرتے ہیں‘ ہمارے اغوا شدہ شہری اور فوجی ان کی قید میں پڑے ہیں۔ ان کے کئی کمانڈر ہماری قید میں ہیں۔ قانونی اعتبار سے وہ ملک کے باغی ہیں جنہیں ہلاک یا گرفتار کرنا‘ ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ایسے حالات میں دونوں کے مابین رابطے کی کسی ابتدائی اور خام کوشش کا منظر عام پر آنا‘ ماحول کو پہلے سے زیادہ کشیدہ کر سکتا تھا اور دونوں فریقو ں میں رابطے کا جو خیال پیدا ہورہا تھا ‘ وقت سے پہلے اس کاانکشاف ہونے کی وجہ سے‘ ماحول میں پہلے کی نسبت زیادہ تلخی اور کشیدگی پیدا ہو جاتی اور اس کوشش کے نتائج مثبت کی بجائے منفی ہو جاتے۔ میں محسوس کر رہا ہوں کہ مذاکراتی نمائندوں کی ہنگامہ خیز سرگرمیوں‘ کمیٹیوں کے اراکین کے انٹرویوز اور ٹاک شوز پر ہونے والے تبصروں کی وجہ سے‘ دونوں فریقوں کے لئے مشکل ہو چکا ہے کہ اپنے اصل ارادوں کے مطابق پیش رفت کر سکیں۔وہ باتیں جو مذاکرات کو خفیہ رکھنے سے آسانی کے ساتھ طے کی جا سکتی تھیں‘ اب ان پر گلی محلوں میں تبصرے ہو رہے ہیں۔مذاکرات کے لئے ہونے والی پیش رفت خفیہ رکھنے سے مندوبین کا انتخاب حسب ضرورت ہو سکتا تھا۔ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین آسانی سے تبادلہ خیال کر سکتے تھے۔ غرض اس وقت جن امور پر سر عام مباحثے ہو رہے ہیں اگر انہیں خفیہ رکھ کر بات آگے بڑھائی جاتی تو طالبان بھی اپنا ہوم ورک مناسب طریقے سے کر سکتے تھے اور حکومت بھی۔اعتماد سازی کے لئے دونوں جس طریقہ کار پر ا تفاق کرتے‘ ا س پر کامیابی سے عمل کرنا آسان ہو جاتا۔آج مذاکرات کے طریقہ کارپر ملکی ہی نہیں عالمی میڈیا میں بھی خیال آرائیا ں ہو رہی ہیں۔ حد یہ ہے کہ مذاکراتی وفود کی تشکیل کے سوال پر تنازعات پیدا کر دئیے گئے ہیں۔مذاکرات میںفوج کا پیشہ وارانہ کردارہمیشہ خفیہ رکھا جاتا ہے۔آج اس پر بھی میڈیا میں بحث ہو رہی ہے کہ فوج کے نمائندے مذاکراتی ٹیم کا باقاعدہ حصہ بنائے جائیں یا نہیں۔ ایک فریق مطالبہ کر رہا ہے کہ فوج کو شامل مت کرو ‘ دوسرا فریق دلائل دے رہا ہے کہ وفد میں فوج کی شمولیت ضروری ہے۔ کیا یہ سوال ایسا تھا کہ اس پر بحث کا تماشہ لگایا جائے؟کسی نے اس نازک سوال پر بھی غور نہیں کیا کہ پاکستان قانونی‘آئینی اور عالمی اصولوں کے تحت ایک تسلیم شدہ ریاست ہے۔ طالبان کی حیثیت باغی گروہوں کی ہے۔ان کے ساتھ بات چیت کے لئے پاکستانی ریاست ایک فریق کی حیثیت سے نہیں بیٹھ سکتی۔ایسے مذاکرات محض فیلڈ کمانڈر جنگی ضرورتوں او ر طریقہ کار کے لئے طے کیا کرتے ہیں۔ابھی تو یہی سوال فیصلہ طلب ہے کہ کیا حکومت پاکستان کا ایک باقاعدہ وفد باغیوں سے‘ آن دی ریکارڈ بات چیت کر سکتا ہے؟ کیا پاکستان کا آئین اس کی اجازت دیتا ہے؟مذاکرات کے اس کھیل نے دہشت گردی کے خلاف متحد قوم کو بلا وجہ ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے۔ حکومت میں اس سوال پر‘ قوت فیصلہ کی کمی شدت سے محسوس کی گئی اور آج بھی اس کا تذبذب ظاہر ہو رہا ہے۔ رائے عامہ تقسیم ہو چکی ہے۔میری مودبانہ رائے یہ ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سوال پر حکومت خود سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر کے فیصلہ مانگے کہ کیا وہ ریاست کے باغی گروہوں کے ساتھ باضابطہ مذاکرات کر سکتی ہے؟ دوسری صورت میں یہی سوال پارلیمنٹ میں عوامی نمائندوں کے سامنے رکھ کران سے مینڈیٹ طلب کیا جائے ورنہ شدید اختلافات اور متحارب تصورات کے اس ماحول میں‘ مذاکرات بے نتیجہ رہیں گے اور اگر کوئی نتیجہ نکلا بھی تو وہ متنازع ہو جائے گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں