لاتوں کے بھوت

حکومتیں جمہوری ہوں یا غیر جمہوری‘ پاکستان میں شہری آزادیاں ہمیشہ خطرے میں رہیں۔ قائداعظمؒ کی رحلت کے فوراً ہی بعد‘ مختلف حیلے بہانوں سے شہری آزادیوں کو کسی نہ کسی بہانے سلب کرنے کا عمل جاری رہا۔ کبھی قانون بنائے گئے‘کبھی آرڈی نینسوں کے ذریعے کام چلایا جاتا رہا۔ کسی بھی شہری کو‘ بغیر وجہ کے گرفتار کر کے‘ جیل میں ڈال دینا معمول کی بات تھی۔ انتظامیہ کو کھل کھیلنے سے روکنے کی خاطر جو قوانین بنائے گئے تھے‘ ان میں انتظامیہ پر لگائی گئی پابندیوں کو توڑنے کے درجنوں طریقے ڈھونڈ لیے گئے تھے۔ مثلاً مجسٹریٹ کے آرڈر کے بغیر‘ پولیس کسی شہری کو گرفتار کرنے کی مجاز نہیںتھی۔قانون یہ تھا کہ پہلے علاقہ مجسٹریٹ کو مطلوبہ شہری کا جرم اور اسے تحویل میں لینے کا جواز بتا کر‘ پولیس گرفتاری کا وارنٹ حاصل کرے۔ اس کے بعد مطلوبہ شخص کو تحویل میں لے لیا جائے۔ مگر ہوتا یوں تھا کہ ہر'' ضرورت مند‘‘ تھانیدار‘ علاقہ مجسٹریٹ سے‘ سادہ وارنٹوں پر دستخط کرا کے تھانے کی الماری میں رکھ دیتا۔ بوقت ضرورت ایک یا دو وارنٹ نکالتا ‘ اس پر تاریخ لکھتا‘ ملزم کا نام اور ولدیت لکھ دیتا اور علاقہ مجسٹریٹ کے ''جاری شدہ‘‘ وارنٹ دکھا کر اسے گرفتار کر لیتا۔یہ وارنٹ عموماً پبلک سیفٹی ایکٹ دفعہ تین کے تحت جاری کئے جاتے۔ اس ایکٹ کے تحت مجسٹریٹ کو اجازت تھی کہ وہ مطلوبہ شخص کو‘ نوے روز تک بغیر وجہ بتائے‘ حراست میں رکھنے کا حکم دے سکتا تھا۔بات یہیں پر ختم نہ ہوتی ‘ نوے روز مکمل ہونے کے بعد بھی‘ اگر مجسٹریٹ یا تھانیدار محسوس کرتا کہ گرفتار شدہ شخص کو‘ آزاد کرنے سے قانون کو خطرہ ہے تو تھانیدار کی درخواست پر''مجسٹریٹ صاحب‘‘ نظر بندی میں نوے دن کا مزید اضافہ کر دیا کرتے۔اگر کسی کو برسوں قید میں رکھنا ہوتا‘اس کی رہائی کے کاغذات تیار کر کے‘ جیل سے باہر نکال دیا جاتا۔ جیل سے باہر نکال کے‘ اسے واپس بلا کر بِٹھا لیا جاتا‘ شام کی گرفتاری ڈال کے‘ اسے دوبارہ جیل حکام کے سپرد کر دیا جاتا۔یوں نئی نوے روزہ نظر بندی شروع ہو جاتی‘ جس میں مزید نوے روز کا اضافہ ہو جاتا۔ یوں انتظامیہ جس کو چاہتی اور جب تک چاہتی‘ بغیر مقدمہ چلائے اور بغیر عدالت میں پیش کئے ‘جیل میں رکھ سکتی تھی۔ ایسا اکثر ہوا کرتاتھا۔
اس قانو ن کا سب سے زیادہ استعمال‘ سیاسی کارکنوں کے خلاف کیا جاتا جو عموماً کمیونسٹ‘ سوشلسٹ‘ لیبر لیڈر‘ کسان لیڈر اور حزب اختلاف کی جماعتوں سے تعلق رکھتے تھے۔کالے قانون کی اصطلاح اسی وقت سے رائج ہے۔1958ء میں باقاعدہ مارشل لاء نافذ ہو گیا‘ جس میں ہر طرح کے بنیادی حقوق چھین لیے گئے۔ مارشل لاء کا مطلب ہوتا ہے‘ نہ کوئی آئین اور نہ قانون۔مارشل لاء کی اتھارٹی رکھنے والا کوئی بھی شخص‘ جو منہ سے کہہ دیتا ‘وہی قانون ہوا کرتا۔ ایسی صورت حال میں بنیادی حقوق کا سوال ہی نہیں تھا ۔ جس بنا پر میں نے ‘ماضی کے تجربات کو دہرایا ہے‘ آپ کو یاد دلانا مطلوب تھا کہ قوانین کی سخت گیری سے کبھی مخالفتوں اور بغاوتوں کو روکا نہیں جا سکتا۔ حکومت کی مخالفت کرنے پر جتنی سزائیں دی جاتی ہیں‘ عوام میں اتنے ہی زیادہ‘ باغیانہ رجحانات پروان چڑھتے ہیں۔ ایوب خان سے زیادہ سخت گیر قوانین کوئی نافذ نہیں کر سکا۔ ان کے خلاف جو احتجاجی تحریکیں چلیں ‘ان کی حیثیت بھی تاریخی ہے۔ حد یہ کہ مشرقی پاکستان میں کئی بار آئین معطل کر کے اور ہنگامی 
صورت حال کے نفاذ سے بھی‘ عوام کی احتجاجی تحریکیں کبھی نہیں روکی جا سکیں۔پھر بھی ہر دور کی اسٹبلشمنٹ اس تصور سے نجات حاصل نہیں کر سکی کہ عوام کو حکومت کی مخالفت سے روکنا ہے تو ان کے حقوق سلب کر لو۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہر حکومت ‘بار بار کے دہرائے ہوئے‘ اس تجربے کو پھر سے کیوں دہراتی ہے؟ عوامی حقوق کو سلب کرنے والا کالا قانون‘ جسے آج پھر نافذ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے‘ بلوچستان میں1973ء سے مسلسل نافذ چلا آرہا ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی کی چھوٹی بڑی تحریکیں‘ ہمیشہ اسٹبلشمنٹ کے لئے درد سر بنی رہی ہیں۔ کون سی سختی ہے؟ جو وہاں روا نہیں رکھی گئی۔ کون سی طاقت ہے ؟جو استعمال نہیں کی گئی۔کون سی لا قانونیت ہے ؟جو عوام پر مسلط نہیں رہی‘ انتظامی سخت گیری سے لے کر اسیری‘ ایذا رسانی‘ قید حتی کہ اغوا ‘بلوچوں کے خلاف ہر حربہ استعمال کیا گیا‘ لیکن آج بھی وہاں قانون کی عملد اری نظر نہیں آتی۔لاقانونیت ہر طرف ہے۔ دن دیہاڑے تشدد کی وارداتیں ہوتی ہیں۔ پاکستان اور ایران کے درمیان ٹرانسپورٹ کا استعمال ممکن نہیں رہ گیا۔ حکومت نے ہاتھ اٹھا لئے ہیں۔ وہ ایران کا سفر کرنے والے مسافروں کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتی۔ اب بحری اور ہوائی جہازوں کے ذریعے سفرکرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔پرویز مشرف کے دور میں بلوچوں پر‘ جیٹ طیاروں سے حملے کیے گئے۔ بلوچ رہنما اکبر خان بگٹی کی ہلاکت بھی فضائی حملے میں ہوئی۔ اس صوبے میں امن و امان کی صورت حال پچھلے تیس برس میں کبھی درست نہ ہوئی۔ سکیورٹی فورسز‘ گیس پائپ لائنوں‘ پنجاب جانے والی ٹرینوں‘ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں‘ دکانداروں‘ ٹیچرز اور پروفیسروں پر‘ دن دیہاڑے حملے کیے جاتے ہیں حتیٰ کہ ملک کے بانی قائداعظمؒ کی رہائش گاہ ‘جو قومی ورثے کا درجہ رکھتی تھی‘ اسے بھی جلا دیا گیا۔ آج بلوچستان میںدور دور تک 
امن اور قانون کی عملداری نظر نہیں آتی۔خیبر پختوانخو بھی تیس سال سے بد امنی کی لپیٹ میں ہے۔ پہلے یہ چند علاقوں میں تھی‘ اب یہ پورے صوبے میں پھیل گئی ہے۔پشاور میں دن کے وقت کسی کی حکومت ہو‘ رات کو یہ شہر قانون شکنوں کے قبضے میں ہوتا ہے۔فاٹا میں تو باقاعدہ دہشت گردوں کا راج ہے۔ وہاں سے سینکڑوں کی تعداد میں دہشت گرد مسلح ہو کر شہروں میں داخل ہوتے ہیں اور من مانیاں کر کے نعرے لگاتے ہوئے واپس جاتے ہیں۔ اس دوران سکیورٹی فورسز کے جابجا لگے ناکوں پر ‘انہیں کچھ نہیں کہا جاتا۔ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کی جیلوں کو توڑ کر سینکڑوں کی تعداد میں‘ قیدیوں کو لے جانے کی مثالیں‘ اس بات کا ثبوت ہیں کہ فوجی کارروائیاں بھی قانون شکنی پر تلے عناصر کوپُرامن رہنے پر مجبورنہیں کر سکتیں۔کراچی گزشتہ بیس سال سے بد امنی کی لپیٹ میں ہے۔کون سا جرم ہے؟ جو اس شہر میں نہیں ہوتا ۔ کون سی فورس ہے؟ جسے امن و امان قائم کرنے کے لئے استعمال نہیں کیا گیا؟ کون سی قانونی پابندیاں ہیں؟ جو کراچی میں امن و امان بحال کرنے کے لئے نہیں لگائی گئیں۔ پنجاب بھی 
دہشت گردی کی لپیٹ میں آتاجا رہا ہے۔ ایک سابق وزیراعظم اور ایک سابق گورنر کے بیٹے کو‘ دن دیہاڑے اغوا کر کے لے جایا گیا۔ قبائلی علاقوں تک جاتے راستے میں ‘انہیں سکیورٹی فورسز کہیں نہ روک پائیں۔بھتے کی وبا لاہور تا اسلام آباد‘ ہر جگہ پھیل چکی ہے۔ دہشت گردوں کے ٹھکانے پنجاب میں بھی جا بجا موجود ہیں۔ان تلخ تجربات کے باوجود ہمارے ملک کا نظم و نسق چلانے والی مشینری‘ اس خیال میں ہے کہ وہ بار بار کی دہرائی ہوئی پابندیوں کو‘نئے قانون میں ڈھال کر دہشت گردی پر قابو پا لے گی تو مجھے اپنے مستقبل سے خوف آتا ہے۔ قانون شکنوں نے پرانی قانونی پابندیوں اور کڑی سے کڑی سزائوں کو‘ مذاق کی حیثیت دے رکھی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادار ے دہشت گردوں کے خوف میں مبتلا ہیں۔ اس بات کا اعتراف ملک کی ہر ذمہ دار اتھارٹی کر چکی ہے کہ ہماری سکیورٹی فورسز کے پاس دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لئے نہ تو‘ مطلوبہ اسلحہ موجود ہے‘ نہ تربیت‘ نہ سہولتیں اور نہ ہی وسائل۔ دہشت گرد ہر لحاظ سے‘ زیادہ ہوشیار‘ زیادہ چاق و چوبند اور زیادہ جدید ہتھیاروں سے لیس ہوتے ہیں۔محض قانون سازی کر کے دہشت گردوں اور سماج دشمن عناصر پر قابو پانا اب ممکن نہیں رہ گیا۔ دوسرے طریقے اختیار کرنا پڑیں گے۔منتخب حکومت کو سب سے بڑی سہولت یہ ہوتی ہے کہ عوامی طاقت اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ آج کے لیڈر اگربراہ راست عوام کے پاس جا کر انہیں صورت حال کی نزاکت سے آگاہ کریں‘ آنے والے خطروں سے نمٹنے کے لئے تیار کریں‘ انہیں بتائیں کہ حکومت اپنے وسائل سے دہشت گردوں کی سرگرمیاں ختم نہیں کر سکتی۔ قاتل‘ لٹیرے‘ بھتہ خور اور اغوا برائے تاوان کے مجرم‘ عوام کے اندر اس طرح چھپ جاتے ہیں‘ جیسے پانی میں مچھلیاں۔ دنیا کی کوئی منظم سے منظم سکیورٹی فورس طاقت کے ذریعے ان پر قابو نہیں پا سکتی۔یہ کام صرف اور صرف بیدار‘ ہوشیار اور تیار عوام ہی کر سکتے ہیں۔پاکستانی عوام لاقانونیت‘ دہشت گردی اور جرائم پیشہ لوگوں سے بیزار ہو چکے ہیں۔ انہیں صرف بیدار کرنے کی ضرورت ہے‘ حوصلہ دینے کی ضرورت ہے‘ یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں‘ ان کے ساتھ ہیں‘ عوام کے ساتھ مل کر ان کی ہر طرح مدد کر کے قانون شکنوں کے ہاتھ روکنے کے لئے بے چین ہیں۔ارباب اقتدار کو تقریروں سے نہیں ‘ اپنے عمل سے ثابت کرنا ہو گا کہ واقعی وہ ملک سے قانون شکنی ختم کر کے‘ امن وا مان قائم کرنا چاہتے ہیں۔انہیں اپنے عمل سے عوام کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا۔ ان کے دلوں میں اپنے لئے عزت پیدا کرنا ہو گی۔ ایک بار حکومت‘ عوام کو قانون شکنوں کے خلاف متحد‘ منظم اور متحرک کرنے میں کامیاب ہو جائے تو معاشرے میں چند ہفتوں کے اندر امن بحال کیا جا سکتا ہے۔نئے نئے قوانین بنانے اور نئی نئی سزائیں دینے سے‘ اب کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ پارلیمنٹ میں بلاوجہ بحث و مباحثے ہو رہے ہیں۔ مجوزہ قانونی مسودے کو جیسے چاہیں بدل دیں۔ اس میں جتنی چاہیں ترامیم کر لیں‘ مقصد حاصل نہیں ہو گا۔ایسی کوئی سزا باقی نہیں رہ گئی‘ جسے ہماری انتظامیہ نے استعمال کر کے نہ دیکھ لیا ہو۔بار بار ناکامیوں کو دہرانے کا فائدہ؟کچھ کرنا ہے تو اس طرح کریں کہ عوام کوتبدیلی ہوتی نظر آئے۔ سرکاری مشینری ایک مجرم کو پکڑے گی تو عوام دس کو پکڑیں گے۔یہ معاملہ‘ اب چند ہزار تربیت یافتہ افرادی قوت کے بس کی بات نہیں۔غلاظت کے بڑے بڑے ڈھیروں کو عوامی ریلے ہی اٹھا کر پھینک سکتے ہیں۔لاتوں کے بھوت قانون کی باتیں نہیں مانتے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں