سر زمینِ بے آئین

سمت کا تعین کئے بغیر سفر جاری رکھنے والی قومیں ‘انہی حالات سے دوچار ہوتی ہیں جن سے نکلنے کی جدو جہد میں آج ہم مبتلا ہیں۔ قریباً نصف صدی کا ہمارا سفررائگاں رہا۔ہم نے جو کچھ بھی کیااسے ترقی معکوس ہی کہا جا سکتا ہے۔کسی بھی شعبے کا جائزہ لے کر دیکھ لیں آپ کو ابتری‘ شکستگی اور انتشار دکھائی دے گا۔ ہر خرابی ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہے۔ آپ جس طرف سے بھی گننا شروع کریں خرابیوں کا ایک سلسلہ نظر آتا ہے۔ اگر یہ کہوں تو یہ بیجا نہ ہو گا کہ قائداعظم کے بعد ہمیں جو قیادت نصیب ہوئی ‘وہ نئے قائم ہونے والے ملک کو‘ تعمیر و ترقی کے راستے پر ڈالنے کی اہل نہیں تھی۔ صدیوںسے جغرافیائی تاریخ رکھنے والے ملکوں میں جب صبح آزادی طلوع ہوتی ہے‘ وہاں پہلے سے موجود روایات کا ایک نظام بھی ورثے میں ملتا ہے۔ اسی میں اصلاح کر کے آزادی کا سفر شروع کر لیا جاتا ہے اور وقت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے‘ قومیں اپنی منزل اورسفر کے طریقے دریافت کرتی رہتی ہیں۔ دیگر ملکوں کی تحاریک آزادی سے پاکستان کا اہم ترین فرق یہ ہے کہ ہماری تحریک آزادی میں قریباً ایک صدی تک علیحدہ ملک کا تصور سامنے نہیں آیا تھا۔ہمیں اپنی جغرافیائی حدوں کا آخری دن تک علم نہیں تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آزادی کی تحریکوں کے دوران ملک و قوم کے مستقبل کے لئے جو منصوبے تیار کئے جاتے ہیں‘ وہ وقت کے ساتھ ساتھ سوچ بچار اور باہمی افہام و تفہیم کے عمل سے حتمی شکل اختیار کرتے ہیں‘ انہی پر آنے والے دور کی بنیادیں رکھی جاتی ہیں‘ ہماری بدقسمتی یہ تھی کہ قیام پاکستان کی تحریک پر بطور قوم‘ سارے مسلمان متفق نہیں تھے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کانگریس میں شامل تھی۔ایک بڑی تعداد علیحدہ وطن کی مخالف تھی۔ موجودہ پاکستان کے تین صوبوں میں مسلم لیگ کو با اثر اور فیصلہ سازطبقوں پر برتری بھی حاصل نہیں تھی۔
مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہو چکا مگر جب تک وہ ساتھ تھا‘ ہم متفقہ آئین نہیں بنا سکے ۔ 1956ء میں جو آئین بنایا گیا ‘ اسے بھی عوام کی مکمل تائید حاصل نہیں تھی خصوصاً مشرقی پاکستان میں۔آئین ہی کسی ملک کی بنیادی دستاویز ہوتی ہے۔ہماری تحریک آزادی اس اعتبار سے منفرد تھی کہ باقی ملکوں کے عوام جب آزادی کی جدو جہد کر رہے ہوتے ہیں تو انہیں علم ہوتا ہے کہ ان کے ملک کا جغرافیہ کیا ہو گا؟تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کی واحد تو نہیں مگر منفرد مثال ضرور ہے۔یہ ملک نئی سرحدوں کے ساتھ معرض وجود میں آیا‘حکومتیں بنانے اور چلانے والے‘ ملک کی اساسی دستاویز یعنی دستور بھی تیار نہ کر سکے۔نظم و نسق اور تعمیر و ترقی کی سمت کا تعین کیسے کیا جا سکتا ہے؟دستور کے بغیر ملک چلانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا ہے۔ہم بھی نہیں چلا سکے۔صرف 24برس کے قلیل عرصے میں ہمارا ملک دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا اور ہم نے1973ء میں یعنی آزاد ہونے کے 26سال کے بعد‘ پہلی بار اپنا دستور تیار کیا۔ وہ کون سا معاشرہ ہے جس کا نظم و نسق آئین کے بغیر چلایا گیا ہو؟میں تو یہ سوچ کر حیران ہوجاتا ہوں کہ دستور کے بغیر26سال تک ملک کوچلایا کیسے گیا؟اس پورے عرصے میں ہماری حالت اس کھلونے جیسی رہی جسے استعمال کرنے کے لئے بچے آپس میں لڑتے رہتے ہوں۔ایسی حالت میں سوسائٹی کے اندر نہ روایات قائم ہوتی ہیں‘ نہ پروان چڑھتی ہیں۔معاشرہ اجتماعی عمل سے آشنا ہی نہیں ہوتا۔ ذ ہنی اور جذباتی رویوں میں اجتماعیت جنم ہی نہیں لیتی۔افراد اپنی اپنی جگہ اکائی بن کے رہ جاتے ہیں۔ایک اکائی کا دوسری سے تعلق نہیں ہوتا۔افراد کے مابین غیر مادی رشتے ٹوٹنے لگتے ہیں اور خودغرضی غالب آجاتی ہے ۔ ہمیں بھی خو د سری اور خود غرضی نے ایک دوسرے سے جدا کر دیا اور ہم ایک ہی وطن میں اکٹھے رہنے کے باوجود‘ ایک دوسرے سے جدا جدا رہتے ہیں۔ اجتماعی مفاد کا تصور ختم ہورہا ہے۔ رہی سہی کسر پاکستان مخالف قوتوں نے نکال دی کہ ہر کوئی نظام مملکت چلانے کے لئے اپنے اپنے طریقے پیش کرنے میںلگا ہے۔ حد یہ ہے کہ1973ء کا دستور بنا کے بھی ہم نے اس پر چھ مہینے عمل نہیں کیا۔اس کے نفاذ کے پہلے ہی سال ترامیم شروع کر دی گئیں اور پانچویں سال میں آئین کو ختم کر کے ہم پھر سر زمینِ بے آئین کے شہری بن گئے۔1977ء کے بعد ان گنت ترامیم کے ساتھ جس دستاویز کو آئین کہہ کر چلایا گیا‘ اس کا پاکستان کے حقیقی آئین سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ 2012ء میں آخری ترمیم کے ساتھ جو آئین نافذ العمل ہے‘ اس کے بارے میں بھی اختلافات بڑھتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بات شروع ہو ئی تو آئین ایک بار پھر متنازع ہو گیا اور بحث چل نکلی کہ آئین میں کیا کیا بنیادی تبدیلیاں کی جائیں؟غور کیا جائے تو پاکستان میں مکمل اتفاق رائے سے تیار کیا گیا آئین ‘چار سال سے زیاد ہ اپنی اصل شکل میں کبھی نافذ نہیں رہا۔آزادی کا باقی تمام عرصہ ہم اپنا نظام مملکت‘ آئین کے بغیر چلاتے آرہے ہیں۔آئین کی عدم موجودگی میں خود سری کے ساتھ جو سماجی‘ انتظامی اور جماعتی رجحانات کارفرما رہے‘ ان میں فوقیت انفرادی خواہشوں کو حاصل رہی۔جماعتی کلچر وجود میں ہی نہیں آیا۔آئین اور پارٹی سسٹم کے بغیر اجتماعی مفادات پر سوچنا ہی چھوڑ دیا گیا۔انتخابات میں دھاندلی‘ کرپشن اور مالی سودے بازیاں رواج پکڑ گئیں۔منتخب اراکین‘ اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں قانون سازی پر توجہ دینا ہی چھوڑ گئے۔ اب منتخب نمائندوں کی جماعتی وابستگیوں کی بنیاد‘ ذاتی اغراض ہوتی ہیں اور یہ اراکین پارٹیوں میں شامل ہونے اور الگ ہونے کی واحد وجہ یہ بتاتے ہیں کہ کون سا لیڈر‘ ان کے کام زیادہ کرتا ہے اور کون سا نہیں کرتا؟یہ انوکھی مثال پاکستان میں ہی قائم ہوئی کہ جمہوری اداروں کے دشمن خود جمہوری ادارے ہیں۔وفاق اور صوبے میں جس پارٹی کی بھی حکومت قائم ہوتی ہے‘ اس نے بلدیاتی انتخابات کا پودا ہی جڑ سے اکھاڑ دیا۔ وفاق اور صوبوں میں جو بھی حکومتیں قائم ہوتی ہیں‘ ان میں مختلف جماعتی عناصر ہونے کے باوجود‘ اس بات پر اتفاق رائے ہو جاتا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کو روکا جائے۔ آج بھی یہی کیفیت ہے ۔ جس ملک میں گلی‘ محلے کی سطح پر نہ جمہوریت ہو اور نہ ہی عوامی فلاح و بہبود کے کاموں کے لئے فنڈز دستیاب ہوں‘ وہاں کیسی آزادی؟ کیسی جمہوریت؟ اور کیسا امن و امان؟قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبران نے اپنے اپنے حلقے میں اجارہ داری قائم کر رکھی ہے‘ جہاں پولیس‘ شہری انتظامیہ اور محکمہ مال مکمل طور پر اسمبلی ممبر کے کنٹرول میں ہوتے ہیں اور سیاست ‘جس میں اصل مقابلہ عوام کی خدمت اور انہیں تحفظ و امن فراہم کرنے کے میدان میں ہوتا ہے‘ وہاں بھی خود غرضی کی حکمرانی قائم ہو جاتی ہے۔انتہا یہ کہ ایک ممبر کے دور اقتدار میں شروع کی گئی ترقیاتی سکیمیں اور منصوبے مخالف رکن کے حکومت میں شامل ہونے کے ساتھ ہی بند کر دئیے جاتے ہیں اور نئے شروع ہو جاتے ہیں۔ آپ کو پاکستان کے ہر گائوں میں سکولوں‘ ہسپتالوں اور سرکاری دفتروں کی نا مکمل عمارتیں‘ ہماری ذہنی پستی کا ماتم کرتی دکھائی دیں گی۔یہ سیاسی اجارہ داریوں والے‘ سرکاری محکموں کے ساتھ ساتھ اپنی طاقت بڑھانے کے لئے متوازی انتظامات بھی کرتے ہیں۔ یہ ایسے غنڈے اور بدمعاش ہوتے ہیں جو طاقت کا غیر قانونی استعمال کر کے‘ انفرادی لوٹ کھسوٹ کے نظام کو مضبوط کرتے ہیں۔ اس طرز حکومت کی بھیانک مثال کراچی شہر کے حالات ہیں جہاں امن عامہ پر مامور ہر اتھارٹی نے یہی شکایت کی کہ سیاسی جماعتوں کے ملی ٹینٹ ونگز قابو میں نہیں آرہے۔ یہ شکایت رینجرز کی طرف سے کی گئی جو پاک فوج کا حصہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی طاقت‘ سیاست‘ اقتدار‘ اختیارات اور اتھارٹی کی قصبہ اور محلہ وار تقسیم نے پاکستان کو ہزاروں ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے۔جب طاقت کے اتنے چھوٹے چھوٹے مرکز مکمل اختیارات کے ساتھ ایک دوسرے سے الگ وجود رکھتے ہوں توپھر ضلعی‘ صوبائی یا وفاقی سطح کی فورسز بے اثر ہو جاتی ہیں۔شہری امن و امان بر قرار رکھنے کے لئے رینجرز سے زیادہ طاقتور کوئی ادارہ نہیں ‘ یہ ادارہ بے بسی کا اظہار کرنے لگے تو سوچنا چاہئے کہ ہمارے ملک میں نظم و نسق کی حالت کیا ہو چکی ہے؟ دارالحکومت اسلام آباد میں رینجرز نے امن و امان قائم کرنے کی ذمہ داری قبول کرنے سے معذرت کر لی ہے۔ غنڈہ گردی سیاسی طاقت کا لازمی حصہ بن چکی ہے۔ طالبان کی تنظیم سب سے پہلے افغانستان میں سامنے آئی تھی‘ بعد میںپاکستان کے حالات نے یہاں بھی طالبان کے لئے گنجائش پیدا کر دی۔ افغانستان میں طالبان کی تحریک نا اہل اور ظالم حکمرانوں کے خلاف منظم ہوئی تھی لیکن یہاں طالبان کے نام پر کارروائیاں کرنے والی دہشت گرد تنظیموں کا شمار بھی نہیں کیا جا سکتا۔جہاں تیس چالیس مسلح افراد جمع ہو جائیں‘ ایک علیحدہ تنظیم وجود میں آجاتی ہے۔ ان میں سے بیشتر ڈاکہ زنی‘ اغوا برائے تاوان اوربھتہ خوری میںملوث ہیں۔ نام تو سب اسلام کا لیتے ہیں مگر ان کی عملی زندگی میں اسلامی تعلیمات کا اثردکھائی نہیں دیتا‘ ورنہ خود کش حملے کر کے بے گناہوں کا خون بہانا‘ پر امن شہریوں سے بھتے لینا‘تاوان کے لئے بچوں‘ بوڑھوں اور نوجوانوں کو یرغمال بنانا اور عبادت گاہوں اوردرگاہوں میں بے گناہوں کا خون بہانا‘ اسلام میں کہاں جائز قرار دیا گیا ہے؟وطن عزیز میں طالبان سیاسی جماعتوں کے ملیٹنٹ ونگز‘ ڈاکوئوں کے گروہ‘ کرپٹ سیاست دانوں کے گروپ‘سرکاری خزانہ لوٹنے والے عہدیداروں اور عام شہریوں کو لوٹنے والے جرائم پیشہ گروہ‘ سب ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ یہ علیحدہ علیحدہ مسائل نہیں بلکہ ایک ہی مسئلے کی مختلف شکلیں ہیں۔آج طالبان سے مذاکرات کی کوشش ہو رہی ہے‘ کل کراچی کے بھتہ خوروں سے مذاکرات کرنا پڑیں گے۔ اس کے بعد ڈاکوئوں اور لیٹروں سے... علیٰ ہذالقیاس... وہی مثال یاد آتی ہے کہ گائوں کے کنوئیں میں کتا گر گیا تو دیہاتیوں نے اس میں سے پانی کی بالٹیاں بھر بھر کے نکالنا شرو ع کر دیں تاکہ پانی پاک ہو جائے مگر ان کی یہ ترکیب کامیاب نہ ہو سکی۔ کتا نکالے بغیر کنویں کا پانی کیسے پاک صاف ہوتا؟ہمارے کنوئیں میں تو کرپشن‘فرقہ وارانہ نفرتوں‘ دہشت گردی اور نہ جانے کتنے دیگر کتے گرے پڑے ہیں؟ اور ان کے تعفن سے معاشرہ نڈھال ہو رہا ہے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں