نئے خطرات

قیام پاکستان کے فوراً ہی بعد‘ کسی نہ کسی حوالے سے ہماری خارجہ پالیسی بیرونی تنازعات اور اختلافات کے اثرات میں آگئی۔ہم کسی نہ کسی طاقت یا دھڑے بندی کی حمایت کرتے رہے۔ اس کے عوض ہمیں فوری مفادات ضرور حاصل ہوئے لیکن جو نقصانات اٹھانا پڑے‘ وہ ہمارے مستقبل کو دھندلاتے رہے۔ جب ہم نے آزادی حاصل کی تو قائداعظمؒ کی سربراہی میں حکومت پاکستان نے خارجہ پالیسی کے جو اصول طے کئے‘ وہ آزادی اور غیر جانبداری تھی۔ قائداعظمؒ واضح طور سے چاہتے تھے کہ پاکستان تمام ممالک کے ساتھ تعاون اور برابری کی سطح پر دوستانہ تعلقات استوار کرے۔ تنازعات میں ملوث ہونے سے گریز کرے اور دوملکوں یا ملکوں کے مختلف گروپوں کے مابین مسائل میں فریق نہ بنے۔قائدؒ چند مہینوں کے لئے‘ جتنے حکومتی امور دیکھ پائے‘ ان کے دوران پاکستان کے تمام سفارتی فیصلوں اور اقدامات میں کہیں جانبداری نہیں تھی۔ قائدؒ نے تمام ملکوں کے ساتھ دوستانہ پیغامات کے تبادلے کئے۔ انہوں نے چند جملوں میں قومی خارجہ پالیسی کے جو بنیادی نکات بیان کئے ‘وہ یہ تھے:
ہماری خارجہ پالیسی‘ دنیا کی تمام اقوام کے ساتھ دوستی اور خیر سگالی پر مبنی ہو گی۔
ایسی کوئی چیز نہیں جو ہمیں امن سے زیادہ عزیز ہو‘ ہم امن سے رہنا چاہتے ہیں اور دیگر اقوام کے لئے بھی یہی چاہتے ہیں کہ وہ امن کے ساتھ رہیں۔ 
ہم اپنے تمام ہمسایوں کے ساتھ خیر سگالی پر مبنی دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم کسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتے۔ 
ہماری خارجہ پالیسی قوموں کے مابین طے شدہ اصولوں اور ہمارے قومی مفادات کے تحت ہو گی۔
جب تک قائداعظم ؒحیات رہے‘ پاکستان نہ کسی بلاک میں شریک ہوا اور نہ ملکوں کے باہمی تنازعات میں کسی کی حمایت یا مخالفت کی۔ہم روز اول ہی سے مالی مشکلات سے دوچار تھے۔ جو اثاثے ہمارے حصے میں آئے تھے‘ ان کا کنٹرول بھارت کے پاس تھا اور بھارت ہمارے جائز حصے دینے میں لیت و لعل سے کام لے رہا تھا۔ وہ ہمارے لئے مشکل ترین وقت تھا لیکن قائداعظمؒ نے کسی ملک سے امداد نہیں مانگی۔ اگر ہم اسی پالیسی پر قائم رہتے تو اپنے ملک کی معاشی بنیادیں خود انحصاری کے اصول پر تعمیر کرتے اور یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ایسی صورت میں پاکستان ایک مضبوط‘ مستحکم اور اپنے وسائل پر چلنے والا ملک ہوتا۔قائدؒ کے بعد آنے والی قیادت نے ‘ملکی وسائل میں اضافہ کرنے کے بجائے‘ سہارے تلاش کرنا شروع کر دئیے۔امریکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی اثر و رسوخ میں اضافے کا خواہش مند اور سوویت یونین کے خلاف محاذ قائم کرنے میں مصروف تھا۔ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن‘ سرد جنگ میں اہمیت کی حامل ہو چکی تھی۔ ہماری وزارت خارجہ کے بیورو کریٹس کو براہ راست سفارتی کارکردگی کا تجربہ ہی نہیں تھا۔متحدہ ہندوستان کی آزادانہ خارجہ پالیسی برطانوی حکومت تیار اور عملدرآمد کرتی تھی۔ یہ پالیسی لند ن میں بنائی جاتی۔ دہلی میں صرف احکامات پر عملدرآمد کیا جاتا۔ ہماری سیاسی قیادت کو بھی خارجہ پالیسی چلانے کا تجربہ نہیں تھا ۔اور نہ ہی وزارت خارجہ کے ماہرین کو۔ان صلاحیتوں کے ساتھ ہمارا جو حال ہونا چاہئے تھا وہ ہوا اور آج تک ہو رہا ہے۔
بیرونی دنیا کے ساتھ تعلقات بنانے کے لئے‘ ہم نے با وقار پوزیشن اختیار کرنے کے بجائے پہلا قدم ہی یہ اٹھایا کہ فوری طو ر پر دوسروں سے مدد مانگنے لگے۔اگر آپ 1947ء سے لے کر50ء کے عشرے تک ہونے والی بحث کا ریکارڈ دیکھیں تو آپ کو جا بجا یہ دلائل نظر آئیں گے کہ ہمیں بھارت سے خطرہ ہے۔ہمیں اسلحہ حاصل کرنا چاہئے۔یہ عجیب فلسفہ تھا کہ بھارت سے ہمیں خطرہ ہے اور اسلحہ ہمیں دوسرے فراہم کریں۔اسی سوچ کے تحت امریکہ سے رابطے کئے گئے۔ ظاہر ہے دنیا میں کوئی بھی اپنا پیسہ یا اسلحہ کسی کی مدد کرنے کی غرض سے نہیں دیتا ‘ ہر کوئی پہلے اپنے مفاد کو دیکھتا ہے۔امریکہ نے جب ہمیں نا م نہاد امداد اور قرضے دئیے ‘ ا ن کے بدلے میں ہمیں سرد جنگ میں سوویت یونین کے خلاف امریکی اتحادی بننا پڑا۔ ہم سوویت بلاک اور اس کے حمایتیوں کے دشمنوں کی صف میں کھڑے ہو گئے۔ جس دن ہم دو متحارب قوتوں میں سے ‘ایک کے اتحادی بنے‘ ہماری مصیبتوں کا آغاز ہو گیا۔ جن کے ہم مخالف بنے‘ وہ ہمارے مقابلے میں بہت طاقتور تھے اور جن کے ہم اتحادی بنے ‘انہوں نے ہمارے اصل دشمن کی طرف سے خطرے کی صورت میں ہمارا ساتھ دینے کا وعدہ نہیں کیا تھا۔البتہ ہم مغربی بلاک کو خطرے کی صورت میں اس کی خاطر لڑنے کے پابند تھے۔اس غیر منصفانہ معاہدے یا پیسے کے بدلے غلامی کا نتیجہ وہی ہوا جو ہونا چاہئے تھا۔ جب ہم سوویت بلاک کی مخالف صف میں کھڑے ہوگئے تو اس سے کسی بھلائی کی امید کرنا غلط تھا۔ دوسری طرف پاک امریکہ فوجی معاہدوں کو بہانہ بنا کر‘ بھارت سوویت یونین کے زیادہ قریب ہو گیا اور پہلا فائدہ اسے یہ ملا کہ تنازعہ کشمیر میں بھارت کے غیر منصفانہ موقف پر اسے سوویت یونین کی حمایت مل گئی۔سلامتی کونسل میں سوویت یونین کا ویٹو ہمارے خلاف استعمال ہونے لگا اور طاقتور بھارت نے کشمیر میں اپنے قدم جما لئے۔ اس تباہ کن تجربے کے بعد ہم پر لازم تھا کہ دنیا میں کہیں بھی دو متحارب فریقوں کے مابین‘ فریق بننے کے بجائے غیر جانبداری اختیار کرتے۔
ایوب خان پہلے فوجی حکمران تھے‘ جنہیں عالمی کشمکش میں طاقتور ملکوں کے ایک بلاک میں جانے کا نتیجہ بھگتنا پڑا۔وہ بھی اپنی پیش رو پاکستانی قیادت کی طرح‘ اسی مغالطے میں تھے کہ ہم نے امریکہ کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا ہے تو امریکہ بھی ہمارا ساتھ دینے کا پابند ہو گا۔انہیں خود فوجی معاہدے کے مسودے پڑھنے کی توفیق ہوتی‘ تو وہ جان لیتے کہ مشیروں کا پیدا کردہ یہ تاثر بے بنیاد تھا کہ جنگ کی صورت میں امریکہ ہماری مدد کو آئے گا۔ایسا نہ ہونا تھا‘ نہ ہوا۔ ایوب خان کی کتاب ''پرواز میں کوتاہی‘‘ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ معاہدوں کے تحت‘ امریکہ کو پاکستان کی مدد کرنے کا پابند سمجھ رہے تھے۔جب امریکیوں نے 1965ء کی جنگ میں پاکستان کو فاضل پرزے دینے سے انکار کیا تو فیلڈ مارشل کو دھچکا لگا۔ ہمارے عوام بھی یہی سمجھ رہے تھے کہ امریکہ نے ہمیں دھوکہ دیا۔ حقیقت یہ تھی کہ فوجی معاہدوں کے تحت ہم امریکہ کی مدد کے پابند تھے لیکن امریکی صرف ایک صورت میں ہماری مدد کرنے کے ذمہ دار تھے‘ اگر ہم پر کوئی کیمونسٹ ملک حملہ کرتا۔1965ء کے تلخ تجربے کے بعد بھی‘ افغانستان میں ہم ایک بار پھر امریکی اتحادی بن کر سوویت افواج پر چڑھ دوڑے۔اس کے نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔
میںپرانے تجربات اس لئے یا د دلا رہا ہوں کہ مجھے ایک بار پھر اسی نوعیت کی صورت حال پیدا ہوتی نظر آرہی ہے‘ جو سرد جنگ کے دوران ہم پر مسلط ہوتی رہی۔آج کشمیر اور افغانستان جیسے حالات کو یاد کر کے عوام ڈر رہے ہیں کہ ہم دوبارہ غلط تصورات کے تحت لڑائی میں کود کر تباہ کن نتائج کا شکار نہ ہو جائیں۔ہم نے جب بھی بیرونی مدد حاصل کی ہے ‘ اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ان دنوںڈیڑھ ارب ڈالر کی غیبی امدادکا موضوع زیر بحث ہے۔ پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے ان میں کوئی بھی ہمیںسو دو سو ملین ڈالر دینے کو تیار نہیں۔ امریکہ معاہدے کے تحت جو رقم ہمیں ادا کرنے کا پابند ہے ‘وہ حیلے بہانے سے اسے بھی دبائے بیٹھا ہے اور ہمارے برادر عرب ممالک نے بھی ان برے دنوں میں ہمیں قرض تک نہیں دیا۔ پھر یہ ڈیڑھ ارب ڈالر کہاں سے آگئے؟حکومت کے بیان کے مطابق یہ رقم ہمیں سعودی عرب سے ملی ہے۔ سعودی عرب کے حالات اور ضروریات کو دیکھتے ہوئے صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اس رقم کے بدلے‘ ہم سے خطے میں ہونے والی نئی صف بندی کا حصہ بننے کی توقع کی جا ئے گی۔ اس بار خطے میں جونئی صف بندی ہو رہی ہے‘ اس میں اسرائیل کے سوا سارے ممالک مسلمان ہیں اور سب کے سب ہمارے دور نزدیک کے پڑوسی ہیں۔سعودی عرب اپنے خطے میں پروان چڑھتے ہوئے پرانے اور نئے تنازعات میں ایک سرکردہ فریق کی حیثیت سے ابھر رہا ہے۔ فی الحال خلیج کے ممالک اور اردن اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔دوسری طرف ایران کی قیادت میں ایک نیا بلاک ابھرتا ہوانظر آرہا ہے۔ پاکستان نے خارجہ پالیسی میںبڑی بڑی حماقتیں کرنے کے باوجود ایک عقل مندی کی بات تسلسل کے ساتھ کی ہے اور وہ یہ کہ مسلم ممالک کے باہمی تنازعات میں ہم فریق نہیں بنیں گے۔ ابھی تک اس میں ہمیں کامیابی ہوئی لیکن ڈیڑھ ارب ڈالر کی پر اسرار رقم نے خدشات پیدا کر دئیے ہیں کہ ہم مسلمان ملکوں کی باہمی کشیدگی میںپھنس کر نہ رہ جائیں۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اور رائے عامہ اس معاملے میں نہ صرف تشویش کا شکار ہیں بلکہ خوف زدہ بھی ہیں۔ ضرورت ہے کہ خلیج میں پیدا ہونے والی نئی صورت حال پر‘ حکومت پاکستان اپنے موقف کی سرکاری طور پر جلد وضاحت کرے اور عوام کو یقین دلائے کہ ہم کسی نئی عالمی یا علاقائی گروہ بندی میں شامل نہیں ہو رہے خصوصاً مسلمانوں کے مابین کسی تنازعے میں فریق بننے کی غلطی نہیں کریں گے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں